وجود

... loading ...

وجود

صداقت بہ مقابلہ حقیقت

جمعرات 11 جولائی 2024 صداقت بہ مقابلہ حقیقت

زریں اختر

سچائیاں ازلی ،ابدی، کائناتی اور آفاقی ہوتی ہیں ۔ ان تک پہنچنا مشکل نہیں لیکن یہ ہر ایک کی پہنچ میں نہیں۔ ان کے مقابلے میں زمینی حقیقتیں دیو ہیکل ، غلیظ ، بدبو دار ، چپچپی ،کریہہ ، خوف ناک ، دہشت ناک ، ہولناک ؛ایسی ایسی شکلیں کہ الفاظ کم پڑ جائیں ، مترادفات جواب دے جائیں، کلمات ہانپنے لگیں اور لغات کا دم پھول جائے۔ بہ ظاہر لگتا ہے کہ یہ سچائیوں کو ہڑپ کرجاتی ہیں، لیکن نہیں ،سچائیاں اپنا وجود ہمیشہ برقرار رکھتی ہیں،دوبارہ ظاہر ہوتی ہیں،ہمیشہ سے یہی ہوتا آرہا ہے، حقیقت کو بالآخر منہ چھپانا پڑتاہے اور منہ کی کھانی پڑتی ہے۔ سچ صبر کرتاہے ، حقیقت اتائولی ہوتی ہے۔ حق اور حقیقت کی یہ کش مکش اپنی جگہ ایک بہت بڑی حقیقت ہے ،کش مکش سچائی نہیں، سچائی نے مقابلے پہ آکے اس کش مکش کو جنم دیا ہے ، ورنہ حقیقت ہی حقیقت ہوتی اور سچائی کا کہیں وجود نہ ہوتا، جس طرح خوب صورتی کی پہچان بد صورتی ہے اسی طرح حقیقت کی پہچان صداقت ہے۔ سچائی خیر کا خمیر رکھتی ہے اور حقیقتیں شر کے خمیر سے گندھی ہوتی ہیں۔
سچائی کے بطن سے تہذیب ہویدا ہوتی ہے ۔ اس عمل میں اتنا وقت لگتاہے کہ جانو ایک نسل ، پھر تہذیب کے مقابل وہ حقیقت ہوتی ہے جو بوڑھی ،عمررسیدہ ہوچکی ہے ، اس کی کمر جھک گئی ، بال سفید ہوگئے ، آنکھوں میں موتیا اتر آیا ؛ سچائی کبھی سطحٰی نہیں ہوتی ، وہ ہمیشہ سے ہی جھک کر چلتی ہے اورجھک کر ملتی ہے ، شور سنتی ہے ، آہستہ بولتی ہے ،وہ بدبو میں اپنی ناک پر رومال نہیں رکھتی ، اس کی قسمت میں انتظار ہے ، وہ انتظار کرتی ہے ، وقت کے فیصلے کا ، وقت کا فیصلہ جو ہمیشہ سچ کے حق میں ہوتا ہے کیوں کہ بول بالا سچ کا ہی ہونا ہے، کبھی سنا حقیقت کا بول بالا؟
میری زندگی کی ایک بڑی سچائی جسے زمینی حقیقت کھاگئی لیکن سچ زندہ رہا،کبھی سسکتا،لرزتا ، کانپتا لیکن زندہ اور اٹل ، اٹل حقیقت سے زیادہ اٹل۔
خبر شائع کرنا یا نہ کرنے کا فیصلہ ، ابلاغیات کا ایک نظریہ دربان کا نظریہ(گیٹ کیپنگ تھیوری) ، عرصہ قبل میرے ایک سابق جامعہ کراچی فیلو جو ایک بڑے اخبار میں تعلیمی خبریں دیتے ہیںنے مجھے بتایا کہ” آپ کے شعبے کے صدر آپ کے خلاف خبر لگوا رہے تھے کہ یہ کلاسیں نہیں لیتیں ،تو میں (رپورٹر)نے ان سے کہا کہ نہیں نہیں ، وہ جامعہ میں ہمارے ساتھ رہی ہیں ، میں یہ خبر نہیں لگائوں گا”۔ یہ بات انہوں نے مجھے پریس کلب میں ایک اتفاقی ملاقات میںراز دارانہ انداز میں بتائی۔ یہ دربان کے نظریے پر عمل تھا جو جامعہ کے ہم مکتب نے کیا۔کس دماغ کے لوگ ہوتے ہیں جنہیں ایسے اعلیٰ خیالات سوجھتے ہیں؟ اگر کوئی استاد کلاسیں نہیں لے گا تو ادارے کی سطح پر کارروائی ہوگی یا خبریں لگیں گی، مخالف کی خبریں لگوانا ، ان کے خلاف پروپیگنڈہ کرنااور شخصیت بنانا بگاڑنا ؛ کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیںہیں ؟
ایک دفعہ یہ ہوا کہ میری طبیعت خراب تھی اورمجھے پرچہ لینا تھا۔ میں نے اپنے بھائی کو فون کرکے بلایا کہ نو بجے سے پہلے وہ پرچہ شعبے میں پہنچادیں ۔ میرے بھائی مجھے ایک عرصے تک جامعہ چھوڑنے جاتے رہے ہیں او رصدر شعبہ بھی ان کو پہچانتے تھے، ان کو بھی میں نے میسیج کردیا کہ میری طبیعت ٹھیک نہیں اور بھائی کے ہاتھ پرچہ بمعہ فوٹو کاپی بھجوا رہی ہوں۔ میرے بھائی گھر سے پرچہ اور اس کی فوٹو کاپیاں لے گئے ،میں نے بھائی کو بتادیا کہ میں نے انہیں میسیج کردیا ہے۔ یونی پہنچ کر انہوں نے فون کیا کہ میں شعبے کے نیچے کھڑا ہوں اور خان صاحب آئے اور مجھے دیکھ کر اوپر چلے گئے ، کیا تم نے انہیں میسیج نہیں کیا؟ میں نے کہا کہ آپ اوپر جا کر دے دیں، میرے بھائی کا میرے پاس دوبارہ فون آیا کہ وہ پرچہ نہیں لے رہے اور کہہ رہے ہیں کہ وہ خود آئیں۔ اب میں کیا کرتی ؟ میں نے ان سے کہا کہ آپ بنڈل ان کی میز پر رکھ دیں اور کہیں کہ وہ آرہی ہیں۔ مجھے الٹیاں لگی ہوئی تھیں۔ میں شعبے میں سیدھی صدرِ شعبہ کے کمرے میں پہنچی اور کہا کہ اگر مجھے الٹی ہوئی اور باتھ روم تک نہیں پہنچ سکی تو یہیں آپ کے کمرے میں کردوں گی۔ ان کی دوست آئیں او ر کچھ بات کرنے کی کوشش کی لیکن یہ سب ناقابل ِ فہم اور غیر انسانی روّیے ناقابل ِ برداشت تھے، اس وقت میں ان کی بات سننے کی ذہنی و جسمانی کیفیت میں نہیں تھی اور غصے میں کمرے سے باہر نکل گئی۔ ان کی یہ دوست خان صاحب کو دوستی میں ”کمینہ ” کہتی تھیں ، میں نے ہمیشہ ان کی دوستی کو قدر کی نظر سے دیکھا۔
وہ شعبے میں ابتدائی دن تھے ۔ ”جاننے کا حق ” کانفرنس ہوئی ۔ خان صاحب نے اس کی روداد لکھنے کا کام میرے سپرد کیا۔ میںاپنی امی کے گھر سے اپنے بھائی کا ٹیپ ریکارڈر یونی لے کر گئی اور ایک ایک جملہ سن سن کر براہِ راست ان پیج پر ٹائپ کرنے کا کام شروع کیا۔ روداد چھپ گئی ۔ عرصہ گزر گیا۔اب ہم اپنے اپنے اصل چہروں کے ساتھ مدّ ِ مقابل آچکے تھے ۔ ایک او رکانفرنس ہوئی جس میں ہمیں پیچھے رکھا گیا۔ لیکن خان صاحب کی حدیں وہ ہی جانیں۔ انہوں نے ایک اجلاس میںمعروف صحافی حسین نقی سے روسٹرم پہ یہ کہلوایا کہ اب اس کانفرنس کی جو روداد چھاپیں تو اس میں پروف ریڈنگ کی غلطیاں نہیں ہونی چاہئیں،جیسی پچھلی کانفرنس کی روداد میں تھیں، ہم نے دیکھا کہ اسٹیج پر موجود دیگر مہمانوں کے ساتھ موجود خان صاحب نقی صاحب کی بات پر اثبات میں سر ہلارہے ہیں ۔ میں حیران رہ گئی، اس کانفرنس میں اس پچھلی روداد کا تذکرہ نقی صاحب کو ان معنوں میں کیسے یاد رہ سکتاہے؟ اور وہ بھی تو شعبے کا ہی کام تھا ، میں اتنی دل برداشتہ ہوئی کہ کانفرنس سے اٹھ کر گھر آگئی ۔ اب مجھ پر وہ بری ذہنی کیفیت نہیں آتی جو پہلے آتی تھی کہ میں فوری طور پر کسی سے بات کرنا چاہتی تھی ۔ میں نے گھر آکر جامعہ کراچی کے اپنے استاد ڈاکٹر طاہر مسعود کو فون کیا کہ کیا آپ کے ذہن میں ایسا کوئی تاثرہے اس روداد کے حوالے سے کہ اس میں املا کی غلطیاں تھیں ؟ انہوں نے کہا کہ نہیں ایسا نہیں ہے۔
خان صاحب کو اندازہ ہوگا کہ تحقیق میں میرا جھکائو ڈاکٹر نثار احمد زبیری کی طرف تھا ۔ ایک دن فرما رہے ہیں کہ زبیری صاحب نے انہیں کانفرنس کے انعقاد پر مبار ک باد دی او رکہا کہ یہ موضوعات آپ کے ذہن میں کیسے آتے ہیں مثلاََ ”مدیر کا ادارہ”، حالاں کہ اس موضوع پر ڈان میں بہت کچھ لکھا گیا، مطلب یہ کہ زبیری صاحب ڈان اخبار نہیں پڑھتے اور یہ خیال ان کے لیے نیاتھا۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر