... loading ...
ریاض احمدچودھری
غزہ جنگ کے حوالے سے اسرائیل بھر میں حکومت مخالف احتجاجی مظاہرے پھوٹ پڑے جن میں قیدیوں کے اہل خانہ سمیت ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ حکومت کے خلاف ہونے والے ان احتجاجی مظاہروں میں حماس کی قید میں موجود اسرائیلی شہریوں کے لواحقین نے بھی پہلی بار شرکت کی۔ سب سے بڑا احتجاج دارالحکومت تل ابیب میں ہوا۔مظاہرین نے اہم سڑکیں بلاک کردیں جس کے نتیجے میں شدید ٹریفک جام ہوگیا اور مسافر پھنس گئے۔ پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے درجن بھر افراد کو گرفتار کرلیا اور مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے پانی کی توپ کا استعمال کیا۔تل ابیب میں جنگ بندی، یرغمالیوں کی رہائی اور نئے انتخابات کے مطالبہ کیلئے اسرائیلی حکومت کے خلاف بڑا مظاہرہ کیا گیا جس میں ہزاروں افراد شریک ہوئے ۔مظاہرین نے بعض مقامات پر آگ لگا کر سڑک بند کر دی جبکہ پولیس نے مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال کرتے ہوئے متعدد مظاہرین کو گرفتار کر لیا۔
اسرائیل، حماس جنگ کے 9 ماہ مکمل ہونے پر اسرائیل میں ایک ہفتے کے لیے حکومت مخالف احتجاج کا آغاز کیا جا رہا ہے۔ نیتن یاہو حکومت مخالف قوتوں نے اس احتجاج کو “مزاحمت کا ہفتہ” یعنی مزاحمت کے 7 دن کا نام دیا ہے۔ ان مظاہروں کے دوران اسرائیل کی بڑی شاہراہوں کو بند کر دیا جائے گا اور ساتھ ہی تل ابیب میں موجود ملٹری ہیڈکواٹر کے سامنے بھی احتجاج کیا جائے گا۔ وزراء کے گھروں کے سامنے دھرنے دیئے گئے۔ شرکاء نے ”مکمل ناکامی” کے نعرے بھی لگائے۔”مکمل ناکامی! مکمل ناکامی!” نیتن یاہو کے اندرونی حلقے کے رکن اور کابینہ کے وزیر رون ڈرمر کے گھر کے باہر ایک مختصر ہجوم نے بلند آواز میں نعرے لگائے۔نو ماہ کی جنگ کے بعد اسرائیل اور حماس کے درمیان غزہ میں یرغمالیوں کے معاہدے کو محفوظ بنانے کی کوششوں میں حالیہ دنوں میں تیزی آئی ہے اور حکام نے امید کا اظہار کیا ہے لیکن کہا ہے کہ فریقین کے درمیان خلا باقی ہے۔
مقبوضہ بیت المقدس یروشلم میں مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔ مظاہرین نے پولیس کی رکاوٹیں توڑ کر وزیراعظم نیتن یاہو کے گھر کی جانب پہنچنے کی کوشش کی اور مستعفی ہونے کے نعرے لگائے۔مغویوں کے اہل خانہ اور مظاہرین نے مغویوں کی رہائی کیلئے حماس کے ساتھ معاہدے میں نیتن یاہو کو رکاوٹ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس مسئلے کے حل میں نیتن یاہو کا کردار ناقابل فہم اور مجرمانہ ہے۔ ایک مغوی کی والدہ اینا زانگوکر نے کہا کہ اب سے ہم نیتن یاہو کی برطرفی کے لیے جدوجہد شروع کریں گے۔جنگ میں شہید ہونے والوں میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں۔یہ جنگ طویل ہوتی جا رہی ہے۔نتین یاہو کے تازہ بیان کے بعد یہی کہا جا سکتا ہے کہ امریکی شہ کے بعد نتن یاہو پاگل ہو چکا ہے اور امن کی راہ کی طرف نہیں جانا چاہتا،حالانکہ پوپ فرانسس بھی کئی اپیلیں کر چکا ہے کہ غزہ میں فوجی کارروائی ختم کرنے اور انسانی راہداری کھولنے کا مطالبہ کرتا ہوں، امن کی بات کیسے کی جاسکتی ہے جب ہتھیاروں کی تجارت عروج پر ہو۔غزہ کے محکمہ صحت کے مطابق اسرائیل کی فوجی کارروائی میں 38,000 سے زیادہ فلسطینی جاں بحق ہو چکے ہیں۔
مرکزی تل ابیب اسکوائر میں حکومت کے خلاف ہزاروں افراد جمع ہوئے، جن میں اکثریت گزشتہ برس احتجاج کرنے والوں کی تھی ۔یرغمالیوں کی رہائی میں حکومتی ناکامی پر برہم مظاہرین نے نیتن یاہو کو شیطان کا چہرہ قرار دیتے ہوئے نیتن یاہو حکومت پر اسرائیل کی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے الزامات عائد کردئیے مظاہرین نے اسرائیلی پرچم تھاما ہوا تھا اور حکومت مخالف نعرے لگا رہے تھے اور ڈھول بجاتے ہوئے نیتن یاہو کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔حماس کے ساتھ جنگ میں مارے گئے ایک فوجی کے بھائی نے بتایا کہ حکومت نے ہمیں جس طرح 7 اکتوبر کو چھوڑا تھا وہ سلسلہ تاحال جاری ہے، تبدیلی اور معاملات ٹھیک کرنے کے لیے طاقت ہمارے ہاتھ میں ہے اور اس حکومت کا خاتمہ ہونا چاہیے۔
اسرائیلی وزیراعظم نے یرغمالیوں کی رہائی کیلئے حماس کے جنگ بندی کے مطالبے کو پھر مسترد کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق غزہ میں اسرائیلی حکام امداد کی رسائی میں رکاوٹیں ڈال رہے ہیں۔ یورپی یونین خارجہ پالیسی کے سربراہ بوریل نے فلسطین کے دو ریاستی حل پر اصرار کرتے ہوئے اسرائیل کو خبردار کیا کہ غزہ میں فوج اور طاقت کے استعمال سے معاملہ حل نہیں ہو گا۔ کیا اسرائیل کے نزدیک تمام فلسطینیوں کو قتل یا بیدخل کر دینا ہی حل ہے۔ پوری دنیا میں اسرائیلی مظالم پر آہ و بکاہ ہو رہی ہے’ جنگ بندی کے تقاضے کئے جارہے ہیں’ اقوام متحدہ کو جھنجوڑ کر جگانے کی کوشش کی جا رہی ہے مگر امریکہ اور دوسری الحادی قوتیں نہ صرف اسرائیلی ہاتھ روکنے پر آمادہ نہیں بلکہ فلسطینیوں پر مزید مظالم کیلئے اسے ہر قسم کا جنگی سازوسامان بھی فراہم کر رہی ہیں۔ یقیناً الحادی قوتوں کی اسی شہ پر اسرائیلی وزیر دفاع نے فلسطینیوں پر ایٹم بم چلانے کی دھمکی بھی دی ہے جو اسرائیل کے پاس ایٹم بم کی موجودگی کا بھی ثبوت ہے مگر ایٹمی ٹیکنالوجی کے حصول کی پاداش میں امریکہ نے جس طرح پاکستان پر اقوام متحدہ کے ذریعے عالمی اقتصادی پابندیاں عائد کرائیں’ بھارت اور اسرائیل کیلئے ایسی پابندیوں کا کبھی سوچا بھی نہیں گیا۔ اس سے بادی النظر میں یہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ الحادی قوتوں کو مسلم دنیا کی کمزوریوں کا مکمل ادراک ہے اور اسی بنیاد پر امت مسلمہ کو مزید کمزور کرکے اسے ایک ایک کرکے ختم کرنے کی سازشیں کامیاب ہوتی نظر آرہی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔