... loading ...
ب نقاب /ایم آر ملک
76برس قبل امن اور سلامتی کے مذہب کے نام پر وجود میں آنے والی مملکت خداداد کی بنیادیں اُستوار کرنے میں جن نیم سوختہ تن افراد نے حصہ لیا اُن کے سامنے ا یسی ریاست کا تصور ہرگز نہیں تھا جس کی شناخت دہشت زدہ چہرے ہوں۔ اک طویل عرصہ سے آہ و بکا کا طوفان بلائے ناگہانی کی مانند خیمہ زن ہے ،وطن عزیز کے وہ حساس لوگ جو زندہ احساس کے ساتھ جینا چاہتے ہیں اب سانس لینے کے گناہ گار ہیں ،تماشا یہ بھی ہے کہ سب تماشائی ہیں ،تبصرے کرتے ہیں لیکن علاج کسی کے پاس نہیں رہا۔
قیام امن کے بلند بانگ دعووں کے باوجود ہنستے بستے چہروں کو ویران کرکے مقصدیت کا جشن منانے والے درندے اپنے معاوضوں اور بھیانک چہروں کے ساتھ دندناتے پھر رہے ہیں ۔موت کا عفریت ”دہشت گردی کی نام نہاد جنگ ” میں فرنٹ لائن ا سٹیٹ بننے کے بعد میری دھرتی کے معصوم باسیوں کے تعاقب میں ہے۔ عرصہ پہلے اے پی ایس پشاور میں معصوم بچوں کے چیٹھڑہ چیتھڑہ اور لہو لہو جسم ،اور پابند سلاسل یاسمین راشد ،صنم جاوید ،عمر سرفراز چیمہ کی قید تنہائی نے دکھ کی بھاری سل جیسے ہر پاکستانی کے وجود پر رکھ دی ۔
ہمارے اسلاف نصیحت کر گئے کہ زن ،زر،زمین کے فساد سے بچنا اِن کی ہوس میں جوانیاں کفن اوڑھ کر کندھوں پر قبرستان تک کا سفر کرتی ہیں، زندگیاں عذاب گزرتی ہیں
ہاں نصیحت کرنے والے دانشورو !
آپ کی دسترس میں دانائی اور حکمت کے راز تھے !
مانتا ہوں آپ لہروں کی خاموشی دیکھ کر آنے والے طوفانوں کی خبر کر دیتے تھے
ستاروں سے منزل تلاشتے اور لکیروں سے بختوں کے حال جان لیتے تھے آپ کی نگاہ مستقبل کی تصویر دیکھ لیتی تھی
واقعی ایسا ہوگا !
مجھ جاہل ،نادان کو آپ کے علم و فن سے کچھ بحث نہیں مجھے آپ سے صرف یہ سوال پوچھنا ہے کہ میری دھرتی آج جو قیامتیں جھیل رہی ہے اُن کا احوال آپ نے تاریخ کے کس خواب نامہ میں درج کیا ؟
آپ کی مستقبل بینی سے انکار نہیں مگر میرے بزرگو !
آپ وہ دانائی و حکمت کا خزانہ کس کوہ قا ف میں دفن کر گئے کہ میرے لوگ وطن عزیز پر گزرنے والی قیامتوں سے بے خبر ہیں ۔
بہت ممکن ہے میری آنکھوں نے غلط تاریخ چاٹی ہو مگر میرے نزدیک یہ جھوٹ اس کثرت سے لکھا گیا ہے کہ سچ محسوس ہوتا ہے میری قرات کی ہوئی روایتوں میں بٹوارے سے قبل ماضی کا احوال کچھ یوں ہے
فیروز پور ،پٹیالہ ،امرتسر میں سکھ مسلمانوں کے گھروں کے محافظ ہوتے تھے
گوجرانوالہ ،وزیر آباد ،سیالکو ٹ میں مسلمان بیٹیاں سکھوں کے کنو ئوں سے پانی بھرا کرتیں ،سرداروں کے گائوں میں مسلمان لڑکیاں سب کی بیٹیاں اور بہنیں سمجھی جاتیں ،مسلمانوں کی آبادیوں میں سکھ گبھرو مولویوں کے بیٹے تھے اور یہاں کی بوڑھیاں تندور پر اپنے بیٹوں اللہ دین ، پرکاش اور ہرنام سنگھ کیلئے روٹیاں لگاتیں
ٹرپئی ،رام دوالی ،مالیگائوں،چک رام داس میں ہندو مسلمان ایک ہی دستر خوان پر پیٹ بھرتے مندر مسجد الگ لیکن دکھ سکھ سانجھے تھے
سکھوں کی چھاتیاں مسلمانوں کے حصے کی برچھیاں کھاتیں اور مسلمانوں کی کمریں سکھوں کی بوریاں ڈھوتیں
کتابوں کی باتیں کتابوں میں دفن ہو چکیں ۔
میںنے اور میری نسل نے تو یہی دیکھا ہے کہ زندگی جنگ ہے اور میری دھرتی میدان ،گھمسان کا رن مچا ہوا ہے، ذہن مائوف ہو جاتا ہے۔ میری دھرتی کے لوگ اپنے گھروں کا پتہ پوچھتے ہوئے ڈرتے ہیں ،روشنیوں کے شہر میں ایدھی اور چھیپا کے سرد خانوں میں لاشیں اوپر تلے رکھی جارہی ہیں ،سچ کو آئینوں میں تلاش نہیں کیا جاتا اور نہ ہی یہ تمغے کی صورت رکھتا ہے کہ آپ نے اسے سینے میں سجا لیا تو آپ سچائی کے دعویدار ہو گئے ،نہیں ایسا نہیں !
واللہ !اقبال نے اس دھرتی کا خواب نہیں دیکھا تھا ؟
گزرے زمانے کے دانشورو !
جن قیامتوں کا ذکر میں نے اپنے الفاظ میں کیا ہے اِن قیامتوں کا بیج کس نے بویا کہ اتنا زہریلا پھل میری نسل کے حصے میں آیا ،
دانشورو!
کچھ تو تحقیق کرو
ہماری شناخت پر حملہ زن ،زر ،زمین کا فساد تو بہرحال نہیں آج سے 76برس قبل اس دھرتی کا سنگ ِ میل بننے والی قرار داد میں یہ کہیں نہیں لکھا تھا کہ لٹانے اور گنوانے والے زیادہ ہوں گے۔
دانشورو کچھ تو تحقیق کرو !