... loading ...
علی عمران جونیئر
دوستو،بچپن میں جب کہ بلیک اینڈ ٹی وی کا دور تھا، ٹی وی نیا نیا آیا تھا، ہمیں یاد ہے ابا حضور گھر میں جو پہلا ٹی وی لائے وہ بلیک اینڈ وائٹ تھا اور اسے حرف عام میں رشین ٹی وی یا وال والا ٹی وی کہتے تھے، اگر آپ کو آٹھ بجے والا ڈرامہ دیکھنا ہے، (پہلے پی ٹی وی پر اسی ٹائم پر ڈرامے آتے تھے) تو ڈرامہ دیکھنے کے لئے آپ کو ساڑھے سات بجے ٹی وی کھولنا لازمی ہے، کیوں کہ وہ اسٹارٹ ہونے میںٹائم لیتا تھا۔ پھر کچھ اور ترقی ہوئی تو الماری والے ٹی وی آنا شروع ہوئے، یعنی ٹی وی کے لکڑی کے دروازے ہوتے تھے جس پر اکثر لوگ تالا لگا کررکھتے تھے۔ پی ٹی وی پانچ بجے شروع ہوکر گیارہ یا بارہ بجے رات بند ہوجاتا تھا۔۔ان دنوں ٹی وی پر ایک اشتہار آتا تھا ، ثنا اللہ کی ساڑھی۔۔شاید کراچی کی مشہور جامع کلاتھ مارکیٹ میں اب ان کی دکان ہے۔۔ پی ٹی وی کے شہرت یافتہ پروگرام ففٹی ففٹی میں اس اشتہار کی پیروڈی بنائی گئی تھی۔۔ دلہن پکڑی گئی بے چاری، پہنے تھی ثنااللہ کی ساڑھی۔۔
کچھ روز پہلے نیٹ فلکس پر بھارتی فلم ’’لاپتہ لیڈیز‘‘ دیکھی، جس میں دکھایاجاتا ہے کہ ٹرین میں دلہنیں بدل جاتی ہیں۔۔اس کے بعد پوری فلم میں دونوں دلہنوں کی الگ الگ ٹریک پر چلنے والی اسٹوری دکھائی گئی۔دوسری طرف انڈونیشیا میں نوبیاہتا دلہے کو شادی کے 12 دن بعد پتا چلا کہ اس کی بیوی درحقیقت ایک مرد ہے۔واقعہ کچھ یوں ہے کہ 26 سالہ لڑکے کی اڈیندا نامی لڑکی سے بات چیت انسٹاگرام پر شروع ہوئی اور دونوں باہر بھی ملنے لگے اور پھر رشتہ ازدواج میں بندھ گئے۔شادی کے 12 دن بعد دلہا نے تھانے میں رپورٹ درج کرائی کہ میرے ساتھ دھوکا ہوا ہے۔ میری دلہن ایک مرد نکلی۔بیان میں مزید بتایا کہ شادی سے قبل ملنے کے لیے وہ ہمیشہ نقاب لگا کر آتی تھی اور شادی کے روز اس کی فیملی میں سے کوئی بھی شریک نہیں تھا۔دلہا کے بقول اس پر دلہن نے یہ بہانہ بنایا تھا کہ والدین کا انتقال ہوچکا اور قریبی رشتہ داروں نے غریب اور یتیم ہونے کی وجہ سے چھوڑ دیا ہے۔تاہم جب شادی کے ایک ہفتے بعد تک بھی وہ میرے قریب نہ آئی تو مجھے شک ہوا اور میں نے کھوج لگانا شروع کی۔ جس سے حقیقت سامنے آگئی۔دلہا نے پولیس کو مزید بتایا کہ اڈیندا کے والدین زندہ ہیں اور وہ اپنی اولاد کے 12 دن سے غائب ہونے پر پریشان بھی تھے۔26 سالہ نوجوان کو اہل خانہ نے یہ بھی بتایا کہ اڈیندا کوئی لڑکی نہیں بلکہ ایک لڑکا ہے۔پولیس نے لڑکی بن کر شادی کرنے والے اڈیندا کو حراست میں لے لیا جس نے اعترافی بیان میں بتایا کہ اس نے جائیداد ہتھیانے کے لیے لڑکی بن کر شادی کی۔
بات دلہنوں کی ہورہی ہے۔زندگی میں شوہر کے آنے سے خواتین کے گھریلو کام کاج میں کتنا اضافہ ہوتا ہے؟ سائنسدانوں نے نئی تحقیق میں اس حوالے سے ایسا انکشاف کر دیا ہے کہ خواتین سن کر شادی سے ہی انکار کر دیں۔ یونیورسٹی آف مشی گن کے ماہرین کی ٹیم نے تحقیقاتی نتائج میں بتایا ہے کہ زندگی میں شوہر کے آنے سے کسی بھی خاتون کے گھریلو کام کاج میں اوسطاً 4گھنٹے فی ہفتہ کام کا اضافہ ہوتا ہے۔تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ اور ماہر معاشیات فرینک اسٹافرڈ کا کہنا تھا کہ ’’جدید دنیا میں میاں بیوی کے برابر گھریلو کام کاج کرنے کا تصور پایا جاتا ہے مگر حقیقت میں اب بھی گھر میں خواتین ہی کو زیادہ کام کرنا پڑتا ہے۔ امریکی خواتین 20ویں صدی کے وسط میں ایک ہفتے میں 26گھنٹے کام کرتی تھیں۔ اب ان کے کام کی شرح میں کمی واقع ہو چکی ہے اور وہ ہفتے میں اوسطاً 17گھنٹے کام کرتی ہیں۔فرینک اسٹافرڈ کا کہنا تھا کہ اس عرصے میں مردوں کے کام میں لگ بھگ د گنا اضافہ ہوا ہے۔ 20ویں صدی کے وسط میں مرد ہفتے میں اوسطاً 6گھنٹے کام کرتے تھے اور آج 13گھنٹے کر رہے ہیں۔خواتین کے گھریلو کام کاج پر شادی کے اثرات کے حوالے سے فرینک اسٹافرڈ اور ان کی ٹیم نے بتایا کہ 1976میں شادی کرنے کے بعد خواتین کو ہفتے میں اوسطاً9گھنٹے اضافی کام کرنا پڑتا تھا۔اس میں بھی بتدریج کمی ہوئی ہے اور 2005کے بعد سے شادی کے بعد خواتین کو 4گھنٹے اضافی کام کرنا پڑ رہا ہے۔ اسی طرح اس عرصے میں بھی شادی کے بعد مردوں کے کام میں اضافہ ہوا ہے اور 2005کے بعد سے شادی کے بعد وہ ہفتہ وار 5گھنٹے اضافی کام کر رہے ہیں۔
باباجی فرمارہے تھے کہ۔۔آج باتوں ہی باتوں میں بیگم کو اپنے ایک دوست کی دوسری شادی کے بارے بتایا اور ابھی چند تعریفی کلمات ہی کہے تھے تو آگے سے جواب آیا کہ دنیا کے ہر مرد کی بھی دو شادیاں ہو جائیں تب بھی ایک شادی والے آپ اکلوتے ہی ہوں گے ۔۔۔شادی کی پہلی ہی صبح گھر میں کہرام مچا ہوا تھا۔ دلہے نے کام والی کو تھپڑ رسید کر دیا تھا۔۔۔ماں یہ سارا منظر دیکھ رہی تھی، گرجدار آواز میں بیٹے پر برستے ہوئے کہا۔۔حد ہوتی ہے جہالت کی۔۔بیٹے نے ماں کو غصے میں دیکھا تو گھگیاتے ہوئے بولا۔۔لیکن امی یہ کام والی رنگے ہاتھوں پکڑی گئی ہے، دیکھیں تو اس کے بازو میں میری دلہن کی منہ دکھائی کا کنگن ہے۔۔وہ بیچاری ہکا بکا ایک کونے میں کھڑی دلہے کو دیکھ رہی تھی۔امی نے اس کو پکڑ کے سیج والے بیڈ پہ بٹھایا اور دلہے کو غضبناک آنکھوں سے اپنے ساتھ باہر آنے کا اشارہ کیا اور کہا۔۔کمبخت! یہ کام والی نہیں، دلہن ہے تیری۔ ابھی منہ دھو کر آئی ہے۔۔باباجی کا فرمان عالی شان ہے کہ ۔۔جب رشتے کے لئے کسی کے گھر جاتے ہیں تو لڑکی والے بڑی معصومیت سے بتاتے ہیں کہ۔۔ ہماری لڑکی گائے ہے گائے۔۔تو سمجھ لیجئے کہ یہ گائے ہمیشہ سینگوں والی ہی ہوتی ہے۔
اوراب چلتے چلتے آخری بات۔۔ہمیشہ ایک ہاتھ میں مکھن اور دوسرے ہاتھ میں چونا رکھیں، موقع کی مناسبت سے لگاتے جائیں، کامیابی قدم چومے گی۔۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔