... loading ...
سمیع اللہ ملک
”میں کل خصوصی طورپرآپ سے ملنا چاہتاہوں،لندن میں میراقیام صرف آٹھ گھنٹے کاہوگا،کیا آپ کے پاس وقت ہوگا کہ چند گھنٹہ ہم اکٹھے مگراکیلے گزارسکیں”۔میں اس آواز کولاکھوں میں پہچان سکتاتھا۔”کیوں نہیں،میں آپ کوخود لینے کیلئے ائیرپورٹ پہنچ جاؤں گا۔میں نے اس کی فلائٹ کی تفصیلات ایک کاغذکے ٹکڑے پرلکھ کرمحفوظ کرلیں۔اس کا بچپن اورجوانی امریکی ریاست ایریزونامیں بسرہوئی۔یہ ریاست بے آب وگیاہ پہاڑوں،ریگستانوں اورتھوڑے سے باغات کی وجہ سے بالکل ایسے لگتی ہے جیسے بلوچستان ہے۔اگران وادیوں کے درمیان ایک شاندارموٹروے نہ گزررہی ہواورجگہ جگہ خوبصورت ہوٹل اورپیٹرول پمپ نہ ہوں توایسے لگے جیسے سوراب سے پنجگور جا رہے ہیں یاپھرکاکڑ خراسان سے لورالائی جارہے ہیں۔
میساچوسٹس یونیورسٹی سے اس نے انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی اورایک عام امریکی کی طرح زندگی گزارنے لگا۔چونکہ ایک ایسی ریاست سے اس کا تعلق تھاجہاں پانی کی کمی کامسئلہ تھا،اس لئے اس نے اپنے علم کوپانی کی تلاش اورترسیل کیلئے مخصوص کرلیا۔اکثرپڑھے لکھے امریکیوں کی طرح اسے بھی عالمی اداروں اوربڑی بڑی عالمی کمپنیوں میں ملازمت ملنا مشکل نہیں تھی۔اسے بھی ایک ایسی ہی ایک انٹرنیشنل کمپنی میں ملازمت مل گئی جس کی وجہ سے اسے افریقہ کے ایسے ممالک میں کام کرنے کا موقع ملاجہاں قحط ،خشک سالی،غربت اورمحکومیت ہرجگہ نظرآتی تھی۔یہاں اس امریکی کے سامنے اس کے اپنے ملک اوراپنے ہم مذہب لوگوں کادہرامعیارپہلی دفعہ نظرآیا۔صومالیہ میں اس کی پوسٹنگ نے جلتی پرتیل کاکام کیا۔ اس نے قحط زدہ لوگوں کی امدادکے نام پرآئے ہوئے امریکیوں کوایک خاص تعصب کے ساتھ مسلمانوں پرگولیاں برساتے دیکھا ۔ اس نے سوڈان میں کیمیائی ہتھیار تباہ کرنے کے نام پروہاں کی سب سے بڑی دوائیوں کی فیکٹری تباہ ہوتے دیکھی،جس کے بعد وہاں کے مسلمان عام اسپرین کی گولی کیلئے بھی ترسنے لگے اوریہاں تک کہ9 جولائی2011 کواس ملک کے دوٹکڑے کرکے ایک حصہ پرعیسائی حکومت قائم کردی گئی،اس کے ساتھ ہی براعظم افریقہ کااب تک کاسب سے بڑا معدنیات سے مالامال ملک دوحصوں میں یعنی شمالی اورجنوبی سوڈان میں تقسیم کردیاگیاجبکہ مئی2011کے آخرمیں شمالی افریقاکی حکومت نے تیل سے مالامال علاقے”ابئی”پراستعمارکی درپردہ مددسے قبضہ کرلیاتھاجس پراب تک شمال اورجنوب دونوں اپنادعویٰ کررہے ہیں۔
میری اس سے ملاقات آج سے25سال پہلے جنوری1999میں ایشین ڈیولپمنٹ بینک کے ہیڈکوارٹر”ماندایولونگ منیلا”میں ہوئی۔ مجھے وہ اپنے مسلمان ہونے کے انتہائی دلچسپ واقعہ سے بھی آگاہ کرچکاتھا۔ہزاروں کمروں کی اس عمارت میں اس صرف اس کے کمرے کے باہربسم اللہ الرحمن الرحیم کی خوبصورت گولڈن تختی لگی ہوئی تھی۔ یوں تومنیلاکے شہرمیں ہزاروں مسلمان رہتے ہیں اور ایشین بینک میں بھی کئی مسلمان کام کرتے ہیں جن میں پاکستانی بھی ہیں لیکن جس کمرے کے دروازے سے اس بات کا اظہارہوکہ وہ مسلمان ہے،وہ جوزف کاکمرہ تھاجواب اپنے آپ کویوسف کہتاتھا۔ایک قدآورگوراامریکی جسے اللہ تعالی نے ہدایت دی تواس نے صومالیہ کی ایک کالی مسلمان لڑکی سے شادی کرلی۔ہدایت کانوربھی عجب ہے،آدمی کے اردگرداپناہالہ بنالیتاہے۔ منیلاکے مسلمان بھی اس ہالے سے متاثرہوئے بغیرنہیں رہ سکے۔وہ دیکھتے تھے کیاعجیب امریکن ہے،انگریزی بول رہاہوتو ہمیشہ اللہ کے ذکرپر”اللہ سبحانہ تعالیٰ” پڑھتا ہے ”گاڈ”کالفظ قطعا استعمال نہیں کرتااورپیارے محمدۖکانام آئے توپورادرود شریف پڑھتاہے۔وہ تمام الفاظ جومسلمان کی پہچان ہیں،جیسے اسلام علیکم،بسم اللہ،سبحان اللہ اورالحمد اللہ،سب اسی طرح بولتاہے۔ کبھی اس نے”ہائے،تھینکس گاڈ،گڈلک”نہیں کہا۔ اتنے بڑے ادارے میں کام کے دوران ہزاروں تقریبات ہوتی ہیں،کسی کی بات پسندآ جائے توتالی نہیں بجاتا،زورسے اللہ اکبرکہہ دیتاہے۔
اس کے گھرمیں ایک عجیب عالم تھاجومیں نے دیکھا۔حجاب میں ملبوس ایک بیوی اورایک سات سالہ بیٹی فاطمہ،میں جس دن اس کے گھر گیا تویوسف نے بتایاآج کے دن یہ پیدا ہوئی تھی لیکن اس گھرمیں کوئی سالگرہ کاسماں نہیں تھا۔میں نے پوچھاتوفاطمہ نے خودکہامیں سالگرہ نہیں مناتی۔میں نے کہا:اس میں دوست آتے ہیں،تمہیں تحفے ملتے ہیں۔اس نے بڑی معصومیت سے کہا”میرے ماں باپ ہی میرے بڑے گہرے اوراچھے دوست ہیں اورمیری اچھی باتوں سے خوش ہوکرتحفے دیتے ہیں،پھراس رسم کی کیا ضرورت ہے۔ میں نے تحفے کی تفصیلات پوچھیں تواس نے بڑی سادگی سے جواب دیاکہ”آپ کوشائدعلم نہیں کہ میری والدہ حافظِ قرآن ہیں اورمیں نے بھی اپنی والدہ کی مددسے پچھلے ہفتے مکمل قرآن کریم حفظ کیاہے،بھلااس سے بڑاتحفہ اورکیاہوسکتاہے”۔ یوسف کی بیوی نے کہا”ہم لوگ یہاں کسی کلب وغیرہ میں نہیں جاتے،ڈانس نہیں کرتے لیکن ایک دفعہ ہم تینوں بے اختیارخوشی سے ناچ اٹھے جب پاکستان نے ایٹمی دھماکہ کیاتھا”۔
لیکن جس بات نے مجھے حیرت اورشرمندگی میں ڈال دیاوہ شائدہم سب کوبحیثیت مسلمان حیرت میں ڈال دے۔میں اس کے ساتھ ایشین بینک کے ایک کمرے میں جسے لوگوں نے نمازپڑھنے کیلئے مخصوص کیاتھا،نمازپڑھنے گیا۔میں قصرکی آدھی نمازپڑھ کرتھوڑی دیرمیں باہر آگیا،لیکن اسے وہاں سے باہرآنے میں پون گھنٹہ لگ گیا۔میں حیران تھاکہ یہ شخص میرااتنابھی خیال نہیں کرتاکہ میں باہرکھڑااس کاانتظارکررہاہوں۔میں یہ سوچ رہا تھااورکڑھ بھی رہاتھاکہ وہ میرے پاس آیااوربڑی شرمندگی اورانتہائی عاجزی سے کہنے لگا کہ”اصل میں تم لوگوں نے بچپن سے رب کریم کاذکرسناہوتاہے،مسلمان گھرمیں پیداہوتے ہو،اس لئے تم نمازپڑھتے ہوئے اللہ تعالی کاتصورذہن میں لانے میں کتنی آسانی ہوتی ہے،مجھے اس کیفیت کوخودپرطاری کرنے میں اورذہن کویکسو کرنے میں توآدھ گھنٹہ لگ جاتاہے کہ میں رب ذوالجلال کے حضورکھڑاہوں جومیرے دل ودماغ کے چھپے ہوئے خیالات سے بھی واقف ہے۔آپ مہربانی کرکے کوئی ایسا طریقہ بتائیںکہ میں جلدی سے اللہ تعالی کے تصورمیں اپنے آپ کویکسوکرسکوں”۔اس جملے کوسن کرمیں لرزاٹھااور میری آنکھوں سے یک دم آنسو چھلک پڑے،شرم سے میرا سر جھک گیا۔میرے دامن میں ایمان کی کمتری کے سوا کچھ نہ تھااورچندمنٹ قبل میں بلڈنگ کی جس بلندی پرکھڑانیچے گاڑیوں اورانسانوں کے اژدھام جو معمولی نقطوں کی طرح نظرآرہے تھے،یوں محسوس ہواکہ کسی نے مجھے یہاں سے نیچے دھکادے دیاہے۔یوسف میری یہ حالت دیکھ کرپریشانی میں افسوس کااظہارکررہاتھاکہ اس نے نجانے کوئی دل دکھانے والی بات کہہ دی ہے لیکن وہ اب تک نہیں جان سکاکہ مجھے جوآئینہ اس نے دکھایا،میں اس میں خودکودیکھ کرنڈھال ہو گیاہوں۔
میں شرمندہ کیوں نہ ہوتا،ہم تواپنے رب کے سامنے جاتے ہوئے اتنابھی خوف نہیں کھاتے جتناایک پٹواری یاتھانیدارکے سامنے جاتے ہوئے کھاتے ہیں۔ہم انگلش میڈیم میں چارجماعت پڑھ لیں توہمیں اتنی دیرتک سکون نہیں ملتاجب تک تھوڑامنہ ٹیڑھاکرکے ”وش یوگڈلک،اوہ گاڈ”نہ کہہ لیں۔میری آنکھوں میں آنسوؤں کی جھڑی دیکھ کریوسف مجھ سے متاثرہورہاتھاکہ میں اللہ تعالی کے خوف اورخشیت کی وجہ سے رورہاہوں،حالانکہ میں تو اپنے ایمان کی کمزوری،اپنے عمل کی کمتری اورشرمندگی کی وجہ سے رورہاتھا۔صحیح تھا، تھانیدار،پٹواری،وزیر،چیف سیکریٹری،گورنراوروزیراعلیٰ ایسے کئی خداؤں کے سامنے خوف سے کانپنے والے مجھ جیسے مسلمان ایک ان دیکھے اللہ کے سامنے کیسے خوف سے کانپ سکتے ہیں؟
قارئین!مجھے اس کی آمدکاسن کرایک خوف طاری ہوگیاہے کہ اگراس نے اپنایہ سوال دہرادیاکہ آخرمسلمان اس قدرذلیل ورسوا کیوں ہورہے ہیں تواس کامیں کیاجواب دوں گا؟ تمہارے کہنے پرمیں نے اکتوبر2007میں اپنے کیریئرکوداؤپرلگاکراس وقت کے فوجی آمرپرویزمشرف سے ملاقات کرکے ان کی خواہش پرپانچ نکاتی فارمولہ دیاتھااورساتھ ہی یہ کہاتھاکہ اگرآپ اپنے موجودہ وزیراعظم (شوکت عزیز) کی مالیاتی پالیسیوں پرعملدرآمدفوری طورپرروک دیں تویہ ملک کے حق میں بہترہوگا،اس نے بلا جھجک یہ مشورہ بھی دیا کہ اگراس پرعمل نہ کیا گیاتواگلے بیس سال میں ایٹمی پاکستان کاکیاحشرہوگا۔میں جب آج کاپاکستان دیکھتاہوں تواس کے بتائے ہوئے سارے خدشات کوسامنے دیکھ کردل بیٹھنے لگتاہے۔ رہے نام میرے رب کا جو دلوں کے بھید جانتا ہے!
بہت شدید تشنج میں مبتلالوگو!
یہیں قریب،محبت کاایک قریہ ہے
یہاں دھوئیں نے مناظرچھپارکھے ہیں
مگرافق بقاکاوہاں سے دکھائی دیتاہے
یہاں تواپنی صداکان میں نہیں پڑتی
وہاں خداکاتنفس دکھائی دیتاہے