... loading ...
سمیع اللہ ملک
(گزشتہ سے پیوستہ)
بہرحال افغانستان سے غاصب امریکاکاانخلایقیناافغان مجاہدین کی استعمارسے جاری18سالہ جنگ میں ایک عظیم الشان فتح ہے جس پر افغان مجاہدین مبارکبادکے مستحق ہیں کہ انہوں نے دنیا کی دوبڑی سپرطاقتوں کابڑی جوانمردی سے نہ صرف مقابلہ کیا بلکہ ذلت آمیزشکست دیکر افغانستان کوان دونوں فرعونی طاقتوں کاقبرستان بھی بنایا۔افغان مجاہدین کے صبر،ہمت وحوصلے کی دل کھول کرداددیناچاہئے جوتقریبا18سال تک مشترکہ مسلح امریکی اوراس کے اتحادی افواج کے ساتھ برسرپیکاررہے اوراسلامی نظام پرکسی بھی قسم کا سمجھوتہ کرنے کی ضرورت تک محسوس نہیں کی اوریقیناخودافغان جہادی قوتوں کااس فتح کی پشت پر پاکستان کے کلیدی کردارکااعتراف بھی موجودہے لیکن کیااسے محض اتفاق کانام دیاجاسکتاہے کہ امریکاجوبرسوں سے شام کی سرزمین پردولت اسلامیہ(داعش)کوکچلنے کے بہانے،ایران کاراستہ روکنے اورشام میں ایرانی فوج کے اثرورسوخ کومحدود کرنے کیلئے کودپڑاتھا،اسے اب اچانک انخلاکافیصلہ کیوں کرناپڑاجس پرعملدرآمدبھی افغانستان سے قبل ہی شروع ہوچکاتھا جبکہ شام میں تاحال داعش کاوجود کثیرتعداد میں باقی ہے اور ایران کے ساتھ مل کرحزب اللہ کواتاردیاہے اوراس وقت شام میں ایرانی فوج اورپاسداران کے پانچ کمانڈر،تیرہ فوجی اڈے اورقریباً ایک لاکھ نفری موجودہے۔یہ پانچ کمانڈر دمشق کے بیس میں واقع ایرانی ہیڈکوارٹرسے براہِ راست منسلک ہیں بلکہ التنف میں جوشام،اردن وعراق کاانتہائی اہم سرحدی علاقہ ہے،امریکی اڈے کے گردحزب اللہ کی پیش قدمی عروج پرپہنچ گئی تھی۔
اس کے نتیجے میں شام سے امریکی انخلا کابیان سامنے آتے ہی اسرائیل پرجیسے قیامت ٹوٹ پڑی تھی۔رپورٹ کے مطابق اسرائیلی اخبار ”یدی ہوتھ اخرونوتھ”کے مطابق ایک اسرائیلی عہدیدارکے مطابق”امریکاکی طرف سے اس قسم کابیان ہمارے لئے تعجب سے کم نہیں بلکہ افسوسناک ہے۔ہمیں اس بیان سے کوئی فرق نہیں پڑتااورہم شام میں ایرانی فوج کی موجودگی کے خلاف سخت اقدامات جاری رکھیں گے۔” کیاامریکاکوبیچ میں سے نکال کراسرائیل براہِ راست گریٹراسرائیل کے منصوبے کی طرف پیش قدمی کرناچاہتا ہے؟ یہ محض اتفاق نہیں بلکہ ٹرمپ نے جس وقت امریکی سفارت خانے کویروشلم منتقل کرنے کااعلان کیاتھا،امت مسلمہ کے دانشوران اس بات کوسمجھ گئے تھے کہ اب طاقت کاتوازن امریکا سے اسرائیل کی طرف منتقل ہونے والاہے اور اسرائیل اقتدارمیں آنے سے قبل امریکی افواج کودنیابھرسے واپس بلانے اوراخراجات کم کرنے کے عزائم کی طے شدہ منصوبے کی تکمیل کررہاہے جہاں پرامن،محفوظ اورلاتعلق نیاامریکادنیاکی سربراہی سے دستبردارہوجائے گااوردنیاپرگریٹراسرائیل کی عملاحکمرانی ہوگی۔
حالیہ پاک بھارت کشیدگی کوبھی اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اسرائیل اپنے گریٹراسرائیل کی تکمیل کیلئے کس طرح بھارت کی مودی سرکارکواستعمال کرنے کی پوری کوشش کررہاہے اورباقاعدہ پاکستان پرمشترکہ حملے میں اسرائیل کے ذہن سازوں نے تین برس تک اس منصوبے کی نہ صرف نوک پلک سنواری بلکہ بالاکوٹ حملے میں بھارتی مگ جنگی جہاز اسرائیلی بموں سے لیس ہوکرحملہ آورہوئے اور باقاعدہ ایک منظم سازش کے تحت اگلے دن درجن بھربھارتی جدیدجنگی جہازوں کی مددسے بالاکوٹ کے قریب حملے میں اسرائیلی ساختہ اسپائس 2000بم استعمال کئے گئے جبکہ یہ بم صرف میراج طیاروں پرہی نصب کیے جا سکتے ہیں تاہم اسرائیل ان بموں کوروسی ساختہ سخوئی30 طیاروں پرنصب کرنے میں بھارت کی بھرپور معاونت کی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان قریبی فوجی تعاون کئی برسوں سے چل رہاہے۔
پاکستان نے بھارت کے جوطیارے تباہ کئے ان میں سے ایک مگ21تھاجس کاملبہ پاکستانی حدودمیں گراجب کہ دوسراسخوئی30 بتایا جاتا ہے جس کا ملبہ مقبوضہ کشمیرمیں گراتاہم بھارت اپنے دوسرے طیارے کی تباہی سے انکارکرتارہالیکن بعدازاں میڈیانے بھارت کے اس جھوٹ کاپردہ چاک کردیا۔ذرائع کایہ کہنا ہے کہ چونکہ دوسرا پائلٹ اسرائیلی ہے اس لیے بھارت کیلئے یہ کہنا ممکن نہیں کہ اس کا ایک اور پائلٹ پاکستان کی تحویل میں ہے۔دوسری جانب اسرائیل بھی سرعام یہ تسلیم نہیں کرسکتا کہ اس کا پائلٹ پاکستان پرحملہ کرنے گیاتھا۔بھارتی میڈیا یہ بھی کہہ چکاہے کہ پاکستانی طیاروں کامقابلہ کرنے کیلئے جوبھارتی جہازاڑے تھے ان میں میراج بھی شامل تھے۔اسرائیلی فضائیہ کے پاس میراج طیارے ہیں اوراس کے پائلٹ ان طیاروں کو اڑانے کا تجربہ رکھتے ہیں۔
اس حملے میں پاکستان کے پانچ اہم مقامات کونشانہ بنانے کاپروگرام بھی منکشف ہواتھاجس میں راجستھان سے بہاولپورپرحملہ کرکے پاکستان کوسندھ کی طرف سے الگ کرنامقصود تھالیکن اس سے قبل ہی پاکستان کی فضائیہ اورجنگی ماہرین نے بھارت کے آٹھ اہم علاقوں کو عملی طورپرلاک کرکے پیغام بھیج دیاگیاکہ پاکستان کاجواب اس منصوبے سے تین گنا زیادہ ہوگااوربھارت اپنے دو درجن حصوں کوجمع نہیں کر پائے گاجس پربھارت واسرائیل کوویسی ہی ناکامی کامنہ دیکھناپڑاجیسا 27 مئی 1998کو بری طرح ناکامی کامنہ دیکھنا پڑاتھا۔تاہم یہ بات طے ہے کہ افغانستان سے امریکاکے انخلا کے بعدبھارت واسرائیل کوجس عظیم ناکامی کاسامناہے،امریکی انخلا کوناکام بنانے کیلئے بھارت واسرائیل ہلکے پیٹ برداشت نہیں کرپائے اوراب بھی خطے میں پانچ کھرب ڈالرزکے تیل سے دستبرداری دنیاکومزید تباہی کی طرف لے جاسکتی ہے لیکن جس طرح حالات نے افغان مجاہدین کو فتح سے ہمکنارکیاہے،بدقسمتی سے اس کے فوائدسے خطے کومحروم کرنے کیلئے دونوں ممالک میں غلط فہمیوں کے پہاڑحائل کرنے کی کوششیں عروج پرہیں اوراب ضرورت اس امرکی ہے کہ موجودہ افغان حکومت جوکئی مرتبہ امریکااوراس کے اتحادیوں سے افغانستان کوآزادکروانے میں پاکستان کے کلیدی کردارکے معترف ہیں،ایک مرتبہ پھردشمنوں کی سازشوں کا جائزہ لیتے ہوئے دوست اوردشمن کاواضح فرق کوسمجھیں کہ اسی میں پورے خطے کی بقامضمرہے۔ہمارے مقتدرحلقوں کوبھی عقل کے ناخن لینے کی اشدضرورت ہے کہ دن دیہاڑے جماعت اسلامی کے سابقہ سینیٹرمشتاق صاحب کی قیادت میں اسرائیل کے خلاف دھرنے کے دوران ایک انٹیلی جنس کے افسرکا دو افرادکوکچل کرشہیدکردینااورکئی دیگرافرادکوزخمی کرکے فرارہوجانا، کیااس بات کی دلیل ہے کہ درپردہ یہودوہنودکے احکام کی پیروی ہورہی ہے۔
یادرکھیں کہ خطے میں جس طرح میرے رب کے نظام کے قیام کی باتیں ہورہی ہیں،امیدواثق ہے کہ میرارب کے فیصلوں کی بہاریں دنیاکومستفیذکرنے جارہی ہیں اوردنیاکا نیا دجال اک نئے جنجال میں غرق ہوجائے گاان شااللہ۔۔۔ (ختم شد)