... loading ...
ڈاکٹر سلیم خان
22 جنوری کو ایودھیا میں رام کا افتتاح کرتے ہوئے وزیر اعظم نے حسبِ عادت ایک طول طویل تقریر کی تھی ۔ اس میں انہوں نے دیو سے دیش اور رام سے قومی شعور بیدارکرکے قوم کی تعمیرکرنے کا عزم کیا۔ انہوں نے اپنے خطاب میں ملک کے صدیوں پرانی غلام ذہنیت کی زنجیر توڑ کر باہر آ نے کا اعلان کیا ۔ ان کی یہ بات ایک نئے انداز میں درست ہوگئی یعنی بی جے پی کی ذہنی غلامی سے نکل کر جب ایودھیا کے لوگوں نے اپنی حالتِ زار پر غور کیا تو انہوں نے قومی شعورکی بیداری کا ثبوت دیتے ہوئے مودی جی کے پر فریب خوابوں کو چکنا چور کر دیا۔ بی جے پی کے لیے ایودھیا وقار کا معاملہ تھا ۔ وہاں پر سماج وادی پارٹی کے اودھیش پرساد نے بی جے پی کے موجودہ رکن پارلیمنٹ للو سنگھ کو 54,567 ووٹوں سے ہرادیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بی جے پی جعلی رام بھگتوں میں چھپا بیٹھا راون نکل کر باہر آگیا اور وہ ایکس پر ایودھیا کے باشندوں کومغلظات بکنے لگا۔ اس دوران سونو نگم کا ایک پیغام موضوع بحث بن گیا جس میں لکھا تھا سرکار نے ایودھیا کو چمکا دیا ۔ نیا ہوائی اڈہ اور ریلوے اسٹیشن دیا۔ پانچ سو سالوں کے بعد رام مندر بنوا کر ایک مندر معیشت کھڑی کر دی۔ اس کے باوجود ایودھیا کی نشست پر بی جے پی کی کشمکش شرمناک ہے ایودھیا کے باشندو۔
یہ پیغام بھجن سے نام کمانے والے گلوکار سونو نگم نے نہیں لکھا تھا مگر چونکہ وہ ماضی میں اذان پر اعتراض کرچکے ہیں اور مندر کے افتتاحی تقریب میں شریک بھی ہوئے تھے اس لیے لوگ ان پر برس پڑے ۔ ویسے ایودھیا کے لوگوں نے بی جے پی کو کیوں سبق سکھایا؟ اس سوال کا جواب پیغام کے اندر موجود ہے ۔ سیاحت کے مرکز بنانے کا فائدہ امیر کبیر سرمایہ کاروں اور خوشحال سیاحوں کو تو ملے گا مگر وہ لوگ ایودھیا میں آکر ووٹ تو نہیں دیں گے ۔ اس کے برعکس شہر کو خوبصورت بنانے کے لیے جن لوگوں کے مکانات اور دوکانیں گرائی گئیں ان کو اگر اس کا کوئی فائدہ ہوا ہوتا تو وہ اپنا ووٹ بی جے پی کو دیتے ۔ ان کے ساتھ ایسا نہیں ہوا۔ وہ بیچارے خسارے میں رہے اس لیے بی جے پی کو سبق سکھادیا۔ ایسے میں نام نہاد رام بھگتوں کو قومی سطح پرکمل کے مرجھانے کا نزلہ ایودھیا کے لوگوں پر اتار نے کا کوئی حق نہیں ہے ۔
رام آنندر ساگر کی رامائن میں لکشن کا کردار نبھانے والے سنیل لہری نے انسٹاگرام پرلکھاـ ‘ہم بھول گئے کہ ایودھیا کا رہنے والوں نے بن باس سے لوٹنے کے بعد سیتا پر شک کیا تھا۔ جن لوگوں نے سیتا کو نہیں چھوڑا تو ٹینٹ سے نکال کر رام کو شاندار مندر میں براجمان کرنے والوں کو دھوکہ دینا کون سی بڑی بات ہے ‘۔لعنت ملامت کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے لکھا کہ ‘ ہندو وہ برادری کو اگر خدا نظر آئے تو اسے بھی رد کر دے گی۔ خود غرض… تاریخ گواہ ہے کہ ایودھیا کے لوگوں نے ہمیشہ اپنے حقیقی بادشاہ کو دھوکہ دیا ہے ۔ لعنت ہے ‘۔ایودھیا کے اندر ہنومان گڑھی مندر کے مہنت راجو داس نے مایوسی کے عالم میں طنز کسا ‘اچھا ہوا رامائن میں رام جی راون سے جنگ کرنے کے لیے بندروں اور بھالووں کو ہی لے گئے تھے ۔ اگر ایودھیا والوں کو لے جاتے تو سونے کی لنکا میں سونے کے چکر میں راون سے بھی سمجھوتہ کرلیتے ‘۔ سچ تو یہ ہے سنگھ پریوار کے ساتھ مہنت راجو داس کے سمجھوتے پر یہ ایکس پیغام صادق آتا ہے ۔
اترپردیش میں غازی آباد کے اندر ٹیلہ مسجد میں امسال شبِ برات کوہندو رکشا دل کے انواور دکش چودھری گھس کر گالی گلوچ کرنے لگے اس پر ان کی گرفتاری ہوئی۔ اب وہ ایودھیا کے لوگوں کو گالیاں بکنے کے سبب حراست میں لیے گئے ہیں۔ دکش نے ہندووں کو مخاطب کرکے ویڈیو میں کہا جس کا کھایا اسی کو دھوکہ دیا۔ تمہارے لیے ذات پات مذہب سے زیادہ اہم ہوگیا ۔ تم لوگوں نے لاکھوں کارسیوکوں پر گولیاں چلوانے والوں کو کامیاب کرکے رام کی گھر واپسی کرانے والوں کو ہرا دیا۔ اپنے دھرم یدھ کی شیخی بگھارنے کے بعد وہ کہتا ہے رام پور گاوں میں 532 گھر بنوا کر دینے والی بی جے پی کو ایک ووٹ بھی نہیں ملا۔ مہم کے دوران دکش نے کنہیا کو تھپڑ بھی مارا تھا ۔ انو چودھری اپنی تعریف و توصیف کے ساتھ مودی کی بھی بڑائی کرکے ایودھیا کے لوگوں کو برا بھلا کہتا ہے ۔ اقتدار کو ہاتھوں سے جاتا ہوا دیکھ کر یہ بھگت بھول گئے کہ رامائن کے مطابق خود رام نے اپنی اقتدار سے محرومی کے وقت نہ تو اپنی سوتیلی ماں کو اورنہ ایودھیا کے لوگوں کوموردِ الزام ٹھہرایا تھا ۔ وہ تو راج پاٹ چھوڑ کر بن باس نکل گئے تھے ۔ اس لیے جعلی رام بھگتوں کو رام کا نام بدنام کرکے اپنے جعلی ہونے کا ڈھنڈورا نہیں پیٹنا چاہیے ۔
رام مندر کے افتتاحی جشن یعنی پران پرتشٹھان کی خاطر بی جے پی نے ‘جو رام کو لائے ہیں ، ہم ان کو لائیں گے ‘ والا ترانہ بناکر چلایا۔ یہ عام سمجھ بوجھ کی بات ہے کہ لایا اس کو جاتا ہے جو وہاں موجود نہ ہو اس لیے اگر بی جے پی کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ رام کو لائے ہیں تو اس کا یہی مطلب ہوگا کہ مریادہ پرشوتم وہاں موجود نہیں تھے ۔ یہ بات ایک عام ہندو کے عقیدے سے ٹکراتی تھی۔ ان کا عقیدہ کو ‘کن کن میں رام ‘ یعنی ہر ذرے میں رام کا ہے ۔ عام ہندو نے رام کو لانے کے دعویٰ کو رام اور مذہب کی توہین قرار دیا۔ ان سے جب صحافی سوال کرتے تھے بی جے پی نے رام مندر بنوایا تو کیا وہ اسے ووٹ دیں گے تو جواب ملتا تھا کہ مندر تو عدالت کے فیصلے اور عوام کے چندے سے بنا ہے ۔ اس میں بی جے پی کا کیا ہے ؟ عوام کے اندر بی جے پی کے مخالف ہندو تو مندر کی تعمیر میں سنگھیوں کے بدعنوانیوں کو مثال کے طور پر پیش کرنے لگتے اور عام لوگوں کی بربادی کا رونا لگتے جن کے گھر یا دوکان تباہ ہوگئے ۔ چھوٹے مندروں کے پجاری بھی ان کے یہاں زائرین کے نہ آنے سے ناراض ہوگئے تھے ۔
بی جے پی کو رام مندر کی تعمیر اوراس کے افتتاح اور تشہیر کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ کیونکہ وہ مندر کے آس پاس کی تمام لوک سبھا سیٹیں ہار گئی۔ ایودھیا ڈویژن میں اسے ایک بھی کامیابی نہیں ملی یعنی سپڑا صاف ہوگیا۔ 2019 کے انتخابات میں بی جے پی نے وسطی یوپی کے اندر 24 میں سے 22 سیٹیں جیتی تھیں۔ لیکن، اس بار اسے 13 سیٹوں کا نقصان ہوگیا ۔ اس کے برعکس کانگریس کو 3 اور ایس پی کو 11 سیٹوں کا فائدہ ہوا۔ دلت پجاری کے تقرر سے سیاسی فائدہ اٹھانے والی بی جے پی کے رکن پارلیمان للو سنگھ کو ایس پی کے دلت امیدوار اودھیش پرساد نے 50 ہزار سے زیادہ ووٹوں سے شکست دے دی۔ اس ڈویژن کی سب سے مقبول سیٹ امیٹھی میں راہل گاندھی سیکریٹری کے ایل شرما نے بی جے پی کی طاقتور مرکزی وزیر اسمرتی ایرانی کو دھول چٹا دی ۔ بارہ بنکی میں کانگریس کے تنوج پونیا نے بی جے پی امیدوار راجرانی راوت کو دو لاکھ سے زیادہ ووٹوں سے شکست دے کر ثابت کر دیا کہ مندر کے نام لوگوں کو بیوقوف بنانا اب ناممکن ہے ۔
ایودھیا ڈویژن کے امبیڈکر نگر میں سنگھ کو کوئی امیدوار نہیں ملا تو بی ایس پی کے سابق ایم پی رتیش کو درآمد کیا گیا مگران کو ایس پی کے لال سنگھ ورما نے چاروں خانے چت کردیا۔ آٹھ بار ایم پی رہنے والی مینکا گاندھی ایودھیا ڈویژن کی سلطان پور سیٹ سے ہار گئیں جبکہ رائے بریلی میں ان کے بھتیجے راہل گاندھی نے مودی سے ڈھائی گنا فرق کے ساتھ جیت درج کرائی۔ کھیری میں امیت شاہ کا بایاں ہاتھ اور مرکزی وزیر اجے مشرا ٹینی کو کسانوں پر گاڑی چڑھانے والے بیٹے کی حمایت کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔ بی جے پی کے شرم کا مقام یہ ہے کہ جو کام وہ رام کے نام پر نہیں کرسکے وہ قیصر گنج میں پہلوان سے متعلق الزامات میں ملوث برج بھوشن سنگھ نے دبنگائی سے کرکے اپنے بیٹے کرن بھوشن سنگھ کو کامیاب کردیا۔ اس خطے میں مذہبی پولرائزیشن کے مقابلے ذات پات کا پولرائزیشن زیادہ موثر ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ایس پی نے بی جے پی سے اٹاوہ کی ریزرو سیٹ بھی چھین لی۔
قنوج میں اکھلیش یادو کی زبردست جیت نے ظاہر کیا کہ ان کی کامیابی کے پیچھے صرف ذات پات کا جوڑ توڑ نہیں بلکہ زمینی فلاح وبہبود کے کاموں نے اہم کردار ادا کیا ہے ۔ ان کے پارلیمانی انتخاب لڑنے سے کارکنان کو بہت حوصلہ ملا ۔ اس طرح سنٹرل ریجن کی 24 سیٹوں میں سے 2019 کے اندر 22 نشستیں جیتنے والی بی جے پی 09 پر سمٹ گئی۔ ایس پی جوصفر پر تھی وہ 11 پر پہنچ گئی اور کانگریس نے بھی 04 نشستیں جیت لیں البتہ بی ایس پی 01 سے 00 پر آگئی ۔ یہ مسلمانوں کی اس ذہانت آمیز ووٹنگ کا نتیجہ ہے جس سے ڈر کر مودی جی اسے ووٹ جہاد کہتے ہیں ۔ بی جے پی کی اس ناکامی نے یہ ثابت کردیا کہ ہندو سماج میں آج بھی عقیدے پر ذات پات کی عصبیت کو فوقیت حاصل ہے ۔ اس نتیجے نے اس وزیر اعلیٰ کو آئینہ دکھا دیا ہے جس نے اروند کیجریوال سے کہا تھا ‘میں ایک یوگی ہوں، میری طاقت اقتدار نہیں پارٹی کے ا قدار اور اصول ہے ۔ ان کا اس ناکامی کی اخلاقی ذمہ داری قبول کرکے استعفیٰ دینے سے گریز کرنا ثابت کرتا ہے کہ وہ یوگی نہیں بلکہ اقتدار کے بھوکے بھوگی ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔