... loading ...
حمیداللہ بھٹی
انسٹی ٹیوٹ آف ا سٹریٹجک ا سٹڈیز اسلام آباد کے یومِ تاسیس کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے نائب وزیرِ اعظم و وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار نے پاک بھارت تعلقات میں بہتری کی خواہش کا اظہار کیا ہے انھوں نے کچھ ایسے حقائق،بھارت کا پاکستان میں ماورائے عدالت قتل جیسے واقعات اور علاقائی تنظیم سارک کو غیر فعال بنانے جیسے واقعات کی طرف اِشارہ کیا ہے مملکتوں میں دوستانہ تعلقات کی اہمیت سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتامگر بھارتی سازشیں کوئی راز نہیں رہیں بلکہ ایک سے زائد بار ثابت ہو چکا ہے کہ وہ جنوبی ایشیا کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش میںہے بلکہ محض اِس بناپر سارک کو فعال کرنے میں رکاوٹ ہے تاکہ باہمی تنازعات کے حوالے سے بات چیت کا آغاز نہ ہو سکے یہ طرزِعمل کسی طور پُرامن ریاست کے شایانِ شان نہیں بھارتی سوچ آشکار ہونے پر خطے کے ممالک میں دوریوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے حالانکہ لگ بھگ دوارب کی آبادی پر مشتمل یہ ایک ایسی تجارتی منڈی ہے جسے دنیا کی کوئی طاقت نظرانداز کرنے کی متحمل نہیں ہو سکتی مگرتنازعات کی وجہ سے معدنی وسائل سے مالامال خطے کی آبادی کازیادہ حصہ آج بھی بھوک وافلاس کا شکار ہے روزگار کے مواقع کم ہونے کی وجہ سے لوگ بیرونِ ملک ہجرت پر مجبور ہیں اگر خطے میں تنازعات کا خاتمہ ہوجائے اور وسائل ہتھیارخریدنے پر صرف کرنے کی بجائے غربت کے خاتمے اور بہبودکے منصوبوں پر خرچ کیے جائیں تو نہ صرف روزگار کے مواقع بڑھا ئے جاسکتے ہیں بلکہ غربت میں کمی کی کوششیں بھی کامیابی سے ہمکنار ہو سکتی ہیں لیکن ایسی تعمیری سرگرمیوں میں بھارت رکاوٹ ہے اُس کی وجہ سے گزشتہ دودہائیوں سے خطے میں جوہری ہتھیاروں کی دوڑ شروع ہے جس سے خدشہ ہے کہ دستیاب وسائل سے فلاح و بہبود کاحصہ مزیدکم ہوسکتاہے۔
مودی کے تیسری باروزیرِ اعظم منتخب ہونے پر شہباز شریف نے تعلقات میں بہتری کاعندیہ دیا تھا جبکہ سابق وزیرِ اعظم نواز شریف نے تو ایک قدم اور آگے بڑھاتے ہوئے ماضی بھلا کر مل کر چلنے کی خواہش ظاہر کی اب نائب وزیرِ اعظم اسحاق دار، جن کے پاس ووزارتِ خارجہ کا منصب بھی ہے نے تعلقات بہتر بنانے کی خواہش ظاہر کی ہے جویقیناََ پاکستان کی امن پسندی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا بھارت بھی پاکستان سے تعلقات بہتر بنانا چاہتا ہے اور علاقائی تنازعات کا بات چیت سے حل نکالنے کا آرزو مندہے ؟وائے افسوس کہ ایسا نہیں بلکہ بھارت گزشتہ دہائی سے ایک ایسے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے جس کا مقصد پاکستان کوداخلی طورپر غیر مستحکم اور عالمی سطح پر تنہا کرنا ہے شاید انتہا پسند ہندو قیادت کا خیال ہے کہ پاکستان کو داخلی مسائل میں الجھا کر زیرنگین کرلے گی اسی لیے پاکستان کو مسلسل نظر انداز کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے مگر وقت نے ثابت کر دیا ہے کہ پاکستان کو نظر انداز کرنے سے بھارت عالمی سطح پر اپنا ایجنڈا تو منوا نہیں سکاالبتہ دونوں ممالک میں محاذآرائی میں اضافہ ہواہے نیز باہمی تعلقات کم ترین سطح پر آگئے ہیںاور پاکستان اپنی بقا و سلامتی کے لیے تمام وسائل سے کام لینے لگا ہے بھارت کے جوہری دھماکوں کے جواب میں چند ہفتوں میں اپنی جوہری صلاحیت و طاقت کا اظہار اِس کا ثبوت ہے یہ پیغام ہے کہ
پاکستان ہر قسم کے حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے نہ صرف تیار ہیں بلکہ وسائل بھی رکھتا ہے یہ ایسا جواب تھا جو ہندو انتہا پسند قیادت کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی تھا مگر افسوس وہ آج بھی حماقتوں میں مصروف ہے دو جوہری طاقتوں کا ٹکرائو کسی کے مفاد میں نہیں بلکہ ایسا ہونے کی صورت میں خطے کی تباہی یقینی ہے مگر بھارت کی انتہا پسند قیادت بددستور امن کی بجائے جارحانہ حکمتِ عملی کواپنائے ہوئے ہے جس سے خطے میں تنائو بڑھ رہا ہے اِس کے باوجود تعلقات کی بہتری کی خواہش سمجھ سے بالاتر ہے۔
1947 میں تقسیم ہند کے تحت ریاستوں کو اختیار دیا گیاتھا کہ وہ آزاد رہنا چاہیں یا جس ملک سے چاہیں الحاق کرلیں ایسا کرنے میں آزاد ہیں مقبوضہ کشمیر مسلم اکثریتی ریاست بھی پاکستان میں شامل ہونے کی متمنی تھی لیکن مہاراجہ کشمیر سے سازبازکرکے بھارت نے اپنی فوجیں کشمیر میں داخل کردیں اور جوا یہ پیش کیا کہ ایساحریت پسندوں کے حملوں کو روکنے اور عمل بحال کرنے کے لیے کیا گیا ہے لیکن اِس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دونوں ممالک میں سرحدی جھڑپیں شروع ہو گئیں اورہر محاز پر بھارت کو ہزیمت ہونے لگی لڑائی میں وقت کے ساتھ تیزی آنے سے خدشہ پیدا ہو گیا کہ خطے میں ایک بڑی جنگ ہوسکتی ہے جس کے تدارک کے لیے عالمی طاقتیں متحرک ہوئیں جن کی کوششوں سے 1949میں کراچی معاہدہ طے پایا جس کے تحت جموں و کشمیر میں جاری لڑائی ختم کرادی گئی اور وعدہ کیا گیا کہ ریاست کے باشندوں کو موقع دیا جائے گا کہ وہ جس ملک سے چاہیں الحاق کر لیں لیکن آج تک نہ تو بھارت اپنے وعدے پورے کر سکا ہے اور نہ ہی اقوامِ متحدہ نے اپنی پاس کردہ قراردادوں پر عملدرآمد کرانے کی سنجیدہ کوشش کی ہے دونوں ممالک میں 65 ء 71اور پھر کارگل جیسی تین بڑی جنگیں بھی لڑی گئیں لیکن مسلہ کشمیر برقرارہے آج بھی دونوں ممالک وسائل کا بڑا حصہ دفاع پر خرچ کرتے ہیں اگر بھارتی قیادت انتہاپسندانہ اور جارحانہ سوچ ترک کردے تو نہ صرف دیرینہ تنازعات کا حل نکل سکتا ہے بلکہ دونوں ممالک کے تعلقات میں مثالی بہتری بھی ممکن ہے مگر بھارتی قیادت کے اقدامات سے ہویداہے کہ وہ پاکستان سے تعلقات بہتر بنانے کی خواہش ہی نہیں رکھتی تو سوال یہ ہے کہ پاکستان کی طرف سے بار بار تعلقات کی بہتری کی درخواست کیوں کی جارہی ہے؟سچ تو یہ ہے کہ باربار درخواستیں کرنے سے کمزوری کا تاثر گہراہو رہا ہے ضرورت اِس امر کی ہے کہ لاحاصل کوششیں ترک اور داخلی مسائل حل کرنے کے ساتھ معیشت اور دفاع بہتر بنانے پر توجہ دی جائے تاکہ اقوامِ عالم میں مقام بہتر ہو۔
جب دوفریقوں میںسفارتی سطح پر تنائو کی کیفیت ہو اور بات چیت کا عمل منقطع ،تو کوئی ایک فریق پہل کرتا ہے اور تعلقات بہتر بنانے کی خواہش کرتا ہے مگر ایسی پہل تبھی کامیاب ہو سکتی ہے جب دوسرا فریق بھی جواب میں دلچسپی ظاہرکرے اور ایسا ماحول بنائے جس سے بات چیت کاعمل شروع ہو سکے مگر بھارت مسلسل باورکرارہا ہے جیسے تعلقات بہتر بنانے میں کوئی دلچسپی ہی نہیں بلکہ کچھ عرصہ سے دبائو بڑھا رہا ہے تاکہ پاکستان بات چیت پر مجبور ہواور بھارتی شرائط پر مقبوضہ کشمیر کا حل تسلیم کر لے ظاہر ہے ایسا کسی صورت ممکن نہیں کیونکہ ایسا کرنا اصولی موقف سے انحراف ہو گا لہذا بہتر یہ ہے کہ پاکستان بار بار تعلقات بہتر بنانے کی التجائیں نہ کرے اور اپنی تمام تر توانائیاں مسائل حل کرنے اور عالمی سطح پر بھارتی وعدہ خلافیوں کے حوالے سے زور دار مُہم چلائے یادرہے کہ کمزورکی کوئی نہیں سنتا اور حق لینے کے لیے جدوجہد کرنا پڑتی ہے پاکستان بھی حق لینے کی کوشش کرے اور دشمن سے دوستی قائم کرنے سے اجتناب ، کیونکہ ایسی کوششوں سے لگ رہا ہے کہ پاکستان تھک چکا ہے جو کسی طور آزاد وخود مختار ملک کے لیے بہتر نہیں ہے۔