... loading ...
آئینہ خانہ /حافظ شفیق الرحمن
ایک ولی صفت استاد پروفیسر حمید کوثر مرحوم کی سدابہار یادیں۔۔۔ ان کی محافل محض گپ شپ اور پرسشِ احوال کی روایتی محافل نہ ہوتیں بلکہ ان محافل کا مقصد نسل ِنو اور احباب کی ذہن سازی اور کردار سازی ہوتا۔ دوران ِ گفتگو وہ نوجوانوں کو سیرت طیبہ کے مطالعہ کی دعوت دیتے۔ عقیدۂ ختم نبوت پر روشنی ڈالتے۔ اس معاملہ میں وہ بہت حساس اور راسخ العقیدہ تھے لیکن حقائق و شواہد اور دلائل و براہین کی روشنی میں ثابت کرتے کہ منکرینِ ختم نبوت پاکستان اور اسلام کے غدار ہیں۔یہ مسلمانوں کا فرقہ نہیں بلکہ انگریز کا تخلیق کردہ ایک دہشت گرد ٹولہ ہیں۔ یہ مرتد ہیں۔یہ آئین ِپاکستان کے باغی اور ریاست پاکستان کے بد ترین دشمن ہیں۔ یہ آستین کے سانپ ہیں، ان کی سرکوبی مقتدرہ کا فرض منصبی ہے۔ وہ اکابرین ملت، علمائے حق اور بانیان پاکستان اور نظریہ پاکستان کے جید ترین داعی اور مناد تھے۔ نرم خو، نرم گفتار اور نرم نوا ہونے کے با وجود اس حوالے سے ان کی للکار میں شیران ـ غائب کی دھاڑ تھی۔ اس حوالے سے ان کا نقطہ نظر دو ٹوک تھا۔
پروفیسر صاحب دیسی کھانوں کے شوقین تھے گجریلا، گاجر کا حلوہ، چھوٹے پائے،قورمہ، مٹن کڑاہی کھیر اور فرنی رغبت سے کھاتے۔کھیر اور فرنی تو خود شوق سے بناتے۔ مٹھائیوں میں انہیں پتیسہ اور موتی چور کے لڈو پسند تھے۔ مہینے میں دوتین مرتبہ گھر میں مٹھائی خرید کر لاتے۔ وہ ہمیشہ نرالا سویٹ ہائوس یا جالندھر موتی چور ہائو س سے مٹھائی خریتے۔ آم، سیب خربوزہ، آلو بخارا، انگور اور انجیر ان کے من پسند پھل تھے۔ چائے کے تو وہ رسیا تھے۔ سردیوں کی راتوں میں صدر بازار میں شریف بٹ نانبائی کی دکان پر محفل جمتی اور چائے کے دور پر دور چلتے۔ گرمیوں کی راتوں کو جب دوست اور احباب اکٹھے ہوتے تو صدر بازار کے حبیب بنک کے لان کی گھاس پر محفل کھلی فضا میں محفل جمتی۔ بسا اوقات اپنے گھر واقع ڈھاکہ روڈ کے ڈرائنگ روم میں بھی محفل آراستہ کرتے۔ یہ محفل ذرا مختلف ہوتی، یہ صرف محفل کلام ہی نہ ہوتی بلکہ مجلسِ طعام بھی ہوتی۔ موسم سرما میں ما حضر کے علاوہ ڈرائی فروٹس سے بھی شرکا ء کی تواضع کی جاتی۔ طعام و کلام کا سلسلہ ساتھ ساتھ چلتا رہتا۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ ہفتہ وار تعطیل کے علاوہ یہ محفل روزانہ کی بنیاد پر سجتی برس ہا برس تک اس محفل کی میزبانی استاذی المحتشم ہی کرتے رہے۔ ان کا دستر خواں حاتم طائی کا دستر خواں تھا۔ کہاوت تو یہی ہے کہ ایک دن مہمان، دو دن مہمان تیسرے دن بلائے جان۔
میں نے ایک دن ان کی توجہ اس جانب مبذول کرائی تو فرمایا: کہاوت تو یہی کہتی ہے لیکن میں کہتا ہوں کہ حضور خاتم النبیین نبی ِ اکرم ۖ کا فرمان حرف آخر ہے کہ امارت دل کی امارت ہوتی ہے، اگر دل کشادہ ہوتو دستر خوان ازخو د وسیع ہوجاتا ہے، میرے نزدیک اگر یہ بات دل میں راسخ ہوجائے تومہمان سارا سال بھی آتے رہیں تو ان کی آمدباعث برکت اور موجب ِرحمت ہوتی ہے۔قرآن، سیرت،تاریخ، سیاست، حالاتِ حاضرہ، بین آلاقومی معاملات، عالمی تحریکوں، قومی سیاسی تحریکوں، سماجی مسائل، نفسیات، فلسفہ، شاعری، لغت، ادب اور اکابرشخصیات پر سیر حاصل گفتگو ہوتی۔ ان محافل کے برس ہا برس کے سامع کی حیثیت سے میں نے کبھی میزبان یا مہمان کسی کے ہونٹوں پر فحش ، لایعنی بات تو دور کی بات ہے، کبھی نا زیبا جملہ تک نہیں سنا۔ ان محافل کے باقاعدہ شرکاء میں مولانا مرتضی خان میکش کے پوتے، ازہر درانی، ساجد پال ساجد، عابد رفیق چودھری مرحوم، محمود اختر انصاری، آغا مبشر شورش، حاجی مجید، سرفراز بھٹی، سعید مقصود، کرنل ڈاکٹر عبدالرشید، شریف بٹ اور ان کے دسیوں سابق شاگرد موجود ہوتے۔یہ محافل رات دیر گئے جاری رہتیں۔
میں1978ء سے ان محافل میں شرکت کے لیے نمازِ عشاء کے بعد راج گڑھ سے ڈھاکہ روڈ پہنچتا، یہ سلسلہ 1982ء تک جاری رہا۔ رات کے ڈیڑھ دو بجتے تو میر محفل فرماتے میرا خیال ہے کہ اب محفل بر خاست کردی جائے۔ سب ان کی رائے سے اتفاق کرتے۔ کوئی کار، کوئی سکوٹر اورمیں سائیکل پر دل و دماغ کی جھولیاں تبرکاتِ علمی کے نوادرات سے بھر کر لوٹتا۔ان کی پسند اور ناپسند واضح ہوتی۔ وہ آئینہ تمثال بڑے انسان تھے۔دل میں کبھی کسی کے بارے بغض، عناد اور کدورت نہ رکھتے۔ ان کی ملاقاتیں پروفیسر علم الدین سالک، پروفیسر مرزا منور، پروفیسر وقار عظیم احمد ندیم قاسمی,مجید نظامی، ڈاکٹر خواجہ ذ کریا پروفیسر ڈاکٹر افتخار احمد، ڈاکٹر رشید چودھری بانی فائونٹین ہائوس، عبد العزیز خالد، قتیل شفائی،جسٹس آصف جان، جنرل اعظم مرحوم، بریگیڈیر صاحبداد خان اورجنرل سوار خان سے بھی رہیں۔ ان کے چہیتے شاگردوں میں امین و فطین اور ذہین سابقہ بیوروکریٹ، صحافی، ادیب اور حاضر طبع شاعرحسین ثاقب بھی نمایاں ہیں۔
ایک کامل الفن شاعر ہونے کی حیثیت سے اردو اور فارسی کے متقدمین، متو سطین اور متاخرین شعراء کی شاعری پر ان کی گہری تھی۔ انہیں شکوہ تھا کہ اردو کے تمام ادوار کے شعراء تصورات ہی نہیں لفظیات تک عجمی شعراء کی اندھا دھند پیروی کرتے ہیں۔ عجمی افکار و تصورات سے متاثر ہو کر وہ دینی شعائر کا تمسخر اڑاتے اور ان کی محافظ دینی شخصیات کی تضحیک کو اپنا فرض منصبی اور شعری تقاضا تصور کرتے ہیں۔ ان کی غزل اس وقت تک مکمل نہیں ہوتی جب تک وہ زاہد، واعظ، ناصح، صوفی، ملا، فقیہ، محتسب، شیخ حرم، ایمان، جنت، مسجد، منبر،حرم اور محراب کا مذاق نہ اڑا لیں۔ ان کا نقطہ نظر تھا کہ رعنائی خیال، جدت اور ترقی پسندی کے نام پر دینی اقدار و افکار اوران کی کسی بھی نوع کی تبلیغ کرنے والی شخصیات کو مذاق کا نشانہ بنانا بالواسطہ دین کا ٹھٹھا اڑانے کے مترادف ہے۔ وہ اسے ایک عجمی سازش سے تعبیر کیا کرتے تھے۔ وہ اس امر پر اظہار تاسف کیا کرتے کہ اردو شاعری کی تراکیب، اصطلاحات، استعارات، تشبیہات، لفظیات حتی کہ خیالات بھی عجمی شاعری سے مستعار لیے گئے ہیں۔ کاش اردو زبان کے متقدمین، متوسطین اور متاخرین شعرائنے بعد از اسلام عرب شاعری کا مطالعہ کیا ہوتا۔ وہ بڑے فخر و انبساط کے ساتھ بتایا کرتے کہ انہوں نے حتی المقدور عجمی شعر و سخن کی مروجہ ساختیات سے شعوری طور پر اجتناب برتا ہے۔ ان کی شاعری کا پہلا مجموعہ کلام ”فاتح لکشمی پور” میجر طفیل شہید نشان حیدر کی منظوم سوانح ہے۔ ان کی غزلیات کا مجموعہ ”سر دلبراں” ہے۔انہوں نے شاعری کی ہر صنف سخن پر استاذانہ طبع آزمائی کی۔ خلاقانہ طباعی، ندرتِ خیال، حسن تغزل، رعنائی تخیل اور زیبائی ـ فکر و نظر ان کی شاعری کا سولہ سنگھار ہیں۔ شاعری میں ان کے اولین استاد خیام العصر علامہ فخری تھے۔ اولین دور ہی میں ان کا رابطہ ابو الاثر حفیظ جالندھری سے ہوا۔ تا دم آخر اپنی کسی بھی نظم یا کلام کو حلقۂ احباب، مشاعروں اور ریڈیو پر پڑھنے سے پہلے ابو الاثر حفیظ جالندھری کو بہ غرضِ اصلاح سنایا کرتے۔
یہاں اس امر کا ذکر بے جا نہ ہو گا کہ استادِ محترم کے استادِ گرامی ابو الاثر حفیظ جالندھری نے شاہنامہ اسلام لکھا اور فردوسی ـ اسلام کا لازوال خطاب پایا۔ شاہنامہ اسلام اُردو شاعری میں ایک لاثانی اور منفرد تخلیق کا درجہ رکھتا ہے۔ انہوں نے ملوک و سلاطین کا قصیدہ لکھنے کے بجائے حضور اکرم کی حیات طیبہ کو انتہائی دلنشیں اور دلپذیر پیرائے میں نظم کے پیراہن میں لکھا۔ فردوسی اسلام ابو الاثر حفیظ جالندھری اور فردوسی ٔ ایران میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ فردوسی ایران نے ایران کے سفاک، جابر، مستبد، ظالم، متکبر، ہوس پرست، زر پرست نشاط پرست ایرانی بادشاہوں کے حضور ”گلہائے عقیدت” پیش کر کے انہیں بڑی شخصیات کے روپ میں پورٹرے کیا۔ اس امر کا ذکر خالی از دلچسپی نہ ہو گا کہ فردوسی نے جب اپنا شاہنامہ غازیٔ اسلام اور سومنات شکن محمود غزنوی کے بیٹے مسعود غزنوی جو صاحب کشف المحجوب حضرت علی ہجویری کے مرید خاص تھے، کے سامنے پیش کیا تو اس نے فردوسی کو دربار سے نکل جانے کا حکم دیا۔ واضح رہے کہ فردوسی نے سیدنا عمر فاروق کے زمانے میں صحابہ کبار و اطہار کے ہاتھوں ایرانی کسریٰ کی موروثی حاکمیت کے خاتمے اور ایران کی فتح کے واقعات کو منظوم کرتے ہوئے انتہائی ناپسندیدہ زبان استعمال کی۔ فردوسی کے شاہنامے میں عرب و عجم کی آویزش کو اجاگر کرتے ہوئے عجمی تہذیب پر محمد عربیۖ کی پیش کردہ آفاقی عالمی تہذیب پر مختلف اشعار میں اظہارِ ناپسندیدگی کیا۔ حوالے کے لیے اس کا یہ ایک مصرع ہی کافی ہے جس میں عربوں کے ہاتھوں ایرانیوں کی عبرت ناک شکست پر اس نے اپنی عجمی عصبیت اور داخلی کرب کا اظہار یوں کیا: تفو! بر تو اے چرخ گرداں تفو