... loading ...
ڈاکٹر سلیم خان
دس سال قبل جب وزیر اعظم نریندر مودی نے حلف لیا تو ان پر غیر ملکی دوروں کا جنون سوار ہوگیا ۔ وہ یکے بعد دیگرے سرکاری خرچ پر مختلف ممالک کی سیر و تفریح کے لیے نکل جاتے تھے ۔ اس پر تنقید کا سلسلہ شروع ہوا اور لوگ سوال کرنے لگے تو بھگتوں نے کہا ابھی تو ان کا ‘ہنی مون ‘ بھی ختم نہیں ہوا اس لیے کچھ توقف کیا جائے ۔ عام لوگوں نے بھی کہا ‘پہلا پہلا پیار ہے ، پہلی پہلی بار ہے ‘ حالانکہ وہ دوسرا ہنی مون تھا ۔ جسودھا بین کے ساتھ اپنی پہلی شادی کا تو ذکر کرنا بھی وہ گوارہ نہیں کرتے ۔ پانچ سال قبل انہوں پھر سے سات پھیرے کرلیے اور اب چوتھے کی تیاری میں ہیں مگر اس سے پہلے ہی راہل گاندھی نے وزیر اعظم پر تیس لاکھ کروڈ کی بدعنوانی کا الزام لگا کر مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے ذریعہ تفتیش کا مطالبہ کردیا ۔ انہیں اس پر بھی رحم نہیں آیا کہ دس سال قبل جو شخص چھپنّ انچ کی چھاتی لے کر پھیرے کرنے کے لیے آیا تھااس بار وہ بیساکھیوں کی مدد سے لنگڑتے ہوئے آرہا ہے ۔ ایسے معذور دولہے پر وواہ (نکاح) سے قبل تو کوئی سنگدل انسان ہی الزام لگا سکتا ہے خیر یہ معاملہ شیئر بازار میں کی جانے والی بدعنوانی سے متعلق ہے اور حلف برداری سے بھی پہلے اس پر آسمان سر پر اٹھایا جاچکا ہے ۔
یکم جون کو شام میں آخری ووٹ گرا اور چار جون کی نتائج آنے والے تھے لیکن اس انتخابی اچھل کود کی آڑ میں ایک بہت بڑا معاشی کھیلا ہوگیا جس پر لوگوں نے بہت کم توجہ دی ۔ ہوا یہ کہ ایکزٹ پول کے بعد اچھلنے والا حصص بازار انتخابی رجحانات کے آتے ہی دبکنے لگا اور اس سے شک کی سوئی سرکار کی طرف مڑ گئی ۔ ابتداء میں ہی جبکہ فتح و شکست کا اعلان بھی نہیں ہوا تھا بلکہ صرف کانٹے کی ٹکر نظر آرہی تھی شیئر بازار کا سانڈ اچانک بھالو کی کھال اوڑھ کر مندی کی جانب رواں دواں ہوگیا ۔ 4جون صبح کا آغاز ہی 200 پوائنٹس کی گراوٹ سے ہوا اور دیکھتے دیکھتے 6200 پوائنٹس گر گیا لیکن پھر سنبھل کر 4,390 کے گھاٹے پر بند ہوایعنی جو ایک دن پہلے کمایا تھا وہ اگلے دن ڈوب گیا ۔ نفٹی میں تو600 پوئنٹس کی بڑی گراوٹ شروع ہوا تھا اور بالآخر 1,379پوئنٹس نیچے آگیا ۔ سینسیکس کے 30 میں سے 28 شیئرس تو ابتداء میں ہی لڑھکنے لگے تھے ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بی جے پی اور شیئر بازار کا’ یہ رشتہ کیا کہلاتا ہے ‘۔
ایگزٹ پول کے بعد جن لوگوں نے مونگیری لال کے حسین سپنے دیکھ کر ایک دن میں 14 لاکھ کروڈ روپئے حصص بازار میں پھینک دئیے تھے اب ان کا کیا ہوگا؟ ایک معاشی روزنامہ کوانٹرویو دیتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا تھا کہ 4 جون 2024 کو اسٹاک مارکیٹ ریکارڈ بلندیوں کو چھولے گا۔ انہوں نے اس متوقع عروج کے لیے حکومت کے ذریعہ حصص بازار کی خاطر موافق اصلاحات کو نافذ کرنابتایا تھا۔ مودی نے دعویٰ کیا تھا کہ ایک مضبوط اور شفاف مالیاتی نظام بنایا گیا ہے ۔ اس نے ہر ہندوستانی کے لیے اسٹاک مارکیٹ میں حصہ لینا آسان بنا دیا ہے ۔ انہوں نے یقین دلایا تھا کہ 4 جون کو بی جے پی لوک سبھا کی ریکارڈ تعداد میں سیٹیں حاصل کرے گی اور اسٹاک مارکیٹ بھی نئی بلندیوں کو چھو لے گی۔ یہ دونوں باتیں غلط ثابت ہوگئیں اور وزیر اعظم کے جھانسے میں آنے والے لوگوں کے لاکھوں کروڈ روپئے ڈوب گئے ۔ سوال یہ ہے کہ اس لوٹ مار کے لیے کون ذمہ دار ہے ؟ مودی جی اگر کسی طرح جوڑ توڑ کرکے وزیر اعظم بن بھی گئے تو کیا ان کے زخموں پر مرہم رکھیں گے ؟ نہیں ایسا ہر گز نہیں ہوگا کیونکہ اپنے جن دوستوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے انہوں نے اپنے وفادار گودی میڈیا سے ایکزٹ پول کروایا تھا ان کا تو بھلا ہوچکا۔ مودی اب وزیر اعظم بنیں یا نہ بنیں اپنے کرم فرماوں کے ساتھ عیش کریں گے ۔
بڑے میاں تو بڑے میاں چھوٹے میاں سبحان اللہ کی مصداق مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے تو ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو میں عوام کو ترغیب دلاتے ہوئے کہا تھا کہ سرمایہ کاروں کو 4 جون سے پہلے حصص خرید لینا چاہیے ۔ ان کے مطابق بازاروں میں تیزی آنے والی تھی جو نہیں آئی بلکہ تباہی آگئی ۔ وزیر اعظم اور مرکزی وزیر داخلہ 4 جون کو مارکیٹ میں اضافے کی توقع کر رہے تھے لوگوں کو سرمایہ کاری کرکے اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے ابھار رہے تھے لیکن عوام کے ساتھ دھوکہ ہوگیا۔ ملک کروڈوں بھولے بھالے لوگوں کی طرح جنہوں نے اس گجراتی جوڑی کے جھانسے میں آکر بی جے پی کو ووٹ دیا پڑھے لکھے سرمایہ دار بھی فریب کھا گئے ۔ وہ بھول گئے کہ کل ان کی جیب کٹنے کے بعد شاہ جی کو ان کا یہ بیانات یاد دلائے جائیں گے تووہ ہنس کر اسے ‘ ایک انتخابی جملہ’ کہہ کر ٹال دیں گے لیکن اس وقت تک کئی لوگوں کا دیوالیہ پٹ چکا ہوگا۔ ہندوستانی رائے دہندگان کو بار بار دھوکہ دینے والے امیت شاہ پر حفیظ میرٹھی کا یہ شعر معمولی ترمیم کے ساتھ صادق آتا ہے
شاہ صاحب تمہاری بھی اچھی کٹی
خوب وعدے کیے خوب دھوکے دئیے
آگے بڑھنے سے پہلے عوام کو بیوقوف بنانے کی خاطر ایکزٹ پول کے نام پر جو سازش رچی گئی اس پر ایک نگاہ ڈال لینا دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا۔ ہندوستان کی الیکٹرونک میڈیا میں سب سے پہلے نیوز ٹریک کے نام سے انڈیا ٹوڈے نے قدم رکھا تھا۔ ایک زمانے میں وہ ملک کا سب سے معتبر میڈیا ہاوس تھا ۔ اس نے ـایکسس مائی انڈیا کی مدد سے ایکزٹ پول کرواکر شائع کیا۔ اس کے مطابق این ڈی اے کو لوک سبھا انتخابات میں 361-401 سیٹیں جیتنے کی پیش قیاسی کی گئی تھی یعنی اس نے چار سو پار کروا ہی دیا تھا۔ انڈیا ٹوڈے نے انڈیا محاذ کو 131-166 سیٹیں ملنے کی امید جتائی تھی۔ اس سروے میں دیگر جماعتوں کو 8 سے 20 سیٹیں دی گئی تھیں۔ ارنب کا ریپبلک اس بار قدرے محتاط تھا ۔ اس نے پی مارق کے اشتراک سے ایکزٹ پول کرکے 543 میں سے 359 سیٹیں این ڈی اے کو، 154 انڈیا محاذ کو دینے کی جرأت کی جبکہ 30 نشستیں دیگر کو بخش دی گئیں۔ ریپبلک نے میٹرائز پول کے ساتھ بھی ایک جائزہ لیا اس میں این ڈی اے کو 353-368 سیٹیں، انڈیا بلاک کو 118-113 اور دیگر کو 43-48 سیٹیں دی گئیں۔ دی نیوز ایکس ڈائنامکس نے این ڈی اے کو 371، انڈیا بلاک کو 125 اور دیگر کو 47 سیٹیں حاصل ہونے کا امکان جتایا۔ یعنی کوئی بھی این ڈی اے کو350سے کم اور انڈیا کو 175 کے اوپر نہیں لے جاسکا جبکہ یہ دونوں اعداد غلط نکل گئے ۔
ایگزٹ پولس نے جب یہ سبز باغ دکھائے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی قیادت والی این ڈی اے لوک سبھا انتخابات میں 543 میں سے 350 سیٹیں جیت سکتی ہے تو اس کے بعد سینسیکس اور نفٹی اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ۔ سینسیکس 2,778 پوائنٹس یعنی تقریبا 4 فیصد بڑھ کر 76,738.89 کے اپنے تمام وقت کی بلند ترین سطح پر چلا گیا اور جب گرا تو دوگنی گراوٹ آئی ۔ نفٹی 808 پوائنٹس، تقریباً 4 فیصد بڑھ کر 23,338.70 کی تازہ ترین بلند ترین سطح پر پہنچ گیا اور وہ بھی گنتی کے دن آٹھ فیصد سے زیادہ نیچے گرا۔سماج وادی پارٹی کے قومی صدر اکھلیش یادو نے اسی وقت مختلف ٹی وی چینلز پر دکھائے جانے والے ایکزٹ پولس کو مکمل طور پر مسترد کر تے ہوئے سوشل میڈیا پر لکھا تھا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے یہ تمام ایکزٹ پول اپنے حق میں کرائے ہیں۔ دو دن بعد اسٹاک مارکیٹ کے کھلنے پر بی جے پی رہنما چپکے سے اس کا فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے عوام کی سمجھداری کو سراہنے کے بعد کہا تھا کہ ملک بھر میں انڈیا اتحاد کی لہر جاری ہے ، کارکنان صبر و تحمل سے کام لیں اور اپنی جیت کا انتظار کریں۔ اکھلیش یادو نے ایکزٹ پولز کے پیچھے کی بڑی سازش سے ملک کی عوام کو خبردار کردیا تھا مگر راتوں رات امیر بن جانے کی ہوس سرمایہ کاروں کو لے ڈوبی ۔ ان خواص نے شیئر بازار کے چکر میں پڑ کر اپنا نوٹ گنوایا جبکہ عام آدمی ان کے جھانسے میں آکر اپنا ووٹ گنواتا ہے اور بھی اسی طرح خسارے میں چلا جاتا ہے ۔
سیاستدانوں اور سرمایہ داروں پر آنکھیں موند کر جب تک عوام و خواص اعتماد کرتے رہیں انہیں استحصال سے کوئی نہیں بچا سکتا ۔ وہ لوگ دوہری مار کا شکار رہیں۔ کبھی تو مال گنوائیں اور کبھی عزتِ نفس یا جان بھی گنوا دیں گے ۔ راہل گاندھی کے سوالات بالکل جائز ہیِں۔ انہوں نے پوچھا، “وزیراعظم نے عوام کو سرمایہ کاری کرنے کا مشورہ کیوں دیا؟ امت شاہ نے لوگوں سے شیئر خریدنے کے لیے کیوں کہا؟ اگر بی جے پی اور ان غیر ملکی سرمایہ کاروں کے درمیان کوئی تعلق ہے ، تو کیا ہے ہم جے پی سی جانچ کا مطالبہ کرتے ہیں۔ انہوں نے نریندر مودی اور امیت شاہ کے کردار کی تحقیقات کا مطالبہ بھی کیا۔ راہل گاندھی نے الزام لگایا کہ بی جے پی کے جن رہنماوں نے خوردہ سرمایہ کاروں کو اسٹاک خریدنے کی ترغیب دی انہیں اطلاع تھی کہ ایگزٹ پول غلط ہیں اور بی جے پی کو اکثریت نہیں ملے گی، راہل گاندھی نے کہا کہ 30 لاکھ کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے اور اقتدار میں رہنے والوں کو فائدہ ہوا ہے ، اس لیے ہم جے پی سی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہیں۔