... loading ...
علی عمران جونیئر
موسم والوں نے تو صاف صاف کہہ دیا کہ جون کے آخری ہفتے سے ملک بھر میں پری مون سون کاآغاز ہوگا۔۔یہ تو بہت اچھی بات ہے کیونکہ گرمی نے تو برا حال کررکھا تھا، ہم نے لاہور میں ہی کسی دوست سے سنا ہے کہ سوہنے لاہور دا سوہنا نظارہ، ایک دن بارش دس دن گارا۔۔لیجنڈ مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی صاحب کہتے ہیں کہ ساس، سسر ،موسم اور حکومت کے خلاف لکھنے کے لیے دماغ پر زیادہ زور نہیں دینا پڑتا۔۔۔اور ویسے بھی موسم ، معشوق اور حکومت کا گِلہ ہمیشہ سے ہمارا قومی مشغلہ رہا ہے۔ ہم نے کراچی کے ایک قدیم باشندے سے پوچھا کہ یہاں مون سون کا موسم کب آتا ہے؟ اس بزرگ باراں دیدہ نے نیلے آسمان کو تکتے ہوئے جواب دیا کہ چار سال پہلے بدھ کو آیا تھا۔یہ کہنا تو غلط ہوگا کہ کراچی میں بارش نہیں ہوتی۔ البتہ اسکا کوئی وقت اورپیمانہ معین نہیں لیکن جب ہوتی ہے تو اس انداز سے گویا کسی مست ہاتھی کو زکام ہوگیا ہے۔ سال کے بیشتر حصہ میں بادلوں سے ریت برستی رہتی ہے لیکن چھٹے چھ ماہے دو چار چھینٹے پڑ جائیں تو چٹیل میدانوں میں بہو بیٹیاں ایک دوسرے کو دیکھنے کے لیے نکل پڑتی ہیں۔ اس قسم کا موسم بے تحاشا ”رش” لیتا ہے۔
لاہور اور کراچی میں بارش ہی بڑا فرق ہے۔۔کراچی کے شہری بارش کیلئے ترستے رہتے ہیں تو لاہورمیں بادل برستے رہتے ہیں۔۔کراچی کا سمندر تو بہت ہی مشہور ہے جسے سی ویو بھی کہتے ہیں لیکن جب زوردار بارشیں ہوتی ہیں تو پھر ہر گلی ہر کوچہ سی ویو بن جاتا ہے یعنی اتنا پانی کھڑا ہوجاتا ہے کہ سمندر کا سماں لگتا ہے پھر اس کا ویو، سی ویو کا منظر ہی پیش کرتا ہے۔۔بارشوں میں کراچی والوں کے پکوان بھی خاص طور پر تیار کئے جاتے ہیں، سموسے، پکوڑے، کچوریاں تو گھر گھر بنتی ہیں، کہیں بیسن کی روٹی اور چٹنی بنائی جاتی ہے، لیکن ہماری کوشش ہوتی ہے کہ بارشیں ہوتے ہی لسی پی جائے۔۔لسی کے بارے میں ایک بڑے آدمی کا قول ہے کہ جس نے لسی نہیں پی تو اس نے لسی نہیں پی۔۔ہمارے کچھ لبرلز دوست اسے دیسی بیئر کا خطاب بھی دیتے ہیں۔۔کسی معروف مصنف کی کسی تحریر میں لسی کے تین فائدے پڑھے تھے۔۔لسی پی کے انسان چست ہوجاتا ہے، حافظہ تیز ہوجاتا ہے، اور تیسری بات شاید میں بھول گیا۔۔۔ویسے کبھی کبھی ایسے ہی دل میں خیال آتا ہے کہ لسی نہ ہوتی تو ہم دہی کا کیا کرتے؟۔۔پچھلے دنوں ہمارے دوست نے ایک لطیفہ سنایاکہتے ہیں، جنت میں کوئی جنتی واک کررہا تھا، اچانک اس نے دیکھا کہ بٹ صاحب درخت سے الٹے لٹکے ہوئے ہیں، اس نے فرشتے سے پوچھا،بٹ صاحب کو کیوں الٹا لٹکایاہواہے؟۔۔ فرشتے نے جواب دیا۔۔صبح بٹ صاحب نے کہاکہ پیٹ میں کچھ گڑبڑ ہے،انہیں دہی کا کونڈا دے دیا گیا، انہوں نے آدھا کونڈا تو استعمال کرلیالیکن آدھے کونڈے سے دودھ کی نہر میں جھاگ لگادی۔۔
مشتاق احمد یوسفی صاحب فرماتے ہیں،وہ انگریزی فلمیں جن میں بارش کے مناظر ہوتے ہیں کراچی میں خوب کامیاب ہوتی ہیں۔ جغرافیہ پڑھنے والے بچے انہیں خود دیکھتے اور والدین کو دکھاتے ہیں۔ صاحب استطاعت والدین اپنے بچوں کو بارش کا مطلب سمجھانے کے لیے راولپنڈی لے جاتے ہیں اور انہیں وہ ہرے بھرے لان بھی دکھاتے ہیں جن پر پانی ”روپیہ” کی طرح بہا یا جاتا ہے۔۔ویسے تو دسمبر بہت زیادہ شادیوں کے حوالے سے بدنام ہے لیکن کبھی کبھار بارشیں بھی اس مہینے پر بدنامی کا دھبہ لگادیتی ہیں۔۔خدا گواہ ہے کہ بچپن سے لے کر اب تک جب بھی پی ٹی وی دیکھا تو محکمہ موسمیات نے یہی انکشاف کیا کہ کہیں اور ہو نہ ہو “مالاکنڈ ڈویڑن” میں بارش ضرور ہوتی ہے۔۔آج بھی اگر موسم والوں کی پریس ریلیز ہاتھ لگے توہمارے اس دعوے کو آپ خود نوٹ کرلینا۔۔ہمارے ایک محترم دوست اپنے بچپن کا قصہ سناتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ایک بار وہ کمرے میں بیٹھے جھوم جھوم کر سبق یادکررہے تھے کہ کہ ،مون سون ہوائیں بارش برساتی ہیں۔ بارش برماتی ہیں۔ان کی امی جان نے پوچھا، بارش برسانا تو سنا تھا، یہ برماتی کیا ہوا؟؟۔۔۔وہ بولے ، کتاب میں ایسا ہی لکھا ہے۔ امی نے کتاب دیکھی تو واقعی چھپائی کی غلطی سے برسا کی “س” موٹی ہو کر “م” بن گئی تھی۔۔۔جن لوگوں نے فورٹی ناٹی کراس کرلیا ہے انہیں یاد ہوگا کہ ،ایک زمانہ تھا ہم سب کے غسل خانوں میں صرف ایک لال صابن نظرآتاتھا، اب دنیا میں صابنوں اور ٹی وی چینلز کی کوئی کمی نہیں۔۔ہمارے پیارے دوست کہتے ہیں کہ ،کچھ لوگ ہر گھڑی نہانے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ انہیں نہانے سے روکنا ایسا ہی ہے جیسے چیف جسٹس سے کہا جائے کہ پلیز ایک اور وزیراعظم کو گھر نہ بھیجیں۔۔۔انہی کا مزید کہنا ہے کہ ۔۔جان لیوا گرمیوں میں گنے کا رس،لیموں پانی،دہی پودینہ کی چھاچ،دہی کی لسی،فالودہ،شربت روح افزا،ٹینگ کے مختلف اقسام کے جوس،تربوز کا جوس،آئسکریم وغیرہ جتنا بھی کھائیں پئیں لیکن کلیجے میں ٹھنڈک بیوی کے میکے جانے پر ہی پڑتی ہے۔۔
کسی نے کیا خوب کہا ہے،جب کوئی نوجوان اداس رہتا ہے تو اس کی اداسی کی صرف دو وجہ ہوتی ہیں۔ یا وہ عشق فرمانے کی حماقت کر رہا ہے یا اس کا بٹوہ خالی ہے۔۔لیکن ہمارا کہنا ہے کہ ،اگر کوئی “پیر” کو بھی مسکراتا نظر آئے تو سمجھ جائیں کہ وہ بے روزگار ہے۔۔لاہورکی شدید ٹھنڈ تقاضا کرتی ہے کہ روٹھی ہوئی محبوبہ کی یاد میں آنسو بہانے سے اجتناب کیا جائے،آنسو تو رک ہی جائیں گے مگر بہتی ہوئی ناک نہیں رکے گی۔۔ہمارے ایک لاابالی دوست نے ایسے ہی موسم میں اپنی گرل فرینڈ کو واٹس ایپ کیا، دسمبر آگیا جاناں۔۔سنو سردی سے مر جانا۔۔دسمبر کے علاوہ بھی، مجھے تم زہر لگتے ہو۔۔اب اس بیچارے کو یہ کون سمجھائے کہ لڑکوں کی شادی بہت مشکل سے ہوتی ہے جب کہ لڑکیوں کی شادیاں عموماً حادثوں کی وجہ سے ہی وقوع پذیر ہوتی ہیں مثلاً۔۔حادثاتی طور پر گول روٹی بن گئی تو شادی کر دو ۔۔فیل ہو گئیں تو شادی کردو ۔۔اچانک سے اچھا رشتہ آ گیا تو شادی کر دو ۔۔ محلے کا کوئی لڑکا دروازے کے باہر کھڑا ہو گیا تو شادی کردو،اب چاہے وہ مفت وائی فائی کے چکر میں کھڑا ہو۔۔ اگر لڑکی منگنی شدہ ہے تو لڑکے کا بھائی سعودیہ سے آرہا ہے تو شادی کر دو ۔۔خاندان میں کوئی بیمارہوجائے تو شادی کردو۔۔بھابھی سے لڑائی ہوجائے تو شادی کردو۔۔امتحان میں نمبر کم آجائیں تو شادی کردو، موبائل فون کا استعمال بڑھ جائے تو شادی کردو۔۔اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے زمانے میں تربوز ایسے خریدا جاتا تھا جیسے آج کل شادی کی جاتی ہے۔۔ویسے کبھی کبھی ایسے ہی دل میں خیال آتا ہے کہ ایسی قوم کو کون شکست دے سکتا ہے جو خربوزہ سونگھ کر بتادے کہ اندر سے کیسا نکلے گا۔۔؟؟
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔ بزرگوں سے سنتے آئے ہیں کہ ”بارش خدا کی رحمت ہوتی ہے ” اس مقولے کی صداقت میں کوئی مبالغہ نہیں مگر بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ رحمت ایزدی مذکورہ مقولے میں ایک نقطے کا اضافہ کردیتی ہے یعنی یہی رحمت زحمت بن جاتی ہے۔۔ ہمارے پیارے دوست نے ٹھیک ہی کہا ہے۔۔بارش کے موسم میں شرافت اور کیچڑ دونوں پر نظر رکھنا پڑتی ہے۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔