... loading ...
ریاض احمدچودھری
عالمی ذرائع ابلاغ نے بھارت میں حالیہ پارلیمانی انتخابات کے نتائج کو نریندر مودی کے ہندوتوا ایجنڈے کے لیے ایک بڑا دھچکا قرار دیا ہے۔ مودی کی پارٹی نے اپنی اکثریت کھو دی اور ووٹرز نے ان کے ہندو قوم پرست ایجنڈے کو مسترد کر دیا۔اس ضمن میںنیو یارک ٹائمز نے لکھا کہ 2024 کے نتائج نے مودی کے ناقابل تسخیر ہونے کاتاثر ختم کر دیااو ر اب وہ مکمل طور پر اپنے اتحادیوں پر انحصار کرنے پر مجبور ہیں۔ بھارتی ووٹر آخرکار جاگ گئے ، مایوس کن انتخابات کے بعد مودی کی شخصیت گھٹ گئی ہے اوروہ زمین پر گر گئے ہیں۔ واشنگٹن پوسٹ نے ہندو قوم پرستی پر مودی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لکھا کہ رام مندر کی تعمیر نے بھی ووٹرز کو متاثر نہیں کیا۔ وال سٹریٹ جرنل نے نتائج کو مودی کے لیے ایک سرزنش قرار دیا۔ دی گارڈین نے لکھا کہ مودی کے حوالے سے یہ تاثر ختم ہو گیا ہے کہ وہ ناقابل تسخیرہیں۔ بی بی سی نے نتائج کو مودی کے لیے ایک دھچکاجبکہ حزب اختلاف کے انڈیا اتحاد اور کانگریس پارٹی کے رہنما راہول گاندھی کے لیے ایک اہم تبدیلی قرار دیا۔ اے پی نے مودی کو دوریاں پیدا کرنے والے رہنما کے طور پر بیان کیا۔سی این این نے رپورٹ کیا کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے ووٹرزنے مودی کے نظریے کومسترد کر دیا۔
مودی سرکارنے انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف گھیرا تنگ کر کے بھارتی عوام میں مسلمانوں کے خلاف زہر گھولا جس کا سب سے بڑا ثبوت راجستھان میں انتخابی ریلی کے دوران مودی نے مسلمانوں کو نشانے پر رکھا۔ مودی سرکارنے انتخابات کی مہم کے دوران فرقہ وارانہ نظریے کے فرغ کا کوئی موقع جانے نہیں دیا۔ سوشل میڈیا پر بھارتی عوام نے مودی کے مسلم مخالف بیانیے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ مودی سرکار کے پاس کوئی اتھارٹی نہیں ہے کہ وہ بھارتی مسلمانوں کے خلاف غلط معلومات پھیلائے۔ عوام کا کہنا ہے کہ مودی فرقہ وارایت کی بنیاد پر منتخب ہونے والے سیاسی رہنما کے طور پر عہد پورے کر رہے ہیں۔ مودی کے جھوٹے دعوؤں کی حقائق پر مبنی فوری جانچ پڑتال کی جائے، بھارتی عوام کی رائے ہے کہ بھارت کے سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ نے کہا تھا کہ بھارت پر مسلمانوں کا پہلا حق ہے جب کہ مودی کون سے بھارت کو دنیا کے سامنے لانا چاہتا ہے۔مودی نے نیشنل ڈیولپمنٹ کونسل کی میٹنگ میں منموہن سنگھ کے خطاب کی جان بوجھ کر غلط تشریح کی۔ مودی اپنے انتہا پسند نظریے کے تحت ہمارے لوگوں کو ذات پات، نسل، جنس اور مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرنا چاہتے ہیں، اگر ہم ایک خوش حال اور مساوی بھارت کی امید رکھتے ہیں تو ہمیں اس متعصب سوچ سے باہر نکلنا ہوگا۔
ممتاز صحافیوں، مبصرین اور سماجی کارکنوں نے قانون نافذ کرنے والے اداروں سے مودی سرکار کے اس اشتعال انگیز رویے پر اختیار کیے جانے والی خاموشی پر سوال اٹھایا کہ راجستھان پولیس نے اپنی آئینی ذمہ داری کے مطابق مودی کے خلاف پہلی اطلاعاتی رپورٹ کیوں درج نہیں کی۔بھارت میں اقلیتوں پر پہلے سے جاری ظلم و ستم انتہا پسند مودی سرکار کے آنے کے بعد اب بربریت کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ مودی سرکار دنیا میں سیکولرزم کا پرچار کرتی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ ہندوؤں کے سوا بھارت میں کوئی بھی اقلیت محفوظ نہیں ہے۔ مذہب کے نام پر اپنی سیاست چمکانے والی مودی سرکار مسلمانوں کے خلاف کھلم کھلا غنڈہ گردی اور دہشت گردی میں ملوث ہے۔
ہندوتوا ہندو قوم پرستی میں انتہا پسندی کی حد تک چلے جانے کا اصطلاحی نام ہے۔ یعنی ہندو قومیت کی بالادستی کا متشدد نظریہ ہے۔ ونائیک دمودر سورکر نے 1923ء میں اس اصطلاح کا پرچار کیا تھا۔ قوم پرست ہندو رضاکار تنظیموں راشٹریہ سیوک سنگھ، وشو ہندو پریشد اور ہندو سینا نے اس نظریے کو بام عروج پر پہنچا دیا۔ چند بائیں بازو کے سماجی سائنسدانوں نے ہندوتوا کو انتہائی درست اور نظریہ قوم پرستی، اکثریت متجانس و بالادستی ثقافت کے مطابق قرار دیا ہے جبکہ بہت سے دیگر بھارتی سماجی سائنس دان ہندوتوا کی اس تعریف سے اختلاف رکھتے ہیں۔
انتہا پسند جماعت آر ایس ایس اور ہندوتوا کا پرچار کرنے والوں کو ان واقعات میں حکمراں جماعت بی جے پی کی سرپرستی حاصل ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کرسمس کے موقع بھارت کے شہر آگرہ میں سانتا کلاز کا پتلا نذرآتش کیا گیا، ریاست ہریانہ میں گرجا گھر میں توڑ پھوڑ کی گئی، مسیحی برادری کو ناصرف عبادت سے روکا گیا بلکہ انتہا پسندوں نے ہندو مذہب کے نعرے بھی لگوائے۔حال ہی میں بنگلور سے تعلق رکھنے والے بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ تجسوی سریا کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس میں وہ بھارت میں مسلمانوں اور عیسائیوں کو ہندو بنانے پر زور دے رہی ہیں۔بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی زیرِقیادت حکومت نے مذہبی اور دیگر اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ منظم امتیازی سلوک کرنے اور اْن پرتہمتیں لگانے کا سلسلہ جاری رکھا۔ بی جے پی کے حامیوں نے ٹارگٹ گروپوں کو پرتشدد حملوں کا نشانہ بنایا۔ حکومت کا ہندو اکثریتی نظریہ نظامِ انصاف اور قومی کمیشن برائے انسانی حقوق جیسی آئینی اتھارٹیزسمیت مختلف اداروں میں پائے جانے والے تعصب سے ظاہر ہوتا ہے۔