وجود

... loading ...

وجود

سنبھل جائیں ورنہ ۔ ۔

منگل 09 جولائی 2024 سنبھل جائیں ورنہ ۔ ۔

میری بات/روہیل اکبر
عالمی موسمیاتی رپورٹ جب سے پڑھی ہے تب سے پریشانی سی لاحق ہو گئی ہے کہ کہ آنے والے دنوں میں ہمارا کیا بنے گا ؟ خاص کر ان علاقوں کے باسیوں کا جہاں اس سال گرمی نے کڑاکے نکال دیے ہیں ۔ہمارے سندھ کے رہائشی لوگوں نے توان گرمیوں میں بجلی کے بغیر جو گرمیوں کے مزے لیے ہیں، پنجاب والے بھی ان سے پیچھے نہیں رہے اور رہی سہی کسر بجلی کے بلوں نے پوری کردی ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ حکمران غریب عوام کے جسم سے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑنا چاہتی ہے جن کے ووٹوں سے اقتدار میں آئے ہیں انہیں ہی رگڑا لگایا جا رہا ہے۔ ایک غریب محنت کش کو جون کا بل بجلی 35ہزار آیا ہوا ہے اور اسکے پورے مہینے کی آمدن 30ہزار بھی نہیں ہے۔ اس نے کرایہ مکان بھی دینا ہے اور تین بچوں کو کھلانا پلانا بھی ہے اب وہ کیا کریگا اپنے بچوں کو فاقے کروائے گا یا حالات سے تنگ آکر خود کشی کر لے گا یا پھر ڈاکو بن کر لوٹ مار کرے گا۔ خیر وہ جو بھی کرے اسکا حکومت سے کوئی لینا دینا نہیں ۔حکومت نے بس اس سے بل وصول کرنا ہے۔ ہر صورت میں ورنہ ہمارے ووٹوں سے ہم پر مسلط ہونے والے حکمران اپنی عیاشیاں کیسے کرینگے ۔یہ تو بیچارے اتنے غریب ہیں کہ سرکاری گاڑی پر اپنی جیب سے پیٹرول تک نہیں ڈلوا سکتے۔ اپنے دفتر میں آنے والوں کو اپنی جیب سے ایک کپ چائے کا نہیں پلوا سکتے اور تو اور اپنے گھروں کے بل بھی ادا کرنے کے قابل نہیں ہوتے کیونکہ انہوں نے جو خرچہ کرنا تھا وہ الیکشن میں کردیا۔ اب یہ عوام کے پیسوں پر موج مستیاں کرینگے۔
بہرحال ایک بات تو اب سب ہی مان رہے ہیں کہ بجلی بلوں کے ستائے ہوئے لوگوں صرف موقع کی تلاش میں ہیں اور اندرہی اندر سلگ رہے ہیں جس دن کسی نے بھی ان جابرانہ بلوں کے خلاف احتجاج کی کال دیکر ایک ہلکی سی چنگاری بھی پھینک دی تو پھر ان سلگتے ہوئے بے جان جسموں میں ایسے ایسے دھماکے ہونگے کہ کسی کو بھاگنے کا موقع نہیں ملے گا۔ اب بھی وقت ہے کہ حکومت فوری طور پر بلوں میں 50فیصد تک رعایت دے۔ تاکہ عام آدمی کا غصہ کچھ ٹھنڈا ہو ورنہ پھر واقعی انقلاب کی تیاری کریں اور پھر نہ کہنا کہ ہمیں خبر نہ ہوئی۔
اس کے علاوہ جس خبر نے پریشان کررکھا ہے کہ پاکستان کے گرم ترین علاقے آئندہ 7 سالوں کے بعد رہنے کے قابل نہیں رہے گے کیونکہ ہم نے اپنی زرعی زمینوں پر بڑی بڑی ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنا لی ہیں درختوں کی کٹائی کرکر کے انہیں جڑ سے اکھاڑ پھینکا ہے۔ جس کی وجہ سے گرمی کی شدت میں ابھی سے بے پناہ اضافہ ہوچکا ہے ۔عالمی موسمیاتی جریدے نے پاکستان کے گرم ترین علاقے بلوچستان پنچاب اور سندھ میں موسمیاتی تبدیلی کے پیش نظر خبردار کردیاہے کہ سندھ اور بلوچستان میں معمول سے زیادہ پھلدار مقامی درخت نا لگایا گیا تو یہ علاقے آئندہ 7 سال بعد رہنے کے قابل نہیں رہیںگے۔ اور پارہ 57 تک جانے کا قوی امکان ہے۔ اس لیے ہمیں اپنے آپ کو زندہ رکھنے کے لیے سندھ پنچاب اور بلوچستان میں آبادی کے لحاظ سے ہر ایک فرد کو ایک ایک پھلدار درخت لازمی لگانا چاہیے ۔تاکہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کم ہو اور ان علاقوں میں ٹمپریچر شدیدگرمیوں کے موسم میں 40۔42 تک رہے۔ بدقسمتی سے ہم نے نئے درخت لگانے کی بجائے پرانے درختوں کو ہی ختم کردیا اور زرعی زمینوں پر جگہ جگہ ہائوسنگ کالونیاں بنا لیں۔ ہم نے لاہور شہر کو 70 سے 100 کلو میٹر تک پھیلا دیا ہے۔ ہم نے ڈی ایچ اے اور بحریہ ٹاون کے نام سے ہزاروں ایکڑ پر موجود دنیا کی بہترین زرعی زرخیز اراضی اور شہر کے قریب نایاب الیچی،امرود اور آم کے باغ اجاڑ دیئے ہیں۔ اب یہ وبا تمام چھوٹے بڑے شہروں میں تیزی سے پھیل گئی ہے۔ اگر ہمارے حکمران سوچ سمجھ کر ملکی مفاد کو سامنے رکھ کر فیصلے کرتے تو اور لوگوں کے ساتھ بھلائی یا نیکی کرنا چاہتے تو قاہرہ جیسے شہر کی طرح فلیٹ سسٹم کو رواج دیتے رہی سہی کسر روڈا نے پوری کردی ہے۔ لاہور شہر کی بغل میں بلک ہشہر سے متصل داروغہ والہ چوک سے لے کر بند روڈ کے ساتھ ساتھ پاکستان بلکہ دنیا کا بہترین زرعی زرخیز رقبہ ہے ۔جہاں سے لاہور شہر اپنی سبزیوں اور جانوروں کے لیے چارہ جیسی ضروریات پوری کرتا ہے اشرافیہ کی نظر اب اس پر ہے راوی اربن ڈویلپنمٹ اتھارٹی کے نام سے میلوں میں کئی صد مربع زرخیز رقبہ کالونستان کے نام پر ختم کر دیا گیا ہے برکی روڈ،بیدیاں روڈ،جی ٹی روڈ واہگہ بارڈر تک، لاہور شرق پور روڈ اورلاہور قصور روڈ کو دیکھ لیں ہم نے حکومتی اداروں سے ملکر فارم ہاوسز اور سوساٹیز کے نام سے ایک مرلہ زمین بھی نہیں چھوڑی جس کی وجہ سے دودھ،تازہ سبزیوں اور تازہ پھلوں کی شدید کمی پیدا ہو گئی ہے جبکہ ہم نے دریا ہر نہر ہر کھالے ہر بنے اور سڑکوں کے ساتھ ساتھ بے تحاشہ کیکر، نیم، شیشم، پیپل، بوہڑاور سکھ چین کے نایاب اور قیمتی درخت جڑوں سے اکھاڑ کر بیچ دیے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ اب پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہے اور دو چار سال میں درجہ حرارت 55 تک پہنچ جائے گا جہاں انسانی حیوانی اور فصلوں درختوں کی زندگی ناممکن ہو جائے گی اس لیے درخت لگائیںاپنے لیے اور اپنی آنے والی نسل کے لیے اس سے پہلے کے دیر ہوجائے خشک سالی غالب ہونے سے پہلے پہلے آئیں زمین کو درختوں اور ہریالی کی سرسبز چادر اوڑھا دیں تاکہ ہماری زمین بنجر ہونے سے بچ جائے اور زیر زمین پانی کو کڑوا اور نایاب ہونے سے بھی بچایا جا سکے اس کا واحد حل جنگلات کی بحالی اور گھنی شجرکاری ہے ہماری اور ماحول کی بقا اسی میں ہے اور آنے والی نسلوں کا صحتمند مستقبل بھی اسی سے وابستہ ہے۔ آئیں، سب مل کر درخت لگائیں اور ماحول کو خوبصورت بنائیں اس لیے ابھی سے سنبھل جائیں ورنہ پریشانیاں ہی پریشانیاں ہونگی کہیں گرمی کی تو کہیں بلوں کی ۔


متعلقہ خبریں


مضامین
مودی دور حکومت میں خواتین تشدد کا نشانہ وجود پیر 07 اکتوبر 2024
مودی دور حکومت میں خواتین تشدد کا نشانہ

یوم یکجہتی فلسطین اور اسرائیلی جارحیت کا ایک سال وجود پیر 07 اکتوبر 2024
یوم یکجہتی فلسطین اور اسرائیلی جارحیت کا ایک سال

بھارت میں مسلم جائیدادوں کا انہدام وجود اتوار 06 اکتوبر 2024
بھارت میں مسلم جائیدادوں کا انہدام

پاکستان کامقدمہ وجود اتوار 06 اکتوبر 2024
پاکستان کامقدمہ

اسرائیل کے مکروہ ارادے وجود اتوار 06 اکتوبر 2024
اسرائیل کے مکروہ ارادے

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق

امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں وجود پیر 08 جولائی 2024
امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں

رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر