... loading ...
ریاض احمدچودھری
انسانی حقوق کی علمبردار بھارتی دانشور اور مصنفہ ارون دھتی رائے نے کہا ہے کہ پچھلے 5 برس سے مقبوضہ کشمیر میں ایک بار پھر پورے جوش و خروش سے آزادی کی تحریک ابھری ہے اور بھارتی قبضے کو اخلاقی جواز صرف بھارت نواز متعصب پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے ہی فراہم کیا جارہا ہے لیکن کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو اب کوئی ختم نہیں کر سکتا۔ مجھے مقبوضہ کشمیر دنیا کا سب سے بڑا جیل خانہ لگتا ہے۔ جہاں جدید ترین اسرائیلی اور مقامی اسلحہ سے لیس بھارتی فوج تحریک آزادی کو دبانے کیلئے ہر طرح کے مظالم کر رہی ہے۔ کشمیر اب واحد جگہ نہیں رہی جہاں شناختی پریڈ، مورچہ بندی، دوران تشدد قتل و غارت اور انسانی حقوق کی پامالی ہو رہی بلکہ یہ جنگ منی پور، ناگا لینڈ، مینرو رام اور آسام سے ہوتے ہوئے بھارت کے مرکز تک پہنچ چکی ہے چنانچہ اب تمام بھارت کئی لحاظ سے کشمیر بنتا جارہا ہے۔
مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ ماننے سے انکار کرنے پرعالمی شہرت یافتہ بھارتی لکھاری ارون دھتی رائے پر بھارت میں انسداد دہشتگردی قوانین کے تحت مقدمہ چلایا جارہا ہے۔14 سال پہلے ارون دھتی رائے نے 2010 میں نئی دلی میں کشمیر پر منعقدہ تقریب میں کہا تھا کہ کشمیر کبھی بھی بھارت کا اٹوٹ انگ نہیں رہا۔ بھارتی فوج نے کشمیر پر زبردستی قبضہ کیا اور کشمیر کی آزادی کی ہر ممکن کوشش ہونی چاہیے۔ مودی حکومت کے متنازعہ انسداد دہشت گردی قانون میں مشتبہ فرد کو الزامات عائد کیے بغیر 180 روز کی قید میں رکھا جاسکتا ہے۔
ارون دھتی رائے کے ساتھ یونیورسٹی کے سابق پروفیسر شیخ شوکت حسین کے خلاف بھی قانونی کارروائی کی جائے گی جو انسدادِ دہشت گردی قانون کے تحت ہوگی۔ قانونی کارروائی کے لیے گرین سگنل مقبوضہ کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر وی کے سکسینہ کے طرف سے آیا ہے ارون دھتی رائے اور چند دوسری شخصیات پر مقبوضہ کشمیر کو بھارت کو اٹوٹ انگ نہ ماننے اور اس خطے کو الگ ریاست میں تبدیل کرنے کے حق میں بیانات دینے اور تقریریں کرنے کے الزام میں مقدمہ دائر کیا گیا تھا۔بکر پرائز کا اعزاز حاصل کرنے والی 62 سالہ بھارتی مصنفہ بھارت میں اقلیتوں کے خلاف امتیازی پالیسیوں، قوانین اور معاشی عدم مساوات کے خلاف مودی حکومت کی کڑی ناقد رہی ہیں۔ارون دھتی رائے بنیادی حقوق کے لیے لڑنے والی سیاسی ورکر ہیں اور اقلیتوں کے لیے آواز اٹھانے کے حوالے سے زیادہ معروف ہیں ان کے ناول ”گاڈ آف اسمال تھنگز” کو 1997 میں امریکا کے عالمی شہرت یافتہ پلٹزر پرائز سے نوازا گیا تھا۔
بھارت میں 200سے زائد دانشوروں بشمول ماہرین تعلیم، کارکنوں اور صحافیوں نے ایک کھلا خط شائع کیا ہے جس میں مودی حکومت پر زور دیا گیا ہے کہ وہ گزشتہ ہفتے ”بوکر پرائز”حاصل کرنے والی مصنفہ اروندھتی رائے کے خلاف ملک کے سخت انسداد دہشت گردی قانون کے تحت مقدمہ چلانے کی منظوری دینے کا فیصلہ واپس لے۔ گروپ نے خط میں کہا، ”ہم اس کارروائی کی مذمت کرتے ہیں اور حکومت اور ملک کی جمہوری قوتوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ہمارے ملک میں کسی بھی موضوع پر آزادانہ اور بے خوفی سے اظہار خیال کے بنیادی حق کی خلاف ورزی نہ ہو۔” دستخط کرنے والوں میں سے ایک، تاریخ کے پروفیسر اجے ڈانڈیکر نے کہا کہ یہ فیصلہ غیر منصفانہ تھا۔انہوں نے کہا “ہندوستانی آئین رائے کی آزادی کے حق کو برقرار رکھتا ہے اور ہم ایک آئینی جمہوریت ہیں”۔کسانوں کی یونینوں کے گروپ سمیکت کسان مورچہ نے بھی اس فیصلے کی مذمت کی۔ دہلی اور بنگلورو میں انسانی حقوق کے گروپوں، کارکنوں اور طلباء نے اروندھتی رائے کیخلاف مقدمے کی کارروائی چلانے کی منظوری کیخلاف احتجاجی مظاہرے بھی کیے ہیں۔
ارون دھتی رائے نے کہا کہ امریکی اور مغربی میڈیا کو مصر میں تو انسانی حقوق کی پامالی دکھائی دی لیکن مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں پر ہونے والے ہولناک مظالم انہیں دکھائی نہیں دیتے۔ دراصل مسئلہ کشمیر کیلئے بھارت کو ناراض کرنا مغربی طاقتوں کی حکمت عملی نہیں بن سکتی۔ کشمیر کے حق میں تقریر کرنے پر مجھ پر غداری کا مقدمہ بنانے کی کوشش کی گئی۔ بھارت اور کسی حد تک پاکستان کا بھی مفاد مسئلہ کشمیر کو زندہ رکھنے سے وابستہ ہے، ایسا مفاد جو سیاسی بھی ہے اور مادی بھی، جس طرح فلسطین کے معاملے میں اسرائیل کو امریکی ایمائ حاصل ہی بالکل اسی طرح کشمیر کے معاملے میں بھی بھارت کو بھی امریکی آشیرباد حاصل ہے۔بھارت غیر قانونی طور پر اپنے زیر تسلط جموں و کشمیر میں اپنی دہشت گردی کی مہم مسلسل جاری رکھے ہوئے ہے۔ جموں و کشمیر میں بھارت کی ریاستی سرپرستی میں ہونے والی دہشت گردی کا کوئی جواز نہیں ہے جہاں اس کی سیکورٹی فورسز ہر روز بے گناہ کشمیریوں کو دہشت ، اذیت اور تشدد کا نشانہ بناتی ہیں۔ انتہائی افسوسناک بات یہ ہے کہ بھارت کئی دہائیوں سے دہشت گردوں کو پناہ اور تحفظ فراہم کر رہا ہے۔
بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کی ایک عدالت نے کشمیری خواتین کی تنظیم ‘دختران ملت’ کی سربراہ سیدہ آسیہ اندرابی اور ان کی دو قریبی ساتھیوں صوفی فہمیدہ اور ناہیدہ نصرین پر دہشت گردی، بغاوت اور دیگر سنگین الزامات کے تحت فرد جرم عائد کر دی۔ان تینوں پر بھارتی حکومت کے خلاف جنگ چھیڑنے اور ملک میں دہشت گردی کی کارروائیوں کی سازش رچانے جیسے سخت اور سنگین الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ بھارتی میڈیا کے مطابق 59 سالہ آسیہ اندرابی اور ان کی دونوں ساتھیوں نے الزامات سے انکار کر دیا، جس کے بعد خصوصی جج پروین سنگھ نے ٹرائل کے احکامات جاری کیے۔قانونی ماہرین کے مطابق آسیہ اندرابی اور ان کی ساتھیوں کے خلاف سخت نوعیت کے الزامات عائد کیے گئے ہیں اور اگر عدالت نے انہیں قصور وار قرار دیا تو انہیں اپنی باقی زندگی جیل میں گزارنا پڑ سکتی ہے۔