... loading ...
علی عمران جونیئر
دوستو،ہمارے پیارے دوست نے حالات حاضرہ کے حوالے سے دلچسپ تبصرہ بھیجا ہے۔۔ وہ لکھتے ہیں کہ۔۔بڑا بھائی 4 دہائیوں سے پارٹی کا مالک و مختار تھا، پھر بڑے بھائی نے مجبورا چھوٹے بھائی کو پارٹی کی صدارت دی اور چھوٹے بھائی نے دوبارہ بڑے بھائی کو پارٹی صدارت کی وراثت واپس کر دی۔ بڑے بھائی نے چھوٹے بھائی کو 3 بار وزیر اعلیٰ بنایا، پھر بڑے بھائی نے چھوٹے بھائی کو جنرل باجوہ کے مشکوک کردار سے لائی گئی حکومت میں وزیراعظم بنایا اور پھر وزیر اعظم چھوٹے بھائی نے اپنے بیٹے کو وزیراعلی بنایا، بڑے بھائی کے سمدھی کو وزیر خزانہ بنایا، پھر چھوٹے بھائی کو مشکوک ترین انتخابات کے بعد وزیراعظم بنایا تو چھوٹے بھائی نے بڑے بھائی کی بیٹی کو وزیراعلی اور بڑے بھائی کے سمدھی کو وزیر خزانہ بنایا اور پھر نائب وزیراعظم بنا دیا،اٹھائیس مئی کو چھوٹے بھائی نے بڑے بھائی کو واپس پارٹی صدر بنا دیا۔
یہ ہے اس ملک کے جمہوری ترقی کے سفر کا گوشوارہ ،جہاں صرف چند خاندان 25 کروڑ لوگوں کو مویشیوں کی طرح ہانکتے ہیں اور یہ بھیڑ بکریاں چراگاہ میں چارہ کھاتی رہتی ہیں۔۔اگر آپ ستر کی دہائی میں پیدا ہوئے ہیں تو پھر آپ نے ریڈیوپر ہاکی کی کمنٹری بھی لازمی سنی ہوگی۔ کامیڈین عمرشریف سناتے ہیں کہ ۔۔ گیند کلیم اللہ کے پاس ، کلیم اللہ نے سمیع اللہ کو پاس دیا، سمیع اللہ گیند لے کر آگے بڑھے انہوں نے کلیم اللہ کو پاس دیا۔ گیند سمیع اللہ سے کلیم اللہ۔۔ کلیم اللہ سے سمیع اللہ۔۔ سمیع اللہ سے کلیم اللہ۔۔ کلیم اللہ سے سمیع۔۔ دونوں بھائی کھیل رہے ہیں اور پوری ٹیم تماشہ دیکھ رہی ہے۔۔یہی حال ہماری سیاسی جماعتوں کا ہے جہاں گیند سمیع اللہ سے کلیم اللہ کے پاس جاتی ہے، درمیان میں کسی سلیم شیروانی، منورالزمان، حسن سردار، حنیف خان وغیرہ کی کوئی گنجائش نہیں۔۔نون لیگ کا حال تو آپ کو بتادیا۔۔ چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی کے تین بیٹے ایم این اے اور ایک ایم پی اے ہے۔۔ کیا ملتان میں پیپلزپارٹی کو کسی اور پر اعتماد نہیں رہا۔۔
کراچی سمیت ملک بھر میں لوڈشیڈنگ انتہائی عقیدت اور احترام سے منائی جا رہی ہے۔ایک دن باباجی نے ہمیں لوڈشیڈنگ کے فوائد گنوائے۔تپتی دوپہر میں باباجی کی بیٹھک میں بیٹھے ہوئے تھے، ٹھنڈا ٹھارشربت اور لسی کے جگ سامنے ٹیبل پر دھرے ہوئے تھے، باباجی کے سامنے ہمارے پیارے دوست اور ہم براجمان تھے۔ بجلی حسب عادت غائب تھی، یو پی ایس کی بدولت بیٹھک کا پنکھا اس طرح چل رہا تھا گویا غنودگی کا عالم ہو۔ہمارے پیارے دوست نے بجلی کے محکمے کو بیوہ عورتوں کی طرح کوسنے دینے شروع کئے تو باباجی نے مسکرا کر ہاتھ کے اشارے سے روکا، فرمانے لگے۔ ۔ کبھی ناشکری نہ کرو، سوچو کیا قبر میں پنکھا یا اے سی ہوگا؟ وہاں گرمی کا کیا عالم ہوگا،صرف اتنا ہی سوچ لوگے تو تم لوگوں کو کبھی گرمی محسوس نہیں ہوگی۔پھر باباجی نے ہمیں لوڈ شیڈنگ کے فوائدگنوانا شروع کئے۔ کہنے لگے۔۔لوڈشیڈنگ سے خاندانی نظام مضبوط ہوتا، جوائنٹ فیملی سسٹم کے لئے لوڈشیڈنگ اکسیر ہے، پوری فیملی روشنی اور ٹھنڈی ہوا کے لئے ایک جگہ جمع ہوتی ہے۔۔ لوڈشیڈنگ سے دوستو،یارو،پڑوسیوں کو مل بیٹھنے اور ایک دوسرے کے دکھ درد جاننے کا طویل موقع میسر آتا ہے۔لوڈشیڈنگ کی وجہ سے بجلی کا بل بھی کم آتا ہے کیوں کہ پنکھے، اے سی، فریج، استری، جوسر بلینڈر، موٹر یں وغیرہ نہیں چلتیں اور ساتھ ہی ساتھ لوڈشیڈنگ کی بدولت ٹی وی اور میڈیا کی تباہ کاریوں سے بھی لوگ بڑی حد تک محفوظ رہتے ہیں۔لوڈشیڈنگ کی وجہ سے پیدا ہونے والے سناٹے اور خاموشی کی وجہ سے کانوں اور دماغ کو آرام پہنچتا ہے۔۔لوڈشیڈنگ کی وجہ سے جب جسم سے خوب پسینہ نکلتا ہے تو یہ کولسٹرول اور جسم کی فالتو چربی ختم کرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔جب بجلی جاتی ہے تو، انا للہ وانا الیہ راجعون اور استغفر اللہ پڑھنے، اور جب آتی ہے تو الحمد للہ پڑھنے کا موقع ملتا ہے۔خود سوچو، ان کلمات کو ادا کرنے کی کتنی فضیلت ہے اور آخرت میں کتنے کام آئیں گے یہ کلمات، جب لوگ ایک ایک نیکی کیلئے ترس رہے ہوں گے۔۔لوڈشیڈنگ کی وجہ سے اللہ کی نعمتوں کی قدر ہوتی ہے،اللہ سبحانہ تعالیٰ پر ایمان مزید پختہ ہوتا ہے۔لوڈشیڈنگ کی وجہ سے ایمرجنسی لائیٹ، UPS اور جنریٹرز کے شعبوں سے منسلک ہزاروں، لاکھوں افراد کو روزگار میسر آتا ہے۔باباجی کی ایمان افروز باتیں سن کر ہمارے اندر کا مسلمان انگڑائی لے کر جاگ گیا، لیکن ہمارے پیارے دوست نے اچانک سوال کردیا، باباجی جب بجلی اچانک چلی جاتی ہے، (یعنی غیراعلانیہ لوڈشیڈنگ کی جاتی ہے )تو ہزاروں ، لاکھوں لوگ جب بجلی والوں کو ماں بہن کی گالیاں دیتے ہیں، اس کا عذاب کس کے سر جاتا ہے۔ باباجی نے ہمارے پیارے دوست کو بغور دیکھا پھر مسکرا کر کہنے لگے۔۔میاں، ہر شخص اپنے اعمال کا خود جواب دہ ہے۔جو گالیاں دیتا ہے،وہ قبر میں بھگتے گا جب خچر کے سائز کے بچھواسے ڈسیں گے۔۔
آج جمعہ مبارک ہے، اس حوالے سے کچھ اچھی باتیں بھی ہوجائیں۔۔ آپ نے کبھی سوچا ہے کہ ہم کیوں قبر کی نعمتوں کے بارے میں بات نہیں کرتے، ہم یہ کیوں نہیں کہتے کہ وہ سب سے بہترین دن ہوگا جب ہم اپنے رب سے ملیں گے۔ ہمیں یہ کیوں نہیں بتایا جاتا کہ جب ہم اس دنیا سے کوچ کریں گے تو ہم ارحم الراحمین کی لامحدود اوربے مثال رحمت اور محبت کے سائے میں ہوں گے، وہ رحمان جو ماں سے بھی زیادہ مہربان ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جانور کو دیکھا جو اپنا پاؤں اپنے بچے پر رکھنے سے بچا رہی تھی، تو آپ صلی اللہ علیم وسلم نے صحابہ سے فرمایا،بے شک ہمارا رب ہم پر اس ماں سے کہیں زیادہ مہربان ہے۔۔کیوں ہمیشہ، صرف عذاب قبر کی باتیں ہو رہی ہیں، کیوں ہمیں موت سے ڈرایا جا رہا ہے، یہاں تک کہ ہمیں، معاذ اللہ، پختہ یقین ہو گیا کہ ہمارا رب ہمیں مرتے ہی ایسا عذاب دے گا جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ہم کیوں اس بات پر مصر ہیں کہ ہمارا رب ہمیں صرف عذاب ہی دے گا، ہم یہ کیوں نہیں سوچتے کہ ہمارا رب ہم پر رحم کرے گا۔ہم لوگوں کو یہ کیوں نہیں بتاتے کہ موت زندگی کا دوام ہے اور یہ حقیقی زندگی اورہمیشہ کی نعمتوں کا دروازہ ہے۔ہم یہ حقیقت کیوں چھپاتے ہیں کہ روح جسم میں قیدی ہے اور وہ موت کے ذریعے اس جیل سے آزاد ہو جاتی ہے،اور عالم برزخ کی خوبصورت زندگی میں جہاں مکان و زمان کی کوئی قید نہیں ہے، رہنا شروع کرتی ہے۔ہم کیوں موت کو رشتہ داروں سے جدائی، غم اور اندوہ کے طور پر پیش کرتے ہیں۔اللہ سے نیک امید رکھو اور اپنے اوپر خوف طاری مت کرو۔ہم مسلمان ہیں، اللہ نے ہمیں عذاب کے خاطر پیدا نہیں کیا۔ اللہ نے ہمیں بتایا ہے کہ وہ ہم سے کیا چاہتا ہے اور کیا نہیں چاہتا۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔مشتاق یوسفی فرماتے ہیں، اسلام آباد درحقیقت جنت کا نمونہ ہے، یہاں جو بھی آتا ہے حضرت آدم کی طرح نکالا جاتا ہے۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔