... loading ...
میری بات/روہیل اکبر
ہمارے معاشرے میں عدم برداشت کا لفظ بہت استعمال ہوتا ہے جس کی وجہ سے بگاڑ بھی پیدا ہوتا ہے اور یہ لفظ ہی ہوتے ہیں جو زبان سے ادا ہونے کے بعد جنگ و جدل کا ماحول بنا دیتے ہیں یا پھر صحرا میں بھی پھول کھلا دیتے ہیں ۔اسی لیے تو کہتے ہیں کہ پہلے تولو پھر بولو۔ موضوع الفاظ کا انتخاب ہی انسان کو صاحب طرز بناتا ہے سنگ تراش کا فن پتھر میں چھپے ہوئے نقش اجاگر کرتا ہے۔ اسی طرح الفاظ سے مضمون اور مضامین سے الفاظ کے رستوں کا علم ہی انسان کو مصنف بناتا ہے دنیا میں اصل قوت الفاظ کی ہے الفاظ کی طاقت قدم قدم پر عیاں ہوتی ہے لفظ لفظ قلزم ہوتے ہیں۔ قوموں کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کے لیے الفاظ کا تازیانہ ہی کافی ہے۔
علمائے کرام اورشعراء حضرات کا کمال الفاظ کے دم سے ہے الفاظ خون میں نہ صرف حرکت پیدا کرتے بلکہ جسم کے رونگٹے بھی کھڑے کر تے ہیں اوریہ الفاظ ہی ہوتے ہیں جو غلامی کو آزادی میں بدل جاتے ہیں۔الفاظ ہی امید کے چراغ روشن کرتے ہیں اور الفاظ ہی مایوسی کی تاریکیاں پیدا کرتے ہیں۔ الفاظ کی خاص ترتیب حد خوانی کا کام کرتی ہے محبت اتنی قابل نہیں ہوتی جتنی اسے الفاظ بنا دیتے ہیں ۔اس لیے ہمیشہ اپنی زبان پر قابو رکھنا چاہیے کیونکہ جس طرح کی زبان سے جیسے لفظ ادا ہونگے انکی نسبت بھی ویسے ہی بن جائیگی جیسے الفاظ خداکے ہوں تو قران، رسول ۖکے ہوں تو حدیث،بزرگان دین کے ہوں توملفوظات اورداناؤںکے ہوں تواقوال کہلاتے ہیں۔ جتنی مقدس زبان سے ادا ہوں گے الفاظ اتنے ہی مقدس ہوں گے اتنے ہی موثر و معطر ہوں گے۔ اچھے الفاظ پر کچھ خرچ نہیں ہوتا لیکن اچھے الفاظ سے بہت کچھ حاصل ہوتا ہے۔ الفاظ ہی انسان کو پسندیدہ یا ناپسندیدہ بناتے ہیں۔ الفاظ خوشبو کی طرح ماحول کو معطر کرتے ہیں ۔منور کرتے ہیں اور الفاظ ہی انسان کی روح اور وجود کا تعارف ہوتے ہیں اور وہ بتاتے ہیں کہ انسان کس ماحول میں پلا بڑھا اور کن ہاتھوں میں اس کی تربیت ہوئی۔
مولانا روم فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ دو قافلے صحرا کے قریب آ کر ٹھہرے۔ ایک مسلمانوں کا دوسرا یہودیوں کا تھا۔ مسلمانوں کے قافلے نے صبح کے وقت جب اذان کہی تو کچھ ہی دیر کے بعد یہودیوں کی طرف سے ایک نمائندہ انتہائی بیش قیمتی تحائف لے کر امیر قافلہ کے پاس حاضر ہو کر شکریہ کے ساتھ عاجزی کے ساتھ کچھ تحائف پیش کرنے لگا ۔وجہ دریافت کرنے پر پتہ چلا کہ یہودی سردار کی بیٹی نے اسلام قبول کیا تھا اور اس کو اسلام سے ہٹانے کے لیے اس کے قریب رفقاء علماء اور والدین یہودی خاندان نے بہت کردار ادا کیا۔ کا وو اسلام سے پھر جائو لیکن اس میں خاطرخواہ کامیابی حاصل نہ ہوئی لیکن آج جب مسلم قافلے کی طرف سے دی جانے والی اذان کرخت لہجے بے سر میں دی گئی تو وہ عورت اپنے دین کی طرف واپس پلٹ آئی۔ نتیجہ یہ تھا کہ موذن مبلغ خوشحال خوش الحان ہونا چاہیے ۔دعوت کے افکار انداز اور لفظوں کے چناؤ سے ہٹ کر لہجے کی گرختگی اور نرمی بھی اکثر اوقات آپ کو بدظن کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔
الفاظ کے چنائو پر ہی ایک اور قصہ بھی پڑھ لیں کہ ایک بادشاہ نے دست شناس یعنی ہاتھ دیکھنے والے کو بلوایا اور اس شخص نے جب بادشاہ
کا زائچہ بنایا تو یہ کہا کہ جہاں پناہ اپ اپنے خاندان کو اپنی آنکھوں کے سامنے مرتا ہوا دیکھیں گے اور ان جملوں کی ادئیگی کے بعد بادشاہ انتہائی سیخ پا ہوتے ہوئے غصے میں آگیا اور اس نے اس دست شناس کو گرفتار کر کے بند کرنے کا حکم دیا اور پھر اعلان کروایا کسی اور شخص کو تلاش کیا جائے ۔پھر دوسرا دست شناس آیا اس نے جب بادشاہ کا ہاتھ دیکھا تو اس نے بتایا کہ بادشاہ سلامت اپ کی عمر لمبی ہوگی اور جی بھر کر جیے گے ۔ بادشاہ بڑا خوش ہوا اور کہا آپ انعام کے طور پر مانگیے مجھ سے کیا مانگتے ہیں ؟ تو اس شخص نے کہا کہ مجھے پیسے نہیں چاہیے بس آپ کی قید و بند میں جونجومی ہے اسکو آزاد کر دیں۔ بادشاہ نے وجہ پوچھی تو اس نے کہا کہ اصل میں وہ میرے انتہائی قابل صد احترام استاد ہیں بات میں نے بھی وہی کہی جو انہوں نے کہی لیکن ان کے اور میرے لفظوں میں فرق یہ تھا انہوں نے کہا کہ اپ اپنے خاندان کو اپنی آنکھوں کے سامنے مرتا ہوا دیکھیں گے ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی عمر کم ہوگی اور آپ کی عمر زیادہ تو میں نے آپ کو صرف یہ کہا کہ حضور آپ کی عمر زیادہ ہوگی اس کا مطلب ہے آپ لمبی عمر کے ساتھ زندہ رہیں گے۔ ان سے لفظوں کے چناؤ میں یہ کمی رہ گئی کہ وہ لفظوں کے انتخاب میں محتاط نہ رہ سکے ۔اس لیے ہمیں خود بھی الفاظ کا استعمال کرتے وقت اپنی زبان میں مٹھاس اور لہجے میں شیرینی رکھنی چاہیے کسی کی بری بات بھی برے انداز میں منہ پر نہیں کہنی چاہیے ۔
ہم نے اکثر دیکھا ہے کہ گلی محلوں میں بچوں کی توں تکرار سے شروع ہونے والی لڑائی خاندانوں کے خاندان اجاڑ دیتی ہے اس لیے دوسروں سے بات کرتے وقت اپنی زبان کو قابو میں رکھتے ہوئے کسی کی دل آزاری بھی نہیں کرنی چاہیے بلکہ ہمیشہ ایک دوسروں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے کسی کی دو لفظوں میں تعریف کردیں تو اسکا خوشی سے خون بڑھ جاتا ہے اور بے جا تنقید کرنے سے مایوسی بڑھتی ہے جو انسان کو جرائم کی طرف مائل کردیتی ہے اگر لفظوں کا صحیح استعمال دیکھنا ہو تو آپ قصیدے کے الفاظ،مرثیے کے الفاظ ، تنقید کے الفاظ، توصیف کے الفاظ ، رزمییہ اور عشق کے الفاظ، غزل کے الفاظ ،مثنوی کے الفاظ ، شرافت کے الفاظ کا بغور جائزہ لیں تو سب میں فرق ہوتا ہے جس کو جو بات سمجھانی ہو اسی لہجے میں سمجھائی جاتی ہے اور سب الفاظ کا طرز مخاطب ایک دوسرے سے جدا ہوتا ہے لیکن ان سب میں ایک چیز مشترک ہو تی ہے کہ یہ تمام کے تمام الفاظ مٹھاس سے بھر پور ہوتے ہیں جبکہ بدمزاج،بدتمیز اور بدالفاظ ہونا سب سے خطرناک ہے آپ تمیزدار ہیں یا بدتمیز اس کا پتہ سامنے والے کو اپ کے ادا کردہ لفظوں سے ہوگا۔ بولتے وقت ایسے لفظوں کا انتخاب کیجیے کہ ہر لفظ کرامت بن جائے اور آپ لفظوں کے جادوگر بن کر سامنے والے پر سحر طاری کردیں ۔