وجود

... loading ...

وجود

نیادجال،نیاجنجال

هفته 22 جون 2024 نیادجال،نیاجنجال

سمیع اللہ ملک
گیارہ ستمبر2001کوقصرسفیدکے فرعون کی نخوت وتکبربھری آوازنے ساری دنیاکودوحصوں میں تقسیم کردیاجس میں اس نے اپنی فرعونی طاقت کے بل بوتے پرساری انسانیت کوللکارکرخوفزدہ کرتے ہوئے کہاتھاکہآج ہماری تہذیب اورطرزِزندگی پرحملہ ہوا ہے، یا تو آپ ہمارے ساتھ ہیں یاہمارے مخالف۔ایک وہ جویہودی منصوبہ بندیورلڈآرڈرکی امریکی حکمت عملی کاحصہ بنیں گے اورجدیدتہذیب کادفاع اپنی زندگی کا نصب العین قراردیکرتن من دھن سے اس مشن میں حصہ لیں گے،انہیں اپنے مفادات کی حدتک محبوب رکھا جائے گاچاہے وہ تاریخ کی سب سے بدترین وحشت ناک بربریت کے مرتکب کیوں نہ ہوں اوردوسرے وہ جویا توجدیدتہذیب کامقابلہ کریں گے یافرعونی امریکی حکمت عملی کے بارے میں سکوت اختیارکریں گے،مخرالذکردونوں کو بالتدریج عبرت کانشان بنادیاجائے گالیکن کس کواس بات کاعلم تھاکہ غروروتکبرکے نشے میں مدہوش عالمی طاقت کہلانے والا ایسی دلدل میں پھنسنے جارہاہے جس میں اس سے قبل زمین پرخدائی کادعوی کرنے والوں کےآثارموجودہیں لیکن اب بھی یہ عبرت حاصل کرنے کوتیارنہیں۔
کاش تاریخ کوگیارہ ستمبر2001 کادن نہ دیکھناپڑتاجس کے نتیجے میں ملکوں کے ملک اجڑ گئے،شہرویران کردیئے گئے، بستیاں برباد ہو گئیں،لاتعدادگھروں کاملیامیٹ کردیاگیا، لاکھوں انسانوں کوتہزیبی،معاشی وسیاسی بالادستی کی خاطربارودسے نہ صرف بھسم کردیاگیابلکہ ان کے چیتھڑے تک اڑادیے گئے،جوان لڑکیوں کواجتماعی تشددوہوس کانشانہ بنادیا گیا ،اولادکے سروں سے والدین کاسایہ چھین لیا گیا۔ نوجوان نسل کوان کے ماں باپ کے سامنے چیتھڑوں میں تبدیل کردیاگیا،انسانیت کوعبرت کانشان بنادیاگیا،انسان توکیا حیوانات، نباتات اورجنگلات تک کوبھی جنگی جنون کی خاطرجلاکرراکھ کردیاگیا۔
کاش!گیارہ ستمبر2001کووہ81مسافرسفرمعطل یامؤخرکردیتے یابوسٹن کے لوگ انٹرنیشنل ائیرپورٹ کی بجائے کسی دوسرے ہوائی اڈے کاانتخاب کرلیتے یااس کی ائیرپورٹ سے موت کی طرف فلائٹ لینے کی بجائے کسی دوسری پروازکومنتخب کرلیتے تو شاید 8 بجکر 48 منٹ پر81مسافروں سے بھراجہازجو”لاس اینجلز”کی طرف جارہاتھا،ورلڈٹریڈسنٹر سے جاکرنہ ٹکراتااورآج اس فرعون صفت ریاست امریکاکارعب ودبدبہ،وقاراوربین الاقوامی بالادستی بدستورقائم رہتی،اسے مسلسل دودہائیوں تک ذلت و رسوائی کاسامنانہ کرنا پڑتا اور آخرکار افغانستان کی خاک پرناک رگڑتاواپس لوٹنے کافیصلہ نہ کرناپڑتا۔لیکن یہ توہوناہی تھاکیونکہ آسمانی رزق من وسلویٰ کھانے والی قوم کی منصوبہ بندی نے امریکاکوآرام سے کب بیٹھنے دیااور اس بین الاقوامی تذلیل کے فوری بعدیوکرین میں نیامحاذ گرم کردیاجبکہ قصرسفید کے فرعون اوران کے حواریوں کوبخوبی علم ہے کہ بعض ادارے وقتاًفوقتاًامریکاکواپنی جھوٹی شان اوربالادستی کی خاطربیک وقت مختلف ممالک جنگوں میں دھکیل دینے کے بعداپنے مفادات کی تکمیل کیلئے کٹھ پتلی کی طرح اپنے اشاروں پر نچارہے ہیں،اورانہی اداروں کے بدترین فیصلوں کی تعمیل میں ٹرمپ کوفوجی،سیاسی اورمعاشی طور پرکمزورامریکاکومزیدتباہی سے بچانے کیلئے افغانستان سے اپنی افواج کوواپس لوٹنے کاحکم دیناپڑا،اوراس کے ساتھ ہی پاکستان سے اپنے افواج کی سلامتی کیلئے براستہ پاکستان واپسی کیلئے درخواست دینی پڑی ، جس پر عملدرآمدکیے بغیرامریکاکے پاس کوئی دوسراآپشن موجود نہیں تھا۔اس کے نتیجے میں 16دسمبرکوامریکااورافغان طالبان کے مابین براہ راست مذاکرات ہوئے اورپھر افغانستان میں موجودامریکی سفارتخانے کی طرف سے امریکی افواج کی واپسی کا اعلامیہ جاری کر دیا گیا۔ یہ ایک طرف توافغان مجاہدین کی فتح کا اعلان تھاتودوسری طرف امریکاکی خودمختاری پرایسا شرمناک سوالیہ نشان بن گیاجوامریکاکی آئندہ نسلوں کوشرمندہ کرنے کیلئے کافی رہے گا۔
اس تمام صورتحال کاتجزیہ کرنے کیلئے یہ جاننااس لئے ضروری ہے کہ آئندہ ایسی المناک غلطیوں سے جہاں عبرت حاصل کی جائے وہاں ایسے جرمِ عظیم کااعادہ نہ کیاجاسکے۔کن مفادات اورمقاصدکے پیش نظرامریکانے افغانستان میں قدم رکھا؟کیاامریکا افغانستان میں اپنے مفادات کے حصول میں کامیاب ہوا؟افغان طالبان سے براہِ راست مذاکرات کی بھیک مانگنے اوررسوا کن فرارکے مناظرکوآپ کیا نام دیں گے؟یہاں تک کہ اپنے ہی جگری یاروں یعنی بھارت،اسرائیل اورکابل کی کٹھ پتلی حکومت کی حاضری کوبھی ضروری نہ سمجھا اور اگرامریکااپنے مفادات کے حصول میں اب تک ناکام رہاتوکس کے ایماپراپنی قومی غیرت کاجنازہ نکالنے اورسب سے پہلے امریکاکے نعرے کونظراندازکرنے پرمجبورہوا،اورافغانستان سے اس قدرعجلت میں کوچ میں اپنی عافیت کاراستہ کیوں اپنایا؟اس کاایک انتہائی سیدھا اور سادہ جواب ہے کہ امریکی معیشت خودتوبیساکھیوں پرکھڑی ہے اور امریکامزیدجنگوں میں جانی ومالی نقصان کے بوجھ تلے دیوالیہ کی حد تک پہنچ گیاتھا۔امریکی مالیاتی اداروں کے مطابق اس کے پاس جنگوں پرمزیدخرچ کرنے کیلئے اخراجات کافقدان امریکاکوجلدازجلداس مالیاتی طوفان سے بچنے کامطالبہ کررہاتھااور امریکی معیشت کی پشت پرکارفرمایہودی لابی بھی افغانستان میں مزیدسرمایہ اوروقت ضائع نہیں کرناچاہتی تھی کیونکہ دنیاپر خدائی نظام کی مانندایک عالمی نظام نافذکرنے کاخواب دیکھنے والے نظریاتی یہودیوں کوامریکا کے اکتالیسویں صدر سنیئربش (جارج ہربرٹ والکر بش)کا1992میں بنایاگیااٹھارہ سال کے جانی ومالی نقصانات کے باوجودبھی ناکام دکھائی دے رہا تھا، لہندا ٹرمپ جوبالواسطہ اوربلاواسطہ یہودی لابی کیلئے ایک مہرے کے طورپرامریکاکی صدارت پربراجمان تھا،نے صدارت سنبھالتے ہی فوج کوواپس بلانے کاارادہ ظاہرکیاتھا،جس پرعملدرآمدکیلئے افغانستان میں موجودامریکی سفارت خانے کی طرف سے اعلامیہ جاری کروانے کے بعدآئندہ ماہ وسال میں اسے عملی جامہ پہنانے کے امکانات پرواضح یقین دلایاگیا۔
میرے اس مؤقف سے یقینابعض حضرات کواختلاف ہوسکتاہے کہ فلسطین میں غیرقانونی سکونت اختیارکرنیوالے صرف65لاکھ یہودی عالمی طاقت امریکاکوکیسے مجبورکرسکتے ہیں کیونکہ امریکاتوجمہوریت کاعلمبردارہے اورٹرمپ اپنے تمامتراختیارات کواستعمال کرنے کے باوجودبھی جمہوری اقدارکوپامال نہیں کرسکتاتھااوراگروہ چاہے بھی توکابینہ میں ایسے افرادضرورپائے جاتے ہیں جوٹرمپ کے ایسے اقدامات کوہرگزقبول کرنے کی اجازت نہیں دیں گے جس کیلئے وہ امریکی بالادستی اورمفادات پرزد پڑنے کاجوازپیش کریں گے۔ امریکی خودمختاری کس طرح یہودی لابی کے پنجے میں ہے اورکابینہ،سرکاری وغیرسرکاری اداروں میں پھیلے یہودی اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے امریکی فیصلوں پرکیسے اور کس حدتک اثراندازہوتے ہیں،یہ حیرت انگیز انکشافات پرمبنی ایک دلچسپ تاریخ ہے جس کااندازہ آپ تاریخ کے چندواقعات سے بخوبی لگاسکتے ہیں۔
جارج ایچ ڈبلیوبش(1989تا1993)جوامریکاکااکتالیسواں صدرتھا،اس کاخاندانی پیشہ تیل کاکاروبارتھا۔یہ لوگ امریکاکی سب سے بڑی ریاست ٹیکساس کے رہنے والے ہیں جسے امریکی تیل کادارلحکومت بھی کہاجاتاہے،چونکہ اس زمانے میں امریکاتیل کاسب سے بڑادرآمدکنندہ تھااوراس کی اپنی پیداواراستعمال کے بیس فیصدکے برابرتھی،باقی سعودی عرب،میکسیکواوروینزویلاسے درآمد کیا جاتا تھا، اس لئے ریاست ٹیکساس میں تیل کے کاروبارسے وابستگی کے باوجودجارج ڈبلیو بش نے دنیابھرکے تیل پرقبضہ جمانے کیلئے ایک منصوبہ بنایااور1992میں تیل کی تین بڑی کمپنیوں کے سربراہان کوواشنگٹن میں جمع کیا۔خلائی اسٹیشنوں سے لی گئی تصاویراسکرین پرچلائی گئیں اوراپنی چھڑی سے آذر بائیجان،قازقستان،ترکمانستان اورازبکستان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ ان چارملکوں کے نیچے پانچ کھرب ڈالرکاتیل اورگیس پوشیدہ ہے جس پرمیں قبضہ کرناچاہتاہوں، کون میرا پارٹنربنناپسندکرے گا؟ تمام کمپنیوں کے سربراہان نے ہاتھ کھڑے کردیے۔مذاکرات ابھی حتمی شکل اختیارنہیں کرپائے تھے کہ سنیئربش کی حکومت ختم ہوگئی تاہم مذاکرات پھربھی جاری رہے۔اسی دوران اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موسادکوان تمام سرگرمیوں کی اطلاعات موصول ہوئیں اوروہ بھی متحرک ہوگئی۔اب موسادکویہاں دو چیلنجزکاسامناتھا،ایک نئے منتخب ہونے امریکاکے42 ویں صدرکو حصارمیں لینا،کابینہ اوراردگردتمام سرکاری اورحساس اداروں تک رسائی حاصل کرنااوردوسرادنیابھرکے تیل کے ذخائرپرقبضہ کرنا۔آپ یہ جان کرچونک اٹھیں گے کہ تقریباایک سال سے بھی کم عرصے کے دوران یہودیوں نے بل کلنٹن کے گردایک مضبوط حصارقائم کردیامثلا کلنٹن کی وزیرخارجہ میڈلین البرائٹ،نائب وزیرخارجہ سٹینلے ارتھ، وزیر دفاع ولیم کوہن،وزیر خزانہ لارسن سمرز،نائب وزیرخزانہ اسٹورن آنزن ٹیسٹ،اقوام متحدہ میں امریکی سفیررچرڈہال بروک،نیشنل سیکورٹی کا سربراہ سینڈل برگر،چیف آف سوشل سیکورٹی کینتھ ایفل،ٹریڈکانمائندہ چارلس برشینکی،ڈائریکٹرسی آئی اے ڈیوڈکوہل،آئی بی
ڈائریکٹرہال آئزنر،کیمونیکشن ڈائریکٹررابی امونیل راہم،نیشنل ہیلتھ کئیر ایڈوائزر ٹھامس ریپٹن،ڈائریکٹرمینجمنٹ آف بجٹ ایلیس ریولن،اکنامک پالیسی ایڈوائزرصتیلے پوسکن،یہاں تک خودکلنٹن اورہیلری کاذاتی سٹاف تک یہودی تھالہنداصدراورخاتون اول کی ذاتی اور کاروباری مصروفیات کاتماترشیڈول یہی لوگ بناتے تھے۔۔۔ (جاری ہے)


متعلقہ خبریں


مضامین
بلوچستان میں بھارتی دہشت گردی وجود اتوار 29 ستمبر 2024
بلوچستان میں بھارتی دہشت گردی

میں کون ہوں؟ وجود اتوار 29 ستمبر 2024
میں کون ہوں؟

مقبوضہ کشمیر میں انتخابات بھونڈا مذاق وجود هفته 28 ستمبر 2024
مقبوضہ کشمیر میں انتخابات بھونڈا مذاق

اَکھاڑہ وجود هفته 28 ستمبر 2024
اَکھاڑہ

پاک روس شراکت داری وجود هفته 28 ستمبر 2024
پاک روس شراکت داری

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق

امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں وجود پیر 08 جولائی 2024
امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں

رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر