وجود

... loading ...

وجود

بھارتی فلموں میں اسلام، مسلمانوں کی توہین

جمعرات 04 جولائی 2024 بھارتی فلموں میں اسلام، مسلمانوں کی توہین

ریاض احمدچودھری

مودی سرکار مسلمانوں کے خلاف اپنے جھوٹے اور من گھڑت پروپیگنڈے کو فروغ دینے کیلئے بالی ووڈ کا بھی بے دریغ استعمال کررہی ہے۔ حال ہی میں بالی وڈ فلم ‘ہمارے بارہ’ ریلیز کی گئی جو کہ مودی سرکار کے بیانیے کی بنیاد پر تیار کی گئی ہے۔ فلم میں مسلمانوں اور دین اسلام کو توہین کا نشانہ بنایا گیا۔ فلم میں مسلمانوں کے خلاف انتہائی ہتک آمیز ڈائیلاگ استعمال کیے گئے۔بھارتی سپریم کورٹ میں فلم ہمارے بارہ کے خلاف شکایت جمع کروائی گئی جس کے نتیجے میں فلم کو ریلیز سے روک دیا گیا۔سپریم کورٹ کے بعد بمبئی ہائی کورٹ نے بھی فلم کی ریلیز روک دی اور حکم دیا کہ فلم میں سے مسلمانوں کے خلاف تمام مواد کو نکالا جائے۔ مسلمانوں کے خلاف مودی کے انتہاپسند بیانیے کی عکاسی کرتے ہوئے پہلے بھی کئی بالی وڈ فلمیں ریلیز کی جا چکی ہیں جن میں ستر حوریں اور کیریلا فائلز جیسی فلمیں شامل ہیں۔
بھارت میں مودی سرکار کا مسلمانوں کے خلاف من گھڑت بیانیہ جھوٹا ثابت ہوگیا۔2014میں مودی کے برسر اقتدار آتے ہی بھارت میں مسلمانوں کے خلاف تاریک ترین باب کا آغاز ہواتھا۔ مودی حکومت نے اپنی انتخابی مہم کے دوران بھی مسلمانوں کو ناسوراوردرانداز قرار دیاتھا۔مودی اور بی جے پی کے دیگر ارکان مسلسل مسلمانوں کی چار شادیوں اور بچوں کی تعداد کا مذاق اڑاتے رہے ہیں۔بی جے پی کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف سب سے زیادہ استعمال ہونے والا منفی پروپیگنڈا ‘ہم پانچ ہمارے پچیس’ کی بنیاد پر تیار کیا گیا۔مودی سرکار کا دعویٰ ہے کہ مسلمان چار شادیاں کرکے زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کررہے ہیں تاکہ ہندوؤں کے مقابلے میں اکثریت حاصل کر سکیں۔ مودی نے اپنی انتخابی مہم کے دوران عوام کو ڈرانے کی بھونڈی کوشش کی کہ مسلمان ہندوؤں کے اثاثوں اور وسائل پر بھی قبضہ کرلیں گے۔ مودی سرکار اپنے بیانیے کو سچ ثابت کرنے کیلئے 2001 سے 2011 کی مردم شماری کا استعمال کرتی ہے جس میں کہا گیا تھا کہ مسلمانوں کی آبادی میں ہندوؤں کے مقابلے زیادہ اضافہ ہو رہا ہے۔
بھارتی وزارت صحت کی جانب سے دوہزارانیس،بیس کے قومی صحت سروے میں مسلمان بچوں کی پیدائش کی شرح میں واضح کمی دیکھنے میں آئی ہے۔بھارت کے سرکاری ریکارڈ کے مطابق مسلمان خواتین میں پیدائش کی شرح 4.41فیصدسے 2.36فیصدہوگئی ہے۔ورلڈ پاپولیشن ریویو کے مطابق 2022میں بھارت کی آبادی ایک ارب چالیس کروڑ تھی۔بھارت میں مودی حکومت کے دوران مسلمان دشمنی، اقلیتوں اور اپوزیشن پر زندگی تنگ ہوچکی ہے ، مودی کے خلاف اقوام متحدہ کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا ہے۔امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ ہیومن رائٹس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بی جے پی کے دور حکومت میں مذہبی آزادی کے تحفظ کے حوالے سے ہندوستان میں مزید 11 پوائنٹس کی کمی دیکھی گئی۔ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ ہیومن رائٹس رپورٹ 2022 نے ہندوستان میں مذہبی پابندیوں کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا ۔ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے بھارت کو مذہبی آزادی کے حوالے سے تشویشناک ملک قرار دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ہندوستان میں صرف ہندو توا نظریہ کو پروان چڑھایا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہمارے مذہبی آزادی کا کمیشن ہندوستان کو مذہبی آزادی کے لحاظ سے ایک تشویش ناک ملک کی حیثیت سے دیکھتا ہے اور مودی کی انتہا پسند پالیسیوں کی وجہ سے ہندوستان کو سیکولر ملک کی بجائے صرف ہندو ملک ہی کہا جا سکتا ہے۔
امریکی رپورٹ میں گزشتہ سال ہندوستان میں اقلیتوں پر ڈھائے گئے مظالم پر بھی آواز اٹھائی گئی ہے کہ اور کہا گیا ہے کہ گزشتہ سال ہندوستان میں اقلیتوں پر بہت ظلم ڈھائے گئے، انہیں قتل اور بنیادی حقوق تک سے محروم کیا گیا جب کہ ہندوستان میں اقلیتی برادریوں پر تشدد اور ان کا قتل عام سارا سال کیا جاتا ہے۔رپورٹ میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ہندوستان میں سب سے زیادہ مسلمانوں اور عیسائیوں کو ظلم وبربریت کا نشانہ بنایا گیا۔ بی جے پی کی انتہا پسندی سے سب سے زیادہ مسلمان، عیسائی اور دلت متاثر ہو رہے ہیں۔
حکومت بھارت میں مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری بنانے کے لیے منصوبہ بند کوششیں کررہی ہے۔ این آر سی اور سی اے اے جیسے قوانین اسی لیے لائے گئے ہیں۔ اترپردیش میں انسداد تبدیلی مذہب کا قانون اسی سلسلے کا حصہ ہے اور مسلمانوں کے خلاف بڑے پیمانے پر اقدامات شروع کردیے گئے ہیں۔حکومت نے مسلمانوں کے بارے میں تو یہ طے کردیا ہے کہ وہ ملک کے اندر ملک کے دشمن ہیں اور انہیں دوسرے درجے کی شہریت تسلیم کرنی ہوگی ورنہ انہیں حکومت اور حکومت کے حامیوں کی طرف سے مزید مصائب اور مشکلات کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا چاہئے۔مودی حکومت نے مسیحیوں کو بھی پریشان کرنا شروع کردیا ہے۔ مسیحی تنظیموں کو غیر ملکی مالی امداد سے متعلق قانون (ایف سی آر اے) اور تبدیلی مذہب کے نام پر پریشان کیا جارہا ہے۔ مسیحی مذہبی رہنماؤں کو گرفتار کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے کئی ریاستوں میں کافی خوف کی فضا ہے۔
ہندوستان میں مسلم اداکاروں، انسانی حقوق کے وکلاء ، سماجی کارکنوں، ماہرین تعلیم، صحافیوں، دانشوروں اور جو بھی حکومت کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں ان پر حملے کیے گئے۔ انسانی حقوق کے کارکن، پابندی، تشدد، ہتک عزتی اور استحصال کا سامنا کر رہے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ہندوستان میں اقلیتوں پر مظالم کا سختی سے نوٹس لیا اور ہم نے مودی حکومت کے کشمیری عوام کے حقوق پر غاصبانہ قبضہ اور آرٹیکل 370 کی تنسیخ کے بعد ہونے والی مشکلات کا بھی نوٹس لیا۔مودی سرکار کو اپنی انتہا پسند پالیسیوں کے باعث عالمی سطح پر شدید تنقید کا سامنا ہے لیکن مودی اپنی روش برقرار رکھتے ہوئے مسلمانوں کو مسلسل اپنے عتاب کا نشانہ بنانا رہا ہے۔بی جے پی کی انتخابات میں اکثریت کھو دینا مودی کے انتہاپسند بیانیے کی ہار کا منہ بولتا ثبوت ہے لیکن کیا مودی اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرے گا؟


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر