... loading ...
سمیع اللہ ملک
ہم سب جانتے ہیں کہ اسلام دین رحمت ہے اوراس کی شفقت ورافعت کادائرہ کارکسی خاص قوم،کسی مخصوص ملت یاگروہ کیلئے وقف نہیں ہے بلکہ اسلام میں تمام بنی نوع انسانوں کیلئے خیروعافیت کے بے پناہ خزائن موجود ہیں۔اسلام میں تمام بنی نوع انسان کواللہ کاکنبہ قراردیاگیاہے اوراللہ نے اپنے کنبے کے ساتھ بلاتفریق نیکی وبھلائی کادرس دیاہے اور اللہ کے نزدیک سب سے بہترین انسان وہ ہے جواس کے کنبے کے ساتھ بہترین سلوک روارکھے بلکہ یہاں تک فرمایاگیاہے کہ اگرتم چاہتے ہوکہ رب کریم تمہارے ساتھ پیار کریں توتم اس کے کنبے کے ساتھ پیارومحبت سے پیش آ۔ قرآن کریم میں تمام معاملات کوعدل وانصاف اوراحسان و مروت سے طے کرنے کاحکم دیا گیا ہے اورمسلم وغیرمسلم کی کوئی تخصیص نہیں ہے اوریہ بھی فرمایاگیاکہ دوسروں کے ساتھ اس طرح بھلائی کروجس طرح اللہ تمہارے ساتھ بھلائی کاسلوک فرماتے ہیں۔
اسلام میں جتنے بھی اخلاقی احکام ہیں وہ مذہب وملت کی تخصیص کے بغیرساری انسانیت کیلئے عام ہیں اوراس میں مسلم اور غیرمسلم سب شامل ہیں ۔کسی ہندوسکھ عیسائی یاکسی بھی مذہب کیلئے کوئی تفریق نہیں۔اسلام میں غریبوں کی دستگیری اور مظلوموں کی دادرسی،اخوت و رواداری اوردیگرتمام نیک کاموں کاجوحکم دیاگیاہے وہ کسی ایک کیلئے مخصوص نہیں بلکہ اس میں اقلیتوں کابرابرکاحق ہے۔ان احکامات میں اسلام قبول کرنے والوں کی غیرمذاہب کے ماننے والوں کیلئے ایک بنیادی اصلاح کی ہے جس میں مسلم معاشرے میں اقلیتوں کے تحفظ کی تمام ترذمہ داری نہ صرف ریاست پربلکہ ہرمسلمان کواس پرعمل پیراہونے کاحکم دیاگیاہے۔اسلام کے پیغام سے پہلے تمام اہل مذاہب ایک دوسرے کو باطل اورکاذب قرار دیتے تھے حتی کہ یہودی اور عیسائی جوایک ہی درخت دین ابراہیمی کی دوشاخیں ہیں ایک دوسرے کو جھوٹا سمجھتے تھے اورایک دوسرے کو صفحہ ہستی سے مٹانے کیلئے جنگ وجدل میں مصروف تھے۔ہندواپنے مذہب کے علاوہ دنیاکے کسی اور مذہب کومذہب ہی نہیں سمجھتے تھے اوریہی حال ایرانیوں کے احساسِ برتری کاتھالیکن سب سے پہلے صرف اسلام نے آکربنی نوع انسانیت کے اس نفرت اورفرق کو ختم کیاکہ دنیاکی کوئی قوم اللہ کی رحمت سے محروم نہیں اوراس کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ اس نے ہرقوم کی ہدایت و رہنمائی کیلئے ایک ہادی وپیغمبرمبعوث فرمایا۔
نبی کریم ۖکے لائے ہوئے دین سے قبل تمام قدیم ادیان میں اس قدرتحریف ہوچکی تھی کہ ان کے اصل حقائق وتعلیمات کوبری طرح مسخ کردیاگیا تھالیکن دین اسلام کی رحمت کااس بات سے اندازہ لگائیں کہ اس نے پہلے دن ہی اس بات اعلان کردیاکہ: دین میں کوئی زبردستی نہیں بے شک ہدایت گمراہی سے واضح طورپرممتازہوچکی ہے۔ البقرہ: 256 ۔بلکہ قرآن کریم نے توبحث مباحثے سے گریز اختیار کرتے ہوئے یہ حکم دیاہے کہ:اے رسولِ معظم!آپ اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اورعمدہ نصیحت کے ساتھ بلائیے اوران سے بحث (بھی) ایسے اندازسے کیجئے جونہایت حسین ہو،بیشک آپ کا رب اس شخص کوبھی خوب جانتا ہے جواس کی راہ سے بھٹک گیااوروہ ہدایت یافتہ لوگوں کوبھی خوب جانتاہے (النحل:125)
اسلام میں توغیرمذاہب کے معبودوں کوبھی برابھلاکہنے کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے کہ مبادانادانی میں غیرمذاہب کے ماننیوالے جواب میںسچے رب کوبرابھلانہ کہیں حالانکہ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ شروع دن سے ان تمام مذاہب کے ماننے والوں نے باہمی اتحاد کرکے اسلام کوختم کرنے کیلئے محاذقائم کرلیاتھالیکن اس کے باوجودمسلمانوں کوان کے درمیان بھی انصاف قائم کرنے کاحکم دیاکہ اللہ صرف انصاف کرنے والوں کواپنادوست سمجھتاہے یہی وجہ ہے کہ کسی بھی اسلامی ریاست میں غیرمسلموں کوان کے حقوق سے کبھی بھی محروم نہیں کیا گیا۔
ایک دفعہ حبشہ کے حکمران شاہ نجاشی کی طرف سے ایک وفدرسول اکرم ۖکی خدمت میں حاضرہواتومہمان نوازی کے تمام فرائض خود رسول اکرمۖنے اپنے ہاتھوں سے انجام دیئے۔صحابہ کی ایک بڑی جماعت نے جب مہمان نوازی کے حقوق اداکرنے کی خواہش کا اظہارکیاتورسول اکرم ۖنے یہ ارشادفرمایاکہ انہوں نے میرے ساتھیوں کی خدمت کی تھی،اس لئے میں خوداپنے ہاتھوں سے ان کی خدمت کروں گا۔نبی اکرمۖنے غیرمذاہب کے افرادکوتوتمام مساجد کی سردارمسجدنبوی میں عبادت کرنے کی اجازت بھی مرحمت فرمائی تھی۔ایک دفعہ نجران کے عیسائیوں کاایک وفدرسول اکرمۖسے ملنے کیلئے حاضرہوا،عیسائیوں کی نمازکاجب وقت آن پہنچاتوانہوں نے مسجدنبوی میں نماز پڑھنا شروع کی تومسلمانوں نے انہوں نے روکنے کی جونہی کوشش کی تورسول اکرمۖنے صحابہ کومنع فرماتے ہوئے عیسائیوں کونمازپڑھنے کی مکمل اجازت دی اورعیسائیوں نے اپنے عقائدکے مطابق رسول اکرمۖاورصحابہ کرام کی ساری جماعت کے سامنے الٹی سمت کی طرف منہ کرکے اپنی نمازادا کی۔
تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ اسلام کے اصل دشمن مشرکین عرب تھے اورمسلمانوں کے خلاف تمام مذاہب کے ماننے والے قبائل نے ایک مشترکہ محاذقائم کرلیاتھااورمسلمانوں کوتکلیف وایذاپہنچانے اوران کوختم کرنے کیلئے برسوں جنگ وجدل اورحملوں میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیاتھامگرمسلمانوں کواپناوجودباقی رکھنے کیلئے جنگ کے دوران مقابلے کاحکم توضروردیالیکن دورانِ جنگ بھی کسی بیجازیادتی وظلم کی اجازت نہیں دی حتی کہ کھڑی فصلوں اوردرختوں کوکاٹنے سے بھی منع فرمادیاگیا۔ قرآن کریم میں بڑی صراحت کے ساتھ حکم دیا گیا کہ جولوگ تم سے لڑیں،تم بھی اللہ کی راہ میں ان سے لڑولیکن کسی قسم کی کوئی زیادتی مت کروکہ اللہ زیادتی کرنے والوں کوپسندنہیں کرتا۔جن لوگوں نے صلح حدیبیہ میں مسلمانوں کو مسجداحرام جاننے سے زبردستی روک دیاتھاجبکہ تمام مسلمان احرام کی حالت میں تھے،ان سے بھی زیادتی کرنے سے روک دیاگیا۔قرآن کریم میں یہ حکم نازل ہواکہ جن لوگوں نے تمہیں مسجد احرام جانے سے روکاتھا،ان کایہ عمل زیادتی کا سبب نہ بنے۔ قرآن وحدیث میں کئی مواقع پرایسے اوربے شماراحکام موجودہیں جس میں اسلام کی روا داری ،اخوت اورمحبت کے بیش بہادروس موجودہیں۔
سوال یہ پیداہوتاہے کہ اسلام نے اپنی غیرمسلم اقلیتوں کوکیاحقوق دیئے ہیں اورمسلم ریاستوں نے کہاں تک ان پرعمل کیاہے؟؟ تاریخ کی ورق گردانی کی جائے توبین ثبوتوں کے ساتھ اس بات کی شہادت ملتی ہے کہ غیرمسلم اقلیتوں کیلئے اسلام سراسرایک رحمت،امن اوربھائی چارے کامذہب ثابت ہواہے۔ان کے دورِحکومت میں ان اقلیتوں کوجوحقوق واختیارات اسلام نے دیئے ایسے حقوق واختیارات توان کی اپنی قوم اوراپنے ہم مذہب حکومتوں میں بھی میسرنہ تھے۔ان کی حیثیت توغلاموں سے بھی بدترتھی اور ان کاکام تواپنا خون پسینہ بہاکراپنے حاکموں اورجاگیرداروں کیلئے سامان تعیش فراہم کرناہوتاتھا۔ان کوادنی ادنی غلطیوں پرانتہائی وحشیانہ سزائیں دی جاتی تھیں۔وہ قومیں جوآج خودکوبڑا مہذب اوراخلاق کے اعلی اقدارکے حامل ہونے کادعوی کرتی ہیں,ان کی تاریخ خودان کی لائبریریوں میں ان کامنہ چڑارہی ہے۔اس کی ایک ادنی مثال سمجھنے کیلئے ایک یہی واقعہ کافی ہوگاکہ شیفرڈبش مغربی لندن برطانیہ کاایک بہت مشہورعلاقہ ہے جوبش چرواہے کے نام سے آج بھی موسوم ہے۔اس چرواہے کے غلطی سے چلائے ہوئے تیرسے اس کاؤنٹی کے شہزادے کے محبوب ہرن کی آنکھ پھوٹ گئی جس کی پاداش میں اس شہزادے نے اس قبیلے کے تمام افرادکی آنکھیں پھوڑدیں،جہاں ایسی کئی اوروحشیانہ سزاؤں کا بھی اس کتاب میں ذکرملتاہے وہاں اسلام میں مسلم اقلیتوں کوجوحقوق دیئے گئے،ان کابھی ذکرموجودہے۔
حضرت عمر فاروق کے زمانے میں پورا جزیر العرب اسلام کے زیر نگیں ہوچکاتھا۔غیرمسلموں کے ساتھ حسن سلوک کا سب سے پہلاواقعہ نجران کے عیسائیوں سے معاہدے کاملتا ہے جس کانعم البدل اورنظیرآج تک تاریخ دینے سے قاصرہے۔ہمیں آج بھی تاریخ میں اس معاہدے کی بارہ شرائط ملتی ہیں۔
(1)ان کی جان ہرحال میں محفوظ رہے گی(2)ان کی زمین وجائیداداورتمام مال واسباب ان کے اپنے قبضے میں رہے گا(3)ان کو مکمل مذہبی آزادی ہوگی اوران کے مذہبی عہدیدار بدستوراپنے اپنے عہدوں پرقائم رہیں گے اوران کومعزول کرنے کااختیاربھی ان کے اپنے پاس ہوگا(4)ان کی عبادت گاہوں،صلیبوں،عورتوں اوربچوں کوکوئی نقصان نہیں پہنچایاجائے گا(5)ان کی کسی بھی چیز پرہرگزقبضہ نہیں کیاجائے گا(6)مسلمانوں کویہ حکم ہے کہ ریاست جب بھی جہادکااعلان کرے گی توتمام مسلمانوں پراس کی تعمیل فرض ہوگی،تاہم ان سے کسی بھی قسم کی کوئی بھی فوجی خدمت نہیں لی جائے گی(7)پیداوارکاعشربھی نہیں لیاجائے گا (8)ان کے ملک میں فوج بھی نہ بھیجی جائے گی(9)ان کے مقدمات کافیصلہ انہی کے قوانین کے مطابق کیاجائے گا(10)ان پر کسی قسم کاکوئی ظلم بھی نہ ہونے پائے گا(11)کسی ناکردہ گناہ کی پاداش میں کسی اورکوگرفتارنہ کیاجائے گااور(12)ان پرکسی بھی قسم کاکوئی بھی ظلم روارکھنے کی قطعااجازت نہ ہوگی۔
غیرمسلموں کوان کے مذہب ومسلک پربرقراررہنے کی پوری آزادی ہوگی۔اسلامی مملکت ان کے عقیدہ وعبادت سے تعرض نہ کرے گی۔اہلِ نجران کوحضورنبی اکرمۖنے جوخط لکھاتھااس میں یہ جملہ بھی درج تھا:نجران اوران کے حلیفوں کواللہ اوراس کے رسول محمدۖکی پناہ حاصل ہے۔ان کی جانیں،ان کی شریعت،زمین،اموال،حاضروغائب اشخاص ،ان کی عبادت گاہوں اوران کے گرجاگھروں کی حفاظت کی جائے گی۔کسی پادری کواس کے مذہبی مرتبے،کسی راہب کواس کی رہبانیت اورکسی صاحب منصب کواس کے منصب سے ہٹایانہیں جائے گااوان کی زیرملکیت ہرچیزکی حفاظت کی جائے گی۔(طبقات ابن سعد )اس معاہدے میں اقلیتوں کووہ تمام حقوق عطاکردیئے گئے جوان کے جان ومال کے تحفظ کیلئے ضروری تھے اورجس کاانہوں نے اپنے ہم مذہب حکومتوں میں کبھی تصوربھی نہیں کیاتھا ۔
ان بارہ شرائط سے اسلام کااپنی اقلیتوں سے اخوت ورواداری اورعدل و انصاف کے اس سنہری دورکاپتہ چلتاہے جوصدیوں تک نافذ العمل رہاجس سے متاثرہوکربغیرکسی جبر کے ہزاروں افراداسلام کے دائرہ کارمیں نہ صرف داخل ہوئے بلکہ ان میں کئی افرادنے اسلام کی بے مثال خدمت بھی کی۔اسلام میں ذمیوں کی جان مسلمانوں کی جان کے برابر قراردی گئی۔اس زمانے میں یہ عام دستورتھا کہ قاتل کومقتول کے بدلے میں قتل کردیاجاتالیکن اگرمقتول کے ورثاراضی ہوجاتے توقصاص کی بجائے خون بہااداکر دیاجاتا اوریہی دستور(یعنی قصاص وخون بہا)رسول اکرم ۖاورخلفاراشدین کے زمانے کے بعدبھی عرصہ درازتک رائج رہا۔ مشہورتاریخی کتاب بیقہی میں یہ روایت ملتی ہے کہ رسول اکرمۖکے دورمیں ایک مسلمان نے ایک ذمی اہل کتاب کوقتل کردیا، رسول اکرمۖکے سامنے جب یہ معاملہ پیش ہواتوآپۖنے فرمایاکہ مجھ پرذمی کے ساتھ کئے گئے عہدپوراکرنے کی زیادہ ذمہ داری ہے اورقصاص میں مسلمان کوقتل کرنے کاحکم دے دیاگیا۔اس بات سے پتہ چلتاہے کہ ذمیوں کی جان ومال بھی مسلمانوں کے جان ومال کے برابرسمجھی جاتی تھی اورقصاص وخون بہااوردیت کاجوقانون مسلمانوں کیلئے رائج تھاوہی قانون غیرمسلم اقلیتوں کیلئے بھی تھااوراسی طرح غیرمسلم اقلیتوں کی جائیداداوراملاک کی مکمل ذمہ داری بھی اسلامی ریاست پرعائدہوتی تھی ۔خلیفہ دوم حضرت عمرفاروق نے مفتوحہ علاقوں میں وہی قانون نافذ کئے جوخودمسلمان علاقوں میں رائج تھے۔کسی قسم کے قانون میں کوئی تفریق روا نہ رکھی گئی تھی۔
آج بھی تاریخی کتب میں شام وعراق اور مصرمیں اقلیتوں کے ساتھ اخوت و رواداری اورعدل و انصاف کا ذکر ملتا ہے اوراس سے دوسرے مفتوحہ ملکوں کے بارے میں قیاس بھی کیا جا سکتا ہے ۔ جب عراق فتح ہوا تواس وقت بڑے بڑے صحابہ کی رائے تھی کہ یہاں کی اراضی مسلمانوں میں تقسیم کر دی جائے لیکن حضرت عمرفاروق کی رائے اس سے بالکل مختلف تھی اوران کا اصرار تھا کہ اس زمین پر انہی کاشتکاروں اور زمینداروں کا قبضہ برقرار رہنا چاہئے جو اس کو پہلے سے کاشت کر رہے ہیں بلکہ آئندہ بھی ان کی نسلیں اس زمین پرکاشت جاری رکھیں اوراس سے فائدہ اٹھا سکیں ۔ کئی دن کے بحث و مباحثے کے بعد صحابہ کرام کو حضرت عمر فاروق کی رائے سے اتفاق کرنا پڑا اور اس طرح مفتوحہ علاقوں کی تمام اراضی سابقہ مالکان کے پاس رہنے کا قانون تشکیل پا گیا کہ یہ اراضی نسل درنسل منتقل ہوتی رہے گی اوروہ اپنی مرضی سے اس کی خرید و فروخت بھی کر سکتے ہیں۔ حکومت کی طرف سے ان کو مالکانہ حقوق دیئے گئے اورحکومت کو بھی ان اراضی کو واپس لینے کا کوئی اختیار نہیں تھا تاوقتیکہ متعلقہ فریق کو اس کی مرضی کے مطابق اس کا معاوضہ ادا کر دیا جائے۔
حضرت عمرفاروق کے زمانے میں جب کوفہ آباد ہوا تو شہرمیں ایک جامع مسجد کی تعمیر میں حیرہ کے خستہ و کھنڈر محلات کا ملبہ استعمال کیا گیا۔ ان محلات کا کوئی وارث نہ تھا لیکن زمین ذمیوں کی تھی جس کیلئے اس ملبے کی قیمت ذمیوں کے جزیہ سے منہا کرکے عدل و انصاف کی ایک اعلیٰ مثال قائم کی گئی۔ تاریخ میں مفتوحہ اقوام سے جو معاہدے نقل کئے گئے ہیں ان میں اقلیتوں کو مکمل مذہبی آزادی کی سرکاری ضمانت دی گئی تھی۔ جس طرح اسلامی بیت المال کسی مسلمان کے معذور ہو جانے یا بوجہ عمر رسیدگی اور غربت کے محتاج ہو جانے پر کفالت کی ذمہ داری لیتا ہے ۔اسی طرح اسلامی بیت المال پر ایک غیر مسلم کے معذور ہونے یا عاجز ہونے کی صورت میں اس کی کفالت لازم ہے۔ کتاب
الاموال میں ابوعبید نے حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ سے ایک روایت نقل کی ہے:رسول اللہ ۖ نے یہودیوں کے ایک گھرانہ کو صدقہ دیا اور حضورۖ کے وصال کے بعد بھی وہ انہیں دیا جا رہا ہے۔
عہد صدیقی میں شام کے مفتوحہ علاقوں میں معاہدے کی ایک مثال حضرت خالد بن ولید نے اہل حیرہ کو جو امان نامہ لکھ کر دیا تھا اور شام کے پادری کو ایک تحریری معاہدے میں اس کی مکمل ضمانت دی گئی: کسی بھی حال میں ان کی خانقاہیں یا گرجا گھر قطعا مسمار نہیں کئے جائیں گے اوران کو تہواروں پر ناقوص بجانے اورصلیبیں اٹھا کر جلوس نکالنے کی بھی مکمل آزادی ہو گی اورایک دوسری روایت کے مطابق نماز کے اوقات کا لحاظ کرتے ہوئے وہ جب چاہیں ناقوص بجا سکتے ہیں۔ ان کیلئے یہ حق بھی رکھا ہے کہ جو کوئی شخص بڑھاپے کے سبب ازکار رفتہ ہو جائے یا اس پر کوئی آفت نازل ہو جائے، یا وہ پہلے مال دار تھا پھر فقیر ہو گیا یہاں تک کہ اس کے ہم مذہب لوگ اس کو صدقہ وخیرات دینے لگے، تو اس کا جزیہ معاف کر دیا جائے گا اوراسے اور اس کے بال بچوں کو ریاست کے بیت المال سے خرچ دیا جائے گا۔ اگرکوئی ذمی مر جائے اور اس کے حساب میں مکمل جزیہ یا جزیہ کا بقایا واجب الادا ہو تو وہ اس کے ترکہ سے وصول نہیں کیا جائے گا اور نہ اس کے ورثا پر اس کا بوجھ ڈالا جائے گا کیونکہ یہ اس پرقرض نہیں ہے۔ امام ابو یوسف لکھتے ہیں: اگر اس پر جذیہ واجب ہو تو اس کی کل یا کچھ ادائیگی سے قبل وہ مر جائے تو اس پربقیہ واجب الادا جزیہ وارثوں سے وصول نہیں کیا جائے گا کیونکہ یہ اس پرقرض نہیں ہے(کتاب الخراج :32 )
اسی طرح حضرت ابوعبیدہ نے بھی شام کے بعض مفتوحہ علاقوں غیرمسلموں کو مکمل مذہبی آزادی کا تحریری معاہدہ کیا جو آج بھی تاریخی کتابوں میں موجود ہے اور خلفائے راشدین کے دورِ حکومت میں ان معاہدوں کی مکمل پاسداری کی گئی اوران معاہدوں میں کسی تبدیلی کا تصور بھی نہیں کیا گیا۔ امام ابو یوسف نے ان معاہدوں کی تصریح کی ہے کہ حضرت ابوبکر، عمر فاروق، عثمان غنی اور علی المرتضی کے ادوار میں ان معاہدوں کی مکمل پاسداری کی گئی بلکہ ان مذہبی خانقاہوں کے پجاری، راہبوں اور دیگر عہدیداروں کے ساتھ ساتھ ان کے اوقاف کو بھی برقرار رکھا اور ان عہدیداروں کو سرکاری خزانے سے باقاعدہ وظائف جاری کئے گئے۔ اسی طرح مصر میں مفتوحہ علاقوں میں ان مذہبی علاقوں کے ساتھ جس قدر اراضی وقف تھی ،نہ صرف ان کو بحال رکھا بلکہ ان عبادت گاہوں کی تزئین و آرائش کیلئے باقاعدہ سرکاری معاونت بھی کی گئی۔
مقریزی کے زمانے میں ایک گرجا گھر کے ساتھ ڈیڑھ ہزار فدان اراضی وقف تھی جس کی کاشت پربھی کوئی ٹیکس نہیں لیا جاتا تھا ۔ مسلمانوں کے اس سنہرے ادوارمیں نہ صرف ان کی مذہبی عبادت گاہوں کی مکمل حفاظت کی گئی بلکہ بہت سے نئے گرجا گھر، آتش کدے اور مندر تعمیر ہوئے جس میں بیشتر سرکاری اراضی استعمال کرنے کی اجازت بھی دی گئی۔ اس طرح اقلیتوں کے حقوق کے بارے میں اللہ کے ہاں جوابدہی کا خوف بھی ان پرطاری رہا اور عدل وانصاف کی وہ درخشاں مثالیں قائم کیں کہ جس کی مثال آج کے روشن خیال و تہذیب یافتہ ممالک میں بھی نہیں ملتی۔
تاریخ کامشہورواقعہ ہے کہ ولید بن عبدالملک اموی نے دمشق کے کلیسا یوحنا کو زبردستی عیسائیوں سے چھین کر مسجد میں شامل کر لیا۔ بلاذری کے مطابق: جب حضرت عمر بن عبدالعزیز تختِ خلافت پر متمکن ہوئے اور عیسائیوں نے ان سے ولید کے کلیسا پر کیے گئے ظلم کی شکایت کی توانہوں نے اپنے عامل کو حکم دیا کہ مسجد کا جتنا حصہ گرجا کی زمین پر تعمیر کیا گیا ہے۔اسے منہدم کرکے عیسائیوں کے حوالہ کر دو اور ان کی دل آزاری کا معقول معاوضہ بھی دیا جائے ۔ (فتوح البلدان:150)
راجہ داہر کے ظلم کے خلاف جب محمد بن قاسم نے سندھ کو فتح کیا تو سب سے پہلے تمام ادیان کے پیروکاروں اور ہندوں کو مکمل امان اور مذہبی آزادی کا اعلان کیا گیا۔ الغرض اسلام نے اقلیتوں کے جان و مال اور مذہبی اقدار کا نہ صرف تحفظ کیا بلکہ مسلم اخوت و رواداری کا یہ عالم تھا کہ جب محمد بن قاسم کو سندھ سے واپس بلایا گیا تو اس وقت بیشتر ہندوؤں نے اپنے مندروں و عبادت گاہوں اور گھروں میں محمد بن قاسم کے حسنِ سلوک کی وجہ سے اس کے بت سجا رکھے تھے ۔اسلام میں ان کے جان و مال اور مکمل مذہبی آزادی پر ہی اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ اس زمانے میں ہندوؤں کو ان کی صلاحیتوں کے مطابق بڑے بڑے عہدوں پر مامور بھی کیا گیا جہاں ان کے تمام مقدمات ان کے اپنے مذہبی رسوم و رواج کے مطابق طے کئے جاتے تھے ۔ اقلیتوں کے بارے میں بے تعصبی، وسعت قلبی، اعلی ظرفی اورعدل و انصاف کی یہ وہ چند مثالیں ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام میں اقلیتوں کو کس قدرامان اور تحفظ حاصل تھا لیکن اس کے برعکس آج کے روشن خیال اورمہذب مغرب اور ننگ انسانیت متعصب ہندو بھارت میں کیا ہو رہا ہے اس کی تازہ مثالیں ان دو خبروں میں ملاحظہ فرمالیں۔
یورپی ملک جرمنی کے شہر برلن میں مسلم اور یہودی تنظیمیں ختنے پرپابندی کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کر رہی ہیں۔ کولون کی ایک عدالت نے حکم دیا تھا کہ صرف مذہبی بنیادوں پر نوزائیدہ بچوں کی ختنہ سنگین جسمانی نقصان کے برابر ہوتی ہے۔ اس فیصلے کے بعد جرمن میڈیکل ایسوسی ایشن نے قانونی کارروائی سے بچنے کیلئے تمام ڈاکٹروں سے کہا تھا کہ وہ بچوں کی ختنہ نہیں کریں سوائے اس کے کہ جب یہ عمل طبی طور پر ضروری ہو۔اِس سے پہلے یورپ کی یہودی اور مسلمان تنظیمیں اِس ایک معاملے پر متحد ہوگئی تھیں اور انہوں نے مشترکہ طور پر جرمنی کے قانون سازوں سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ بچوں کی ختنہ کے حق کا تحفظ کریں۔بیویریا میں ایک راہب کی جانب سے ختنے کرنے پر ان سے تفتیش کی جا رہی ہے۔
ہندوستان کی راجدھانی سے صرف 65 کلومیٹر دور شہر روہتک کے ایک گاں کٹولی میں ہندو نیتاؤں کے 14/افراد پرمشتمل ایک پنچایت میں ایک تغلقی فرمان کے مطابق مسلمانوں کی مسجد جس میں وہ اجتماعی طور پر نماز پڑھتے تھے، اس کو فوری طور پر مسمار کر دیا گیا ہے، اور یہ پابندی عائد کر دی گئی ہے کہ گاؤں میں تمام مسلمان فوری طور پر اپنی داڑھی منڈوا دیں ۔ آئندہ کوئی بھی داڑھی والا شخص اس گاؤں میں داخل نہیں ہو سکتا، اگر کسی کو اس گاؤں میں آنا ہے تو اس کو اپنی داڑھی منڈوا کر آنا ہو گا۔ اس ہندو پنچائت نے جن چھ احکام پرمبنی فرمان جاری کئے ہیں ان میں پہلا فرمان یہ ہے کہ گاؤں کے ایک مسلمان نوجوان کے ہاتھوں ایک ہندو کی بکری مر گئی جس کی وجہ سے اسے جیل میں بند کرکے اس پر مقدمہ دائر کر دیا گیا ہے، حکومت کی طرف سے جیل کی سزا کاٹنے کے باوجود وہ عمر بھرگاؤں میں داخل نہیں ہو سکتا جبکہ مسلمانوں نے اس بکری کی مالیت سے کئی گنا زائد جرمانہ بھی ادا کر دیا ہے۔ دوسرا فرمان یہ کہ دھان کی کٹائی کے فوری بعد مسلمانوں کے قبرستان کو مکمل طور پر صاف کر دیا جائے گا گویا تمام قبروں کو مسمار کرکے میدان بنا دیا جائے گا۔ تیسرا فرمان یہ کہ کسی بھی مسلمان مولوی اس گاؤں میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہوگی اور چوتھا فرمان یہ کہ نہ ہی گاؤں کا کوئی فرد نماز پڑھے گا اور نہ ہی کسی بھی قسم کی اسلامی رسومات
پر عملدرآمد کرے گا، پانچواں فرمان یہ کہ کسی بھی نئے مولود بچے یا بچی کو اسلامی نام نہیں دیا جائے گا بلکہ اس کا ہندو طرز پر نام رکھا جائے گا اور گاؤں میں جتنے بھی مسلمان جو صدیوں سے یہاں بس رہے ہیں اپنے اسلامی ناموں کو ختم کرکے سرکاری ریکارڈ میں ہندوؤں کے نام سے ازسرنو اپنی رجسٹریشن کروائیں گے، چھٹا فرمان یہ کہ اگر کسی مسلمان خاندان کا کوئی فرد کسی دوسرے گاؤں یا شہرسے کسی اپنے مسلمان رشتے دار کی وفات پر تعزیت کیلئے آئے گا تو اسے بھی گاؤں میں داخل ہونے سے قبل اپنے چہرے سے داڑھی کو مکمل صاف کرکے آنا ہو گا، اس فرمان کے جاری ہونے کے بعد گاؤں کے وہ تمام افراد جو کئی برس تک بھارت کی فوج میں بھی اپنی خدمات سرانجام دے چکے ہیں،ان کے چہروں سے بھی جبراً داڑھی کو صاف کر دیا گیا ہے۔ اس انسانیت سوز فرمان پر عملدرآمد کیلئے وہاں کے مسلمانوں کو ایک مہینے کی مہلت دی گئی ہے جس کے بعد اس فرمان کی خلاف ورزی کرنے والے کے گھر کو جلا دیا جائے گا۔موجودہ دورکی صرف ان دومثالوں سے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ جمہوریت کی چیمپئن بننے والوں کے ہاں منافقت کا کیاعالم ہے کہ انہیں اپنی داڑھی کا شہتیرتونظرنہیں آتا لیکن مسلمانوں کی آنکھ کاتنکابھی ان کوگراں گزرتاہے۔