وجود

... loading ...

وجود

ہنسنا منع ہے!

جمعه 31 مئی 2024 ہنسنا منع ہے!

علی عمران جونیئر

دوستو،ہمارے پیارے دوست نے حالات حاضرہ کے حوالے سے دلچسپ تبصرہ بھیجا ہے۔۔ وہ لکھتے ہیں کہ۔۔بڑا بھائی 4 دہائیوں سے پارٹی کا مالک و مختار تھا، پھر بڑے بھائی نے مجبورا چھوٹے بھائی کو پارٹی کی صدارت دی اور چھوٹے بھائی نے دوبارہ بڑے بھائی کو پارٹی صدارت کی وراثت واپس کر دی۔ بڑے بھائی نے چھوٹے بھائی کو 3 بار وزیر اعلیٰ بنایا، پھر بڑے بھائی نے چھوٹے بھائی کو جنرل باجوہ کے مشکوک کردار سے لائی گئی حکومت میں وزیراعظم بنایا اور پھر وزیر اعظم چھوٹے بھائی نے اپنے بیٹے کو وزیراعلی بنایا، بڑے بھائی کے سمدھی کو وزیر خزانہ بنایا، پھر چھوٹے بھائی کو مشکوک ترین انتخابات کے بعد وزیراعظم بنایا تو چھوٹے بھائی نے بڑے بھائی کی بیٹی کو وزیراعلی اور بڑے بھائی کے سمدھی کو وزیر خزانہ بنایا اور پھر نائب وزیراعظم بنا دیا،اٹھائیس مئی کو چھوٹے بھائی نے بڑے بھائی کو واپس پارٹی صدر بنا دیا۔
یہ ہے اس ملک کے جمہوری ترقی کے سفر کا گوشوارہ ،جہاں صرف چند خاندان 25 کروڑ لوگوں کو مویشیوں کی طرح ہانکتے ہیں اور یہ بھیڑ بکریاں چراگاہ میں چارہ کھاتی رہتی ہیں۔۔اگر آپ ستر کی دہائی میں پیدا ہوئے ہیں تو پھر آپ نے ریڈیوپر ہاکی کی کمنٹری بھی لازمی سنی ہوگی۔ کامیڈین عمرشریف سناتے ہیں کہ ۔۔ گیند کلیم اللہ کے پاس ، کلیم اللہ نے سمیع اللہ کو پاس دیا، سمیع اللہ گیند لے کر آگے بڑھے انہوں نے کلیم اللہ کو پاس دیا۔ گیند سمیع اللہ سے کلیم اللہ۔۔ کلیم اللہ سے سمیع اللہ۔۔ سمیع اللہ سے کلیم اللہ۔۔ کلیم اللہ سے سمیع۔۔ دونوں بھائی کھیل رہے ہیں اور پوری ٹیم تماشہ دیکھ رہی ہے۔۔یہی حال ہماری سیاسی جماعتوں کا ہے جہاں گیند سمیع اللہ سے کلیم اللہ کے پاس جاتی ہے، درمیان میں کسی سلیم شیروانی، منورالزمان، حسن سردار، حنیف خان وغیرہ کی کوئی گنجائش نہیں۔۔نون لیگ کا حال تو آپ کو بتادیا۔۔ چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی کے تین بیٹے ایم این اے اور ایک ایم پی اے ہے۔۔ کیا ملتان میں پیپلزپارٹی کو کسی اور پر اعتماد نہیں رہا۔۔
کراچی سمیت ملک بھر میں لوڈشیڈنگ انتہائی عقیدت اور احترام سے منائی جا رہی ہے۔ایک دن باباجی نے ہمیں لوڈشیڈنگ کے فوائد گنوائے۔تپتی دوپہر میں باباجی کی بیٹھک میں بیٹھے ہوئے تھے، ٹھنڈا ٹھارشربت اور لسی کے جگ سامنے ٹیبل پر دھرے ہوئے تھے، باباجی کے سامنے ہمارے پیارے دوست اور ہم براجمان تھے۔ بجلی حسب عادت غائب تھی، یو پی ایس کی بدولت بیٹھک کا پنکھا اس طرح چل رہا تھا گویا غنودگی کا عالم ہو۔ہمارے پیارے دوست نے بجلی کے محکمے کو بیوہ عورتوں کی طرح کوسنے دینے شروع کئے تو باباجی نے مسکرا کر ہاتھ کے اشارے سے روکا، فرمانے لگے۔ ۔ کبھی ناشکری نہ کرو، سوچو کیا قبر میں پنکھا یا اے سی ہوگا؟ وہاں گرمی کا کیا عالم ہوگا،صرف اتنا ہی سوچ لوگے تو تم لوگوں کو کبھی گرمی محسوس نہیں ہوگی۔پھر باباجی نے ہمیں لوڈ شیڈنگ کے فوائدگنوانا شروع کئے۔ کہنے لگے۔۔لوڈشیڈنگ سے خاندانی نظام مضبوط ہوتا، جوائنٹ فیملی سسٹم کے لئے لوڈشیڈنگ اکسیر ہے، پوری فیملی روشنی اور ٹھنڈی ہوا کے لئے ایک جگہ جمع ہوتی ہے۔۔ لوڈشیڈنگ سے دوستو،یارو،پڑوسیوں کو مل بیٹھنے اور ایک دوسرے کے دکھ درد جاننے کا طویل موقع میسر آتا ہے۔لوڈشیڈنگ کی وجہ سے بجلی کا بل بھی کم آتا ہے کیوں کہ پنکھے، اے سی، فریج، استری، جوسر بلینڈر، موٹر یں وغیرہ نہیں چلتیں اور ساتھ ہی ساتھ لوڈشیڈنگ کی بدولت ٹی وی اور میڈیا کی تباہ کاریوں سے بھی لوگ بڑی حد تک محفوظ رہتے ہیں۔لوڈشیڈنگ کی وجہ سے پیدا ہونے والے سناٹے اور خاموشی کی وجہ سے کانوں اور دماغ کو آرام پہنچتا ہے۔۔لوڈشیڈنگ کی وجہ سے جب جسم سے خوب پسینہ نکلتا ہے تو یہ کولسٹرول اور جسم کی فالتو چربی ختم کرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔جب بجلی جاتی ہے تو، انا للہ وانا الیہ راجعون اور استغفر اللہ پڑھنے، اور جب آتی ہے تو الحمد للہ پڑھنے کا موقع ملتا ہے۔خود سوچو، ان کلمات کو ادا کرنے کی کتنی فضیلت ہے اور آخرت میں کتنے کام آئیں گے یہ کلمات، جب لوگ ایک ایک نیکی کیلئے ترس رہے ہوں گے۔۔لوڈشیڈنگ کی وجہ سے اللہ کی نعمتوں کی قدر ہوتی ہے،اللہ سبحانہ تعالیٰ پر ایمان مزید پختہ ہوتا ہے۔لوڈشیڈنگ کی وجہ سے ایمرجنسی لائیٹ، UPS اور جنریٹرز کے شعبوں سے منسلک ہزاروں، لاکھوں افراد کو روزگار میسر آتا ہے۔باباجی کی ایمان افروز باتیں سن کر ہمارے اندر کا مسلمان انگڑائی لے کر جاگ گیا، لیکن ہمارے پیارے دوست نے اچانک سوال کردیا، باباجی جب بجلی اچانک چلی جاتی ہے، (یعنی غیراعلانیہ لوڈشیڈنگ کی جاتی ہے )تو ہزاروں ، لاکھوں لوگ جب بجلی والوں کو ماں بہن کی گالیاں دیتے ہیں، اس کا عذاب کس کے سر جاتا ہے۔ باباجی نے ہمارے پیارے دوست کو بغور دیکھا پھر مسکرا کر کہنے لگے۔۔میاں، ہر شخص اپنے اعمال کا خود جواب دہ ہے۔جو گالیاں دیتا ہے،وہ قبر میں بھگتے گا جب خچر کے سائز کے بچھواسے ڈسیں گے۔۔
آج جمعہ مبارک ہے، اس حوالے سے کچھ اچھی باتیں بھی ہوجائیں۔۔ آپ نے کبھی سوچا ہے کہ ہم کیوں قبر کی نعمتوں کے بارے میں بات نہیں کرتے، ہم یہ کیوں نہیں کہتے کہ وہ سب سے بہترین دن ہوگا جب ہم اپنے رب سے ملیں گے۔ ہمیں یہ کیوں نہیں بتایا جاتا کہ جب ہم اس دنیا سے کوچ کریں گے تو ہم ارحم الراحمین کی لامحدود اوربے مثال رحمت اور محبت کے سائے میں ہوں گے، وہ رحمان جو ماں سے بھی زیادہ مہربان ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جانور کو دیکھا جو اپنا پاؤں اپنے بچے پر رکھنے سے بچا رہی تھی، تو آپ صلی اللہ علیم وسلم نے صحابہ سے فرمایا،بے شک ہمارا رب ہم پر اس ماں سے کہیں زیادہ مہربان ہے۔۔کیوں ہمیشہ، صرف عذاب قبر کی باتیں ہو رہی ہیں، کیوں ہمیں موت سے ڈرایا جا رہا ہے، یہاں تک کہ ہمیں، معاذ اللہ، پختہ یقین ہو گیا کہ ہمارا رب ہمیں مرتے ہی ایسا عذاب دے گا جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ہم کیوں اس بات پر مصر ہیں کہ ہمارا رب ہمیں صرف عذاب ہی دے گا، ہم یہ کیوں نہیں سوچتے کہ ہمارا رب ہم پر رحم کرے گا۔ہم لوگوں کو یہ کیوں نہیں بتاتے کہ موت زندگی کا دوام ہے اور یہ حقیقی زندگی اورہمیشہ کی نعمتوں کا دروازہ ہے۔ہم یہ حقیقت کیوں چھپاتے ہیں کہ روح جسم میں قیدی ہے اور وہ موت کے ذریعے اس جیل سے آزاد ہو جاتی ہے،اور عالم برزخ کی خوبصورت زندگی میں جہاں مکان و زمان کی کوئی قید نہیں ہے، رہنا شروع کرتی ہے۔ہم کیوں موت کو رشتہ داروں سے جدائی، غم اور اندوہ کے طور پر پیش کرتے ہیں۔اللہ سے نیک امید رکھو اور اپنے اوپر خوف طاری مت کرو۔ہم مسلمان ہیں، اللہ نے ہمیں عذاب کے خاطر پیدا نہیں کیا۔ اللہ نے ہمیں بتایا ہے کہ وہ ہم سے کیا چاہتا ہے اور کیا نہیں چاہتا۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔مشتاق یوسفی فرماتے ہیں، اسلام آباد درحقیقت جنت کا نمونہ ہے، یہاں جو بھی آتا ہے حضرت آدم کی طرح نکالا جاتا ہے۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
خرم پرویز کی حراست کے تین سال وجود منگل 26 نومبر 2024
خرم پرویز کی حراست کے تین سال

نامعلوم چور وجود منگل 26 نومبر 2024
نامعلوم چور

احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر