... loading ...
سمیع اللہ ملک
تقریباًدوصدیاں پہلے کشمیر کی خوبصورتی سے متاثرہوکرکچھ ہندوپنڈتوں نے مستقل رہنے کی درخواست کی تواس وقت کشمیری مسلمانوں نے اپنے حسن سلوک سے ان کو صدقِ دل سے خوش آمدیدکہااوراس طرح آہستہ آہستہ مزیدہندوپنڈت بھارت سے کشمیر میں پہنچناشروع ہو گئے۔بدھ سنگھ جوایک لٹاپٹاجاگیر دار تھااس نے بھی اپنے کنبے کے کچھ افرادکے ساتھ کشمیر میں پناہ لی۔ابھی وہ جوان ہی تھاکہ اس نے ایک انگریزافسرمانسٹوٹ کے پاس ملازمت حاصل کرلی ۔دورانِ ملازمت دلی قیام کے دوران1812میں اس کے ہاں بیٹے کی ولادت ہوئی جس کانام اس نے موہن لال رکھا۔بدھ سنگھ ایک جہاں دیدہ شخص تھا لہٰذاجب1828میں انگریزنے فارسی کالج دلی میں انگلش کی کلاسیں شروع کیں توبدھ سنگھ نے اپنے بیٹے موہن لال کو وہاں داخلہ دلادیاجہاں موہن لال کے نام کے ساتھ کاشمیری کا اضافہ کردیاگیا۔ یوں موہن لال کاشمیری ہندوستان کے ان6نوجوانوں میں شامل ہوگیاجنہوں نے انگریزراج کے شروع میں انگریزی سیکھ لی۔1831 کووہ فاتح افغانستان سرالیگزانڈربرنس کے پاس ملازم ہوگیا۔موہن لال فارسی اورانگریزی زبان بولنے اورلکھنے میں کافی ماہرہوگیا تھالہندا اسے شروع میں بخاراکی مہم سونپی گئی۔وہ برنس کے ساتھ دہلی سے نکلااور لدھیانہ ،پانی پت، کرنال، لاہور،پنڈدادن خان، جلالپور،راولپنڈی،پشاور،کابل اوربامیان سے ہوتاہوابخاراپہنچا۔برنس اوراس کے انگریزساتھی جیرارڈ مقامی لوگوں کی بھیس میں اس کے ساتھ تھے۔اس مہم کا مقصد افغانستان کی دفاعی پوزیشن کاجائزہ لیناتھا۔موہن لال سفر کے دوران ڈائری لکھتارہا جومختلف ذریعوں سے انگریزسرکار تک پہنچتی رہی۔ موہن لال 1834کوواپس پہنچا،انگریز سرکارنے اس کی خدمات کے عوض اسے قندھارمیں اپناپولیٹیکل ایجنٹ لگادیا۔
1838کوانگریزنے افغانستان پرقبضے کافیصلہ کیا،موہن لال کواس مہم کاگائیڈمقررکردیاگیا۔موہن لا ل برنس کے ساتھ نکلا اور انگریزفوج کوسیدھا کابل لے گیا۔افغانوں سے جنگ ہوئی ،افغان ہارگئے کیونکہ موہن لال اس سے پہلے بہت سے غیرمسلم افغانیوں کومال ودولت سے انگریزسرکارکی حمائت کیلئے خریدچکا تھا۔انگریزوں نے شاہ شجاع کوتخت پر بٹھادیااوراس کی آڑمیں افغانستان پر حکومت کرنے لگے۔موہن لال اس سارے دورمیں انگریزوں کے مفادات کیلئے کام کرتا رہا۔موہن لال کوسازش،مکرو فریب اور جوڑتوڑ کا ماہرتھا۔وہ آسانی سے مقامی لوگوں میں رچ بس جاتااورپھران کی جڑیں کاٹ کر اپنے آقاانگریزوں کے ہاتھ میں دے دیتاتھا۔موہن لال1877تک زندہ رہا،اپنی باسٹھ سالہ زندگی میں اس نے برطانیہ کاسفربھی کیا، آخری عمرمیں اس نے دوسفرنامے بھی لکھے جوکسی ہندوستانی باشندے کی انگریزی زبان میں پہلی کتابیں تھیں۔
یہ کتابیں بدقسمتی سے شہرت نہ پاسکیں۔1930کے آخرمیں نہرولندن کے ایک کباڑیئے کی دوکان پرکسی کام سے گئے تو وہاں انہوں نے ان کتابوں کوخریدلیا۔ان کتابوں کاجب مطالعہ کیا توموہن لال کے مشاہدات اورزبان دانی پرحیران ہوگئے۔نہرو کی تحریک پربعدازاں ہری رام گپتانے موہن لال پرپی ایچ ڈی کی۔گپتاکامقالہ 1943 میں شائع ہوا، اس کادیباچہ خودنہرونے لکھالیکن بدقسمتی سے یہ مقالہ بھی کوئی شہرت نہ حاصل کرسکا۔ساٹھ برس بعدیعنی2003میں یہ ایک بارپھرشائع ہوا،اس مرتبہ اس نے تہلکہ مچا دیا،دنیا موہن لال کے مشاہدات پرحیران رہ گئی۔
موہن لال1838سے1841تک کابل رہاتھا،اس نے انگریزوں کی حکومت بنتیاورپھربگڑتے دیکھی تھی،وہ افغانوں کامزاج شناس بھی تھالہنداجب اس نے کابل میں انگریزوں کے زوال کی داستان لکھی توکمال کردیا۔اس نے لکھا:افغان سب کچھ سہہ جاتے ہیں لیکن وہ بیرونی طاقتوں کوبرداشت نہیں کرتے۔افغان شراب اور جنسی بے راہروی کے ساتھ بھی سمجھوتانہیں کرتے۔انگریزاقتدار پرقابض ہوئے توانہوں نے افغانوں کے مزاج کوفراموش کردیا،انہوں نے سارے اختیاراپنے ہاتھ میں لے لئے،بادشاہ محض کٹھ پتلی بن کررہ گیا۔کابل میں شراب خانے کھولے گئے اورانگریزفوج نے سرِعام شراب نوشی شروع کردی۔انگریزوں نے بڑے بڑے مکانات اورباغات پرقبضہ کرلیا،وہ وہاں گھڑ دوڑ،کرکٹ اورڈراموں سے لطف اندوزہو نے لگے۔
وہ سردیوں میں کابل میں اسکینگ بھی کرتے تھے،شہربھرمیں قحبہ خانے کھل گئے،انگریزفوجیوں کی دست درازیاں شرفاکے گھروں تک پہنچ گئیں۔انگریز افسراوراہلکارسرداروں کی بہو بیٹیاں اٹھالاتے اوراس زیادتی پرحکومت خاموش رہتی۔انگریزوں نے شہرکے تمام اچھے مکانات ہتھیالئے یاپھرکرائے پرحاصل کرلیے۔اناج،گھاس،گوشت اورسبزیاں بھی انگریزخریدلیتے تھے جس کے نتیجے میں افغانستان قلت اورمہنگائی کاشکارہوگیا۔افغان تین برس تک یہ ظلم سہتے رہے یہاں تک کہ 1841ستمبرآن پہنچا۔ تمام افغان سرداروں نے قرآن پرحلف لیتے ہوئے ایک معاہدے پردستخط کیے اوراس کے بعدانگریزوں کوچن چن کرقتل کرنا شروع کردیا۔برنس کواس کے گھرکے سب سے بڑے دروازے پرپھانسی پرلٹکا دیاگیا۔یہ بغاوت7جنوری1842تک جاری رہی۔تنگ آکر میجرپاٹنجرنے افغانستان چھوڑنے کااعلان کردیا۔انگریزفوج کابل سے نکلی لیکن افغانوں نے اسے راستے میں گھیرکرقتل کردیا۔اس جنگ میں20ہزارانگریزمارے گئے،صرف ڈاکٹربرائیڈن بچاجوزندگی بھرافغانوں کی بربریت کی داستانیں سناتارہا۔موہن لال بھی اس جنگ میں گرفتار ہوالیکن اس نے انگریزوں کے تمام خفیہ رازاگل دیئے اوربڑی مشکل سے رہائی پائی۔
گزشتہ دنوں کشمیری پنڈتوں کی تاریخ ،موہن لال کی آب بیتی، گلوب اینڈ میل کی ایک پرانی رپورٹ اورکرسٹینالیمب کا2004میں لکھا ہوا کالم اکٹھے پڑھنے کااتفاق ہوا،گلوب اینڈ میل نے انکشاف کیاکابل شہرگناہوں کی دلدل بن چکاہے،شہرمیں جسم فروشی کے سینکڑوں مراکز کھل چکے ہیں،وزیراکبرخان اورشہریوں کے جدیدعلاقوں میں درجنوں نائٹ کلب ہیں۔افغان قانون کے مطابق شراب نوشی جرم ہے لیکن شہرمیں شراب عام ہے۔کرسٹینا لیمب نیویارک ٹائمزمیں اپنے کالم میں لکھا کہ کابل شہرمیں ایک سابق افغان عمرنے دولاکھ ڈالرسے”پی کاک”کے نام سے ریستوران کھولاجس کاسوئمنگ پول مارٹینی شراب کے گلاس کی مانندہے،اس ریستوران میں شراب کے ساتھ حرام گوشت بھی ملتا ہے۔ برطانیہ کے باشندوں نے ایلبوروم کے نام سے کاک ٹیل باراورتھائی ریستوران بھی کھولاہے۔ پورے شہرمیں شراب اورعورت عام ہے جسے افغان پسندیدگی سے نہیں دیکھ رہے،حالت یہ ہے طالبان کے مخالف بھی آج ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہیں،کیاامریکانے یہ جنگ اس لئے لڑی تھی کہ وہ یہاں شراب خانے،ریستوران اوررقص گاہیں تعمیرکر سکے۔
میں نے موہن لال کی آب بیتی کوایک طرف رکھااورٹھنڈاسانس بھرکرسوچاکیا1841اور2024میں کوئی فرق ہے؟کرسٹینا لیمب کے اسی کالم کے آخرمیں اس کاجواب مل جاتا ہے کہ ہاں ہے،1841میں افغانستان میں انگریزتھااورآج وہاں امریکی اپنی گیارہ سالہ ظلم وستم کی بے شمارداستانیں چھوڑکرآئے ہیں جن کے مہلک اورمضراثرات کوزائل ہونے میں ابھی کافی وقت درکارہوگا۔ میں نے سوچاکیا تاریخ خودکودہرائے گی؟تواس کے جواب میں کرسٹینالیمب یوں جواب دیتی ہے کہ ہاں جلدہی کیونکہ غلطیوں کے بیج سے ہمیشہ غلطیوں کے پودے نکلتے ہیں۔
میراوجدان مجھے فوری طورپراس طرف لے گیاکہ برہان وانی کی شہادت کے بعدکشمیرکی تحریک آزادی نے جب بہت زور پکڑ لیا اوربھارتی خفیہ ایجنسی کشمیرکی تحریک آزادی کوبدنام کرنے کیلئے امریکی صدرکلنٹن کے بھارتی دورے کے دران بھارتی فوج کے خفیہ ادارے ”را”نے 20مارچ 2000 کو کشمیر کی تحریک آزادی کو کچلنے کیلئے چھتی سنگھ پورہ اننت ناگ میں بڑے بہیمانہ اندازمیں وہاں کے مقامی گردوارہ میں 34 سکھوں کوقتل کردیااوراس کی ساری ذمہ داری کشمیری مسلمانوں پرڈال دی تھی لیکن بعد میں خود بھارتی تین رکنی تحقیقاتی کمیشن نے بھارتی سیکورٹی فورسزکواس کاذمہ دارٹھہراتے ہوئے بھارتی بنئے کی اس خوفناک سازش کابھانڈہ پھوڑدیا۔مودی دورِ حکومت میں کبھی پٹھانکوٹ اورکبھی پلوامہ میں ایسے ہی ڈرامے دہرائے گئے،اس طرح بہت سے موہن لال اپنے گھناؤنے کردارمودی کی شکل میں بے نقاب ہورہے ہیں اوردوسری طرف کشمیری پنڈتوں کواستعمال کرتے ہوئے من گھڑت واقعات سے دنیاکوگمراہ کیاگیاجس کو بھارت کے میڈیا نے خوب اچھالا۔ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ان پنڈتوں کاانخلا اس لئے بھی مقصودتھاکہ مسلمانوں کے خلاف بھارتی فوج کے ظالمانہ آپریشن میں ان کوفری ہینڈ مل سکے۔
بھارت جودنیاکی سب سے بڑی جمہوریت کادعویٰ کرتاہے آخروہ دنیاکے پریس اورکیمرے کووہاں جانے کی اجازت کیوں نہیں دیتا ؟ اگر چند منٹ کیلئے بڑی ناگواری کے ساتھ فرض کرلیاجائے کہ کشمیر بھارت کاحصہ ہے تووہ کون ساقانون ہے جس کے تحت بھارت نے اپنے ہی ایک لاکھ سے زائدبے گناہ شہریوں کوکشمیرمیں بیدردی سے قتل کردیاہے؟ اس کاکوئی جواب ہے کسی کے پاس؟؟کیا موہن لال اور مودی ایک ہی سکے کے دورخ ہیں؟