... loading ...
جاوید محمود
برکس بینک ایک نئی کرنسی متعارف کرانے میں مصروف ہے جو ڈالر کے لیے مشکلات کھڑی کر سکتا ہے ۔12 جون کو ہونے،والے اجلاس کا سب سے اہم فیصلہ اس میں چھ نئے ممالک کی شمولیت ہے یعنی سعودی عرب جیسے سب سے زیادہ تیل پیدا کرنے والے ملک سمیت متحدہ عرب امارات، قطر، مصر، ایران، ایتھوپیا اور ارجنٹائن آئندہ سال جنوری میں اس کے رکن بن جائیں گے۔ جنوبی افریقہ کے شہر جوہانسبرگ میں ہونے والے اجلاس میں برکس بینک کے چار بنیادی ارکان شریک تھے۔ جبکہ روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے وہاں نہ آئے اور اجلاس میں آن لائن شرکت کی۔ چینی صدر شی جن پنگ نے نئے ارکان کو خوش آمدید کہتے ہوئے اس توسیع کو تاریخی قرار دیا ۔انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ برکس عالمی امن اور اتحاد کو آگے بڑھائے گا۔ برکس بینک دراصل دنیا کے عالمی مالیاتی نظام میں مغرب کا تسلط چیلنج کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ جہاں اس کے ایجنڈے میں اہم مالیاتی امور سے نبرد آزما ہونا شامل ہے وہیں غریب اور ترقی پزیر معیشتوں کو کھڑا کرنا بھی اس کا ایک اہم ہدف ہے۔ اس تعاون یا امداد کا مقصد یہ بھی ہے کہ ترقی پزیر معیشتیں موجودہ عالمی نظام کے کل پرزوں کے دباؤ سے نکل سکیں جن میں آئی ایم ایف اورعالمی بینک جیسے ادارے شامل ہیں۔ چین کا خیال ہے کہ ترقی پزیر ممالک موجودہ معاشی دباؤ سے تنگ ہیں اور اگر ان کی مناسب فورم سے مدد کی جائے تو وہ موجودہ عالمی نظام کے متبادل کی حمایت کریں گے۔ مغربی مالیاتی اداروں پر جو سب سے بڑا الزام لگایا جاتا ہے وہ یہی ہے کہ وہ امداد کے ذریعے سیاسی دباؤ کو بڑھاتے ہیں۔ اس ضمن میں آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف کی مثالیں دی جاتی ہیں بلکہ یہاں تک کہا جاتا ہے کہ آئی ایم ایف تو امریکہ کا عالمی مالیاتی بازو ہے جسے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ۔اب ظاہر ہے کہ برکس بینک میں توسیع پر اپنے رد عمل میں اسے پلے ڈاؤن کرنے کی کوشش کی اس کا کہنا تھا کہ برکس ممالک میں اختلافات ہیں اور اس سے مغرب براہ راست متاثر ہوگا ۔شی جن پنگ اس توسیع میں ذاتی دلچسپی لے رہے ہیں ۔ جوہانسبرگ اعلامیہ توسیع کو امریکہ یا کسی بھی ملک کے جغرافیائی حریف کے طور پرابھرتا ہوا نہیں دیکھتا ۔اب اس میں کتنی حقیقت ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔جب یہ ملک جنوری کے بعد برکس میں فعال کردار ادا کریں گے
تاہم یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ برکس ایک نئی مالیاتی قوت کے طور پر ابھر رہا ہے اور یہ بھی طے ہے کہ اب امریکہ نہ تو اکیلے عالمی نظام کے اصول طے کر سکتا ہے اور نہ ہی وہ تمام ادارے چلا سکتا ہے ۔بریکس بنیادی طور پر ایک چینی بینک ہے اور اس کے قیام کا نظریہ معروف سرمایہ کار بینک گولڈن مین ساشے کے ایک ماہراونیل نے پیش کیا تھا۔ اس نے چار ممالک کا تصور پیش کیا تھا جسے برگ کہا گیا یہ وہی زمانہ تھا جب نئی صدی کا آغاز ہو چکا تھا۔ چین اور ترقی پزیر معیشتیں بڑی تیزی سے عالمی معیشت میں قدم جما رہی تھیں۔ اس لیے یہ تصور سامنے آیا کہ آب سرمایہ مشرق سے مغرب کی بجائے مغرب سے مشرق کی طرف جائے گا۔ 2008میں برکس وجود میں آیا جس میں پانچ ارکان چین ،روس، بھارت، برازیل اور جنوبی افریقہ شامل ہیں۔ اس طرح یہ دنیا کے ہر براعظم کی نمائندگی کرتا ہے ۔بریکس ممالک کی مجموعی آبادی 3.24ارب ہے یعنی دنیا کی تقریبا 40فیصد آبادی اس کا حصہ ہے۔ اس میں شامل ممالک کی مشترکہ آمدنی 26 ٹرلین ڈالر ہے جو عالمی معیشت کا 20 فیصد بنتا ہے لیکن اس کے سیاسی اثرات کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ آئی ایم ایف میں اس کی ووٹنگ پاور صرف 15 فیصد ہے یعنی ایک تہائی سے بھی کم۔
اب نئے ممالک کی موجودگی خاص طور پر سعودی عرب کی شمولیت سے برکس کے آگے بڑھنے کے راستے کھل جائیں گے اور غالبا چین نے اسی مقصد کے لیے سعودی عرب کو اس میں شامل کرنے کے لیے محنت کی ہے ۔چین نے جب برکس کا خیال پیش کیا تو اس کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ عالمی مالیاتی اداروں کے نظام میں اصلاحات لانے کا عمل تیز کیا جائے اور زیادہ سے زیادہ ممالک کو اس میں نمائندگی دی جا سکے غریب ممالک سے یہ آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ آئی ایم ایف اپنے اصول لاگو کرنے میں قرض لینے والے ممالک کے معروضی حالات کو خاطر میں نہیں لاتا ۔اس نے بس کچھ اصول بنا لیے ہیں جن پر ہر حال میں عمل کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ اس ملک کی آبادی کم زور معیشت قدرتی آفات کی تباہ کاریاں اور دیگر معاملات کیا ہیں ،آئی ایم ایف کواس سے کوئی سروکار نہیں۔ یہ نہیں کہ ضرورت مند ممالک کو اپنی معیشت کی بہتری کے لیے مالیاتی ڈسپلن پیدا نہیں کرنا چاہیے لیکن یہ عمل مرحلہ وار ہونا چاہیے۔ یہ نہیں کہ ادھر آئی ایم ایف کی شرائط لاگو کی اور ادھر پوری کی پوری آبادی مہنگائی، بے روزگاری اور غربت تلے پس گئی۔ اس سے فائدے کے بجائے نقصان ہوتا ہے کیونکہ ان پالیسیز کے نتیجے میں سیاسی عدم استحکام جنم لیتا ہے اور عدم استحکام کے بعد مالیاتی ڈسپلن تو کیا حکومت چلانا بھی ممکن نہیں رہتا۔ ان دنوں پاکستان اس کی ایک کلاسک مثال بنا ہوا ہے۔ چادر اوپر کرتے ہیں تو پاؤں ننگے ہو جاتے ہیں اور پاؤں ڈھانپتے ہیں تو سر کھل جاتا ہے۔ اب برکس جیسے متبادل مالیاتی ادارے امید کی کرن بن سکتے ہیں، جن میں چھوٹے اور ترقی پزیر ممالک کی نمائندگی بھی ہے ۔اگر وہ آئی ایم ایف جیسے اداروں کو اصلاحات اور انسانی عوامل کو مد نظر رکھنے پر مجبور کر سکیں اور یہ برکس کا بنیادی نظریہ بھی ہے ۔اس لحاظ سے اس میں توسیع کو خوش آمدید کہنا چاہیے۔ چاہے امریکہ اور مغرب ممالک کی سوچ کچھ بھی ہو آئی ایم ایف کو فوری سختیاں کرنے سے پہلے یاد رکھنا چاہیے کہ دنیا ابھی تک کورونا کے اثرات سے نکلنے کی کوشش کر رہی تھی کہ یوکرین جنگ اس پر مسلط کر دی گئی۔ پاکستان جیسے ممالک کا کورونا میں کوئی کردار تھا اور نہ ہی یوکرین کی جنگ سے کچھ لینا دینا، لیکن وہ ان دونوں کی معاشی تباہ کاریوں میں پس کر رہ گیا۔ یہ بات عام آدمی کو سمجھنا بہت مشکل ہے ۔ خاص طور پر جہاں تعلیم کی شرح بہت کم ہو ۔
برکس نے 2014میں نیو ڈیولپمنٹ بینک کے نام سے 250بلین ڈالرز کا فنڈ قائم کیا تھا جس کا مقصد آزمائش سے گزرنے والی کمزور معیشتوں کی مدد کرنا اور انہیں آسان شرائط پر قرض فراہم کرنا ہے۔ یہ فنڈ کس طرح دیا گیا ،اس سے متعلق معلومات کم ہی دستیاب ہیں۔ پاکستان اور چین سی پیک میں شامل ہیں لیکن اسے زیادہ قرضے کمرشل چینی بینک سے ملے ہیں جن سے متعلق کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ ان پر سود بہت زیادہ عائد کیا گیا ہے ۔برکس سے متعلق جو اہم بات کہی گئی وہ مغرب مخالف نہیں تو کم از کم مغرب کے متبادل مالیاتی نظام ضرور لانا ہے ۔بھارت پاکستان کی برکس میں داخلے کی مخالفت کرتا ہے لیکن اس سے زیادہ خود پاکستان کی معاشی کمزوری اور سیاسی گورننس کے مسائل اسے برکس جیسے کسی بھی اقتصادی گروپ کا رکن نہیں بننے دے رہے۔ حیرت ہوتی ہے جب ملک کے معاشی ماہرین اقتصادی معاملات پر جذباتی دلائل دیتے ہیں۔ ان کی طرف سے برکس میں داخلے کے لیے سب سے بڑا جواز یہ پیش کیا جاتا ہے کہ چین سے ہماری دوستی ہمالیہ سے بلند اور بحر ہند سے گہری ہے۔ اس لیے ہمیں چین کے کسی بھی منصوبے میں شرکت کا سرٹیفکیٹ حاصل ہے۔ چین نے اس دوستی کو نبھایا بھی ہے۔ شنگھائی فورم کے پاکستان اور بھارت ایک ہی دن ممبر بنے ۔اس کے باوجود پاک بھارت دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ لیکن حکومت پاکستان کو خود یہ سوال کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ ہم ایک ایسے مالیاتی فورم میں شرکت کر کے کیا حاصل کریں گے جس کا مقصد فنڈ حاصل کرنا ہے اور وہ بھی ڈالرز میں برکس کا موجودہ امدادی فنڈ 250بلین ڈالرز ہے تو کیا حکومت پاکستان اس میں ایک ڈالر بھی حصہ ڈال سکتا ہے ۔آئی ایم ایف کے پروگرام کی کڑی اور تکلیف دہ شرائط صرف اس لیے تسلیم کرنی پڑی کہ بیرونی قرضوں اور سرمایہ کاری کی راہیں کھولنی تھیں اور قریب ترین دوستوں کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کا پروگرام لو تب ہی قرض ملے گا ۔مالیاتی امور بہت ٹھوس معاملات ہیں اور اسی عالمی نظام میں رہ کر کام کرنا ہوتا ہے آسمان سے ڈالر ٹپکتے ہیں نہ زمین سونا اگلتی ہے۔ حالات کی درستگی کے لیے درست معاشی پالیسی بنانی ہوگی ۔لیکن صرف اتنا ہی کافی نہیں ،اس پالیسی پر تسلسل کے ساتھ عمل بھی کرنا ہوگا اور یہ کام صرف حکومت ہی کو نہیں پوری قوم کو مل کر کرنا پڑے گا۔ ترقی کی جتنی بھی مثالیں سامنے رکھ لیں ۔ان میں یہی نظر آئے گا کہ پوری قوم دہائیوں محنت مزدوری میں جتی رہی تب کہیں جا کے ترقی نصیب ہوئی ۔پاکستانیوں کا اپنا طرز زندگی بھی بدلنا ہوگا ۔رات رات بھر مارکیٹیں کھلی رکھنا، شادی بیاہ پر لاکھوں روپے اڑا دینا اور بڑی بڑی گاڑیاں رکھنے کا شوق زیب نہیں دیتا ۔قوم پہلے کمائیں پھر خرچ کرے۔ قرضے اور مہنگے قیمتوں کے پٹرول پر مزے اڑانا اور بڑی بڑی باتیں کرنا کسی مذاق سے کم نہیں ۔اوپر سے نیچے تک ایک جیسا طرز زندگی اپنائیں جو سادگی پر مبنی ہو۔ تبدیلی اور ترقی سالوں میں نہیں دنوں میں آ جائے گی۔ برکس تو کیا آئی ایم ایف تک پاکستان سے رکنیت کی درخواست کرے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔