وجود

... loading ...

وجود

صدادبے گی توحشر ہوگا!

جمعرات 11 جولائی 2024 صدادبے گی توحشر ہوگا!

ب نقاب/ایم آر ملک
جمود ہے ،تعطل ہے اور زندگی اس کا شکار ہے!!
عوام کا بنیادی حق جبر اور ظلم کے خلاف پر امن احتجاج ہوا کرتا ہے،مگر موجودہ عوام دشمن حکمرانی نے عوام سے یہ بنیادی حق بھی اپنی ریاستی پولیس ،تشدد،ناجائز مقدمات کے بعد چھین لیا ہے ،یہ اندر کا خوف ہے جس سے ہمارے حکمران نکل نہیں پارہے۔
آمرانہ اندازِ حکمرانی سے جب عوام کے بنیادی حقوق معطل کردیے جائیں تو ریاستوں کے اندرونی تضادات کھل کر سامنے آتے ہیں۔فارم 47کی حکومت کی حالت اتنی نازک ہوچکی ہے کہ وہ اس جمہوری طرز کو بھی برداشت نہیں کر پارہی جو عوام کی نفرت اور غصے کو تحلیل کررہی تھی۔ ماضی کے تمام آمروں کو اپنی تابعداری کا حلف دینے والی عدلیہ آمریت کے تسلسل کو تحفظ دینے کے لیے ہمیشہ سیفٹی والو کاکردار ادا کرتی رہی ، عوام کے حق خود ارادیت پر حملہ دراصل اس بحران زدہ ریاست کے حکمرانوں کا اپنے آپ پر وار ہے ۔
ہم دیکھتے ہیں کہ عمومی حالات میں اس عدلیہ نے حکمران طبقات کے مفادات کے تحفظ کے لیے ہمیشہ معاون ادارے کاکام کیا۔بوقت ضرورت آمر بڑی مہارت سے عدلیہ آئینی ماہرین کروڑ پتی وکلاء وقت کے نامی گرامی دانشوروں کے ساتھ ساز باز کرکے سول حکمرانی کالبادہ اوڑھنے میں کامیاب ہوتے چلے آرہے ہیں اور باآسانی سول صدر اور سربراہ مملکت قرار پاتے ہیں ۔ ایوب دور آمریت کاباب اٹھا کر دیکھ لیں وہ واحد آمر تھا جس نے صرف 2سال سے کم عرصہ کے لیے اپنا جابرانہ تسلط قائم کیا ۔ بعدازاں اس نے 1960ء میں ایک نیا آئین تشکیل دیااورسویلین سربراہ بن گیا ۔ یہاں تک کہ 27اکتوبر1958ء کی فوجی بغاوت کے بعد بھی اس نے سول کابینہ اور سویلین وزراء کو اپنے ساتھ ملائے رکھا ۔ یہ وزارتی ٹیم دائیں بازو کی پارٹیوں کے افرادپر مشتمل تھی ۔
ضیاء نے بھی یہی کچھ کیا ۔اے کے بروہی اور شریف الدین پیر زادہ جیسے ماہرین قانون وآئین کو اپنی آمریت کے قانونی و آئینی جواز فراہم کرنے کے لیے استعمال کیا ۔ مشرف آمریت میں اپنے پیش رو آمروں سے مختلف کام دکھلایا اور 2000ء میںغیر جماعتی بنیادوں پر بلدیاتی جمہو ریت متعارف کرائی۔12اکتوبر1999ء کا خود ساختہ ڈرامہ بھی مشرف نے شریف برادران کی گرتی ہوئی عوامی مقبولیت کو دوبارہ زندگی دینے ،سابقہ نہج پر لانے کیلئے رچایا جس کا ثبوت وہ این او آر تھا جو غداری میں ملوث ایک مودی کے یارکو ملا ، مشرف نے وطن عزیز کو دہشت گردی جیسے ناسور میں مبتلا کرنے کے بعداس منافع بخش صنعت سے اپنا بینک بیلنس اربوں روپے تک بڑھایا ۔ مہنگائی اس دوران اتنی بڑھی کہ محنت کش لوگ خود کشیاں کرنے لگے ، بیروزگاری کی اذیت میں ایک پوری نسل مبتلا ہوگئی ، بیماریاں بڑھیں اور علاج سکڑ گیا۔بلدیات کے نئے نظام نے بدعنوانی کے نئے ریکارڈ قائم کیے۔ وطن عزیز میںمچے اس سنگین کہرام کو دیکھتے ہوئے میاں محمد نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے 14 مئی 2006ء کا چارٹرڈ آف ڈیموکریسی تشکیل پایا۔جو دراصل مشترکہ مفادات کو لگنے والی ٹھیس کے خلاف ایک دستاویز تھی جس میں سب سے اہم بات یہ تھی کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی غیر آئینی طریقوں سے ایک دوسرے کو کمزور یا نقصان پہنچانے کی کوشش نہ کرینگے، جبکہ ایک شق جس پر عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف نااہل قرار پائے یہ تھی کہ عدلیہ کی آزادی اور وقار کے شایان شان اعلیٰ ججوں کی تقرری کی غرض سے ہر قسمی غلطیوں سے مبرا اور غیر جانبدار طریقہ کار قائم کرنا ۔مگر کیا میاںبرادران نے اپنے ماضی سے سبق سیکھا ،اپنے لے پالک صدر رفیق تارڑ جس نے جسٹس سجاد علی شاہ کیس میںنوٹوں کے بریف کیس لیکر ججوں کے ضمیر خریدے کے ایک غیر منتخب قریبی عزیز کووزیر قانون بنادیا گیا جو قانون کی شریفوں کی حسب منشا ،حسب خواہش تشریح کرتا ہے ، چاہیے تو یہ تھا کہ مشرف کااحتساب ہوتا اس کی لوٹ مارکرنیوالی باقیات سے تمام شعبوں کو پاک کیاجاتا ۔ اس کی ہر پالیسی کا تحفظ یقینی بنایاگیا 94ارب روپے کی کرپشن کے ضلعی نظام کو تحفظ فراہم کیاگیا جس کے بارے میں میاں شہباز شریف چیخ چیخ کر اظہار کرتے رہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ 8فروری 2024 کے بعد ایک نئے پاکستان کی تشکیل ہوئی ۔ پہلے والا پاکستان نہیں جب چند ہی لوگ باہر نکلنے کی جرأت کرتے ،ایک بڑی عوامی جماعت پاکستان تحریک انصاف سے اس کا انتخابی نشان چھین جانے کے بعد بھی لوگوں کے ایک سیلِ رواں نے دہلیز پار کی،پاکستان تحریک انصاف سے وابستہ امیدواروں کے نشانات ڈھونڈھ ،ڈھونڈھ کر ٹھپے لگائے ۔8فروری ایک ایسا روز تھا جب وطن عزیز دراصل ایک انقلابی کیفیت سے گزر رہا تھا جس کی پہچان حکمرانوں پر عدم اعتماد ، مڈل کلاس میںبے چینی ،بیزاری ، محنت کش طبقات میں جدو جہد کرنے کے حوصلے اور اظہار سے ہوئی ۔یہ سارے فیکٹر شہروں میں نکلنے والے عوام کے اشتعال اور غصے سے نظر آرہے تھے ۔میثاق جمہوریت کے پیروکاروں نے اسی پر اکتفا نہیں کیا جعلسازی سے عوام کے ووٹ پر بھی ڈاکہ مارا گیا۔
نپولین نے ایک دفعہ کہا تھا کہ جنگ میں بعض اوقات ایسے لمحات آتے ہیں جب آپ جو بھی کرتے ہیں وہ غلط ہوتا ہے۔ کیاموجود بحران نے عمران خان کو ہیرو اور پیپلز پارٹی ،ن لیگ کی قیادت کو ولن نہیں بنادیا؟ تاریخ کا یہی سبق ہے کہ جو تاریخ سے نہیں سیکھتا وہ تاریخ کو دُہرانے پرمجبور ہوجاتاہے۔ آج یہ تاریخ کا سچ اپنی پوری توانائیوں کے ساتھ ہم سب کے سامنے کھڑا ہے ۔
فیکٹریاں بند ہورہی ہیں مزدور بے روز گار ہورہے ہیں۔ جب روز گار کے دروازے بند ہوجائیں گھر میں چولھا جلانے کے لیے گیس ہو نہ ہی سوداسلف کے پیسے، انسان بھوک سے مررہے ہوں تو محبت تجارت خاندان دین آرٹ حب الوطنی حقائق نہیں محض الفاظ کے سائے ہوتے ہیں۔بھوکے پیٹ کے کان نہیں ہوتے ۔وہ زندہ ہے بی بی اور جئے بھٹوجیسے نعروں پر ہنستا ہے۔ بھوک بڑی خطرناک چیز ہے۔ جنگ زلزلوں سے زیادہ خوفناک ایٹم بم سے زیادہ تباہ کن۔ حضرت سعدی کا کہنا ہے کہ جب دمشق میں قحط پڑا تو لوگ عشق کرنا بھول گئے ۔بنگال میں قحط کے دوران صرف ایک مٹھی چاول کے حصول کے لیے ایک ماں نے اپنی بچی بیچ دی۔ لینن گراڈ کے محاصرے میں20لاکھ روسیوں کی ہلاکتوں کے دوران لوگوں نے اپنے جوتے ابا ل کر کھائے ۔ چوہے سانپ اور بچھو بھوکے انسانی درندوں کو دیکھ کر چھپ جاتے ۔ آج وطن عزیز کی حالت بھی یہی ہے کہ رو ز گار کے دروازے بند ہورہے ہیں ۔گھروں میں چولھا جلانے کے لیے گیس نہیں۔ سودا سلف لانے کے لیے پیسے نہیں۔ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں 148بیرل سے گر کر37ڈالر فی بیرل تک پہنچ گئیں۔ لیکن وطن عزیز میںیہ قیمتیں بدستوربڑھتی جارہی ہیں۔ ایسے میں قومیں حکمرانوں کے خلاف سوچناشروع کردیتی ہیںاور کچھ کرنے کی خواہش جنم لیتی ہے۔اس خواہش کااظہار شروع ہوجاتا ہے۔اس کو روکنا مشکل اور پھر ناممکن ہوتا ہے ایسا ہماری تاریخ میں پہلے بھی ہوا۔ جب ایوب آمریت کے خلاف چینی کے نرخ بڑھنے سے تحریک کا آغاز ہوا۔ اور انجام کار پاکستان میں اس آمر کے تمام ڈھونگوں ترقی کے دعوئوں کو سڑکوں بازاروں شہروں اور دیہی علاقوں میں رسوا کن شکست ہوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر