... loading ...
میری بات /روہیل اکبر
بجٹ کے بعد پاکستان میں مہنگائی کا جن بوتل سے نکل کر بے قابو ہو چکا ہے اور عوام کی چیخیں نکل رہی ہیں مزید پریشانی اس وقت ہو گی جب جولائی میں بجلی کے بل ملیں گے۔ مہنگائی نے ہماری معاشی صورتحال بگاڑ کررکھ دی ہے جبکہ ملک میں سیاسی صورتحال بھی خراب ہے۔ مولانا فضل الرحمن حکومت کے خلاف تحریک چلانے کو تیار بیٹھے ہیں جبکہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ حکومت مولانا صاحب کو بلوچستان کی وزارت اعلی ،ڈپٹی چیئرمین سینٹ ،چیئرمین کشمیر کمیٹی اور گورنر خیبر پختونخواہ کے عہدے دیکر انہیں منانے کے لیے بھر پور کوشش کررہی ہے اگر وہ مان گئے تو پھر احتجاج موخر ہو سکتا ہے ورنہ مولانا فضل الرحمن پی ٹی آئی کے ساتھ مل کر حکومت کے لیے مشکلات پیدا کرسکتے ہیں۔ اسی لیے سیاسی منظرنامہ بے یقینی اور اضطراب سے بھرا ہوا ہے اور ملک میں کوئی ترقیاتی کام بھی نہیں ہورہا ،رہی بات عوام کی وہ تو ویسے بھی مہنگائی اور غربت کے خوف تلے دبے ہوئے ہیں۔ روزمرہ کی ضروریات، جیسے بجلی، پانی، اور بنیادی اشیائے ضروریہ دستیاب ہونے کے باوجود اتنی مہنگی ہو چکی ہیں کہ عام آدمی کی پہنچ سے باہرہیں، اگر پیٹرول سستا ہوتا ہے تو بجلی مہنگی ہو جاتی ہے اور تو اور جب پٹرول مہنگا ہوتا ہے تو تمام چیزیں مہنگی ہو جاتی ہیں لیکن جب پیٹرول نیچے آتا ہے تو چیزوں کی قیمتیں برقرار رہتی ہیں یہ بھی فلسفہ عوام کی سوچ سے بالاتر ہے کہ جب پٹرول کی قیمت بڑھتی ہے تو چیزیں آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیں جبکہ پٹرول کم ہونے کے بعد چیزوں کی قیمتیں کم ہونی چاہیے لیکن ایسا نہیں ہوتا۔
اسی طرح پاکستان کی سیاسی صورتحال عدم استحکام اور غیر یقینی کیفیت میں مبتلا ہے الیکشن سے قبل عوام کو سبز باغ دکھانے والے مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنما اقتدار کی کشمکش میں مصروف ہیں عوام کی مشکلات اور مسائل کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ سیاستدانوں کے بیانات اور اقدامات سے ایسا تاثر ملتا ہے کہ ان کی اولین ترجیح عوام کی فلاح و بہبود نہیں بلکہ اپنے سیاسی مفادات ہیں اور اسی سیاسی رسہ کشی کی وجہ سے حکومت کی کارکردگی متاثر ہو رہی ہے انتظامیہ اور عدلیہ کے درمیان کشیدگی، اور پارلیمنٹ میں عدم تعاون نے ملک کو بحران کی طرف دھکیل دیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ عوام کو حکومت پر اعتماد نہیں رہا اور وہ اپنے مسائل کے حل کے لیے کسی بھی سیاسی جماعت سے امید کھو بیٹھے ہیں۔ اس سیاسی بے یقینی کی فضا میں عوام مایوسی کا شکار ہو رہے ہیں اور ان کی مشکلات میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اشیائے خورد و نوش، بجلی، گیس اور پیٹرول کی قیمتیں عوام کی قوت خرید سے باہر ہو چکی ہیں۔ غریب اور متوسط طبقے کے لوگ اپنی روزمرہ کی ضروریات پوری کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں کیونکہ گھریلواشیائے ضروریات کی قیمتیں اتنی زیادہ ہو چکی ہیں کہ لوگ ان کے بغیر گزارا کرنے پر مجبور ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ خطرناک بات جو یہ ہے کہ غربت کی شرح میں اضافہ ہونے کے ساتھ ہی بے روزگاری عام ہوتی جا رہی ہے۔ عوام کے پاس نہ تو روزگار ہے اور نہ ہی آمدنی کے ذرائع، اس صورتحال میں عوام مایوسی کے عالم میں کسی مسیحا کے انتظار میں ہیں۔اگر ہم اپنے سیاسی رہنمائوںکے بیانات سن لیں تو ان میں بھی عوام کی مشکلات کا ذکر تک نہیں ہوتا۔ عوامی مسائل کے حل کے بجائے سیاسی رہنما اپنی طاقت کو مضبوط کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ عوام یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ سیاستدان ان کے مسائل کے حل میں مکمل طور پر غیر سنجیدہ ہیں جبکہ بدعنوانی، اقربا پروری، اور نااہلی جیسے مسائل نے عوام کو مایوسی کے عالم میں دھکیل دیا ہے۔ عوام کا اعتماد بحال کرنے کے لیے ضروری ہے کہ سیاستدان اپنے ذاتی مفادات کو چھوڑ کر عوامی خدمت کو اپنا اولین مقصد بنائیں اور ان مسائل پر بھی توجہ دیں جو عوامی زندگی میں روز کے معمول میں شامل ہیں ۔مختلف سرکاری محکموں میں بھی مسائل کی بھرمار ہے۔ صحت، تعلیم، پانی، اور بجلی کے محکمے عوام کی توقعات پر پورا اترنے میں ناکام ہو رہے ہیں۔ صحت کے شعبے میں ادویات کی قلت صرف غریبوں کے لیے ہے۔ ہسپتالوں کی خستہ حالی نے عوام کو پریشان کر رکھا ہے کہیں آگ لگنے ست بچے مر رہے ہیں تو کہیں بلڈنگ گرنے کے واقعات رونما ہورہے ہیں۔ تعلیمی اداروں کی حالت زار اور معیار تعلیم نہ ہونے کہ وجہ سے مستقبل کے معماروں کے لیے مستقبل میں مشکلات ہی مشکلات نظر آرہی ہیں سرکاری اساتذہ کی کئی کئی سالوں سے ترقیاں ہی نہیں ہو رہی جس سے ان میں بھی بددلی پھیل رہی ہے ۔
پانی اور بجلی کے بحران نے عوام کی زندگی ویسے ہی اجیرن بنا دی ہے روزانہ کی لوڈشیڈنگ،پانی کی عدم دستیابی اور گندے پانی کا معاملہ 75 سال ہو گئے ہیں حل نہیں ہو پایا غریب عوام ایک تو غربت سے پس رہی ہے اور اوپر سے گندا پانی پی کر عوام بیماریوں میں مبتلا ہو رہی ہے۔ بعض اوقات تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کا کوئی بھی ادارہ سنجیدگی سے غریب عوام کے بارے میں نہیں سوچ رہا موجودہ حالات میں عوام کی مشکلات اور مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے، ضروری ہے کہ حکومت اور سیاستدان سنجیدگی سے عوامی فلاح و بہبود پر توجہ دیں۔ مہنگائی اور غربت کے خاتمے کے لیے مؤثر حکمت عملی اپنائی جائے اور سرکاری محکموں کی کارکردگی کو بہتر بنایا جائے۔ عوام کا اعتماد بحال کرنے کے لیے ضروری ہے کہ سیاستدان اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں اور عوام کی خدمت کو اپنا نصب العین بنائیں ورنہ تو بجٹ کے بعد لوگ یہ کہنے پر مجبور ہوگئے تھے کہ حکومت نے اپنے لیے مراعات اور عام عوام کی صحت کیلئے ھوالشافی تعلیم کیلئے رب زدنی علما اور خوراک کیلئے واللہ خیر الرازقین کے وظیفے مختص کیے گے ہیں کیونکہ 52 فیصد بجٹ تو صرف اس قرض اور سود کی ادائیگی میں چلا جائے گا جس سے اشرافیہ عیاشیاں کرتی ہے۔