... loading ...
سمیع اللہ ملک
چین کی تیزرفتارترقی نے دنیابھرمیں کھلبلی مچادی ہے۔امریکااوریورپ کے ساتھ ساتھ روس اوردیگرعلاقائی ممالک کوبھی تشویش لاحق ہوگئی ہے۔چین کی ترقی کاگراف بلندہوتاہو ا دیکھ کرروس کوبھی کچھ کرنے کاخیال آیاہے اوراس نے اس حوالے سے بہت کچھ کرنے کی ٹھانی ہے۔روس سپرپاوربھی رہاہے اورایک بارپھراِس حیثیت کاحامل ہونے کاخواہش مندبھی ہے۔سردجنگ کے خاتمے کے بعدسے روس کوابھرنے کاکوئی ایساموقع نہیں ملاجس سے غیرمعمولی حدتک مستفیدہواجاسکتا۔حقیقت یہ ہے کہ روسی قیادت علاقائی اورعالمی سطح پراپنے لیے بلندترکردارکی تلاش میں ہے اوراب ایسالگتاتھاکہ وہ اِس حوالے سے کسی حدتک مطمئن ہے لیکن امریکااوراس کے اتحادیوں کی جانب سے یوکرین جنگ میں اس کے وسائل تقسیم ہوکررہ گئے ہیں اوردوسری طرف چین نے ون بیلٹ،روڈ انیشئیٹیو(بی آر آئی)کے حوالے سے جو کچھ کیاہے وہ امریکااوریورپ کیلئے توپریشانی کاباعث ثابت ہوا ہے مگرروس نے اپنے آپ کوبہتر پوزیشن میں محسوس کر رہا ہے۔ جس کے بعدپیوٹن نے یہ فیصلہ کرلیاہے کہ اب چین کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے کچھ کردکھانالازم ہوگیاہے۔
ادھرچین نے نئی اقتصادی شاہراہِ ریشم کے خواب کو”بی آرآئی” کے روپ میں شرمندہ تعبیرکرنے کی ٹھانی ہے۔ایسے میں روس بھلا کیوں کچھ نہ سوچے؟وہ بھی اپنے لیے کوئی نیا علاقائی اورعالمی کردارچاہتاہے۔یہی سبب ہے کہ وہ چین کے ساتھ قدم ملاکربڑھ رہاہے۔مشرقی ایشیااوریوریشیا کی ترقی اورسلامتی کے حوالے سے کوئی نیااوربامعنی کردارادا کرنا روس کیلئے ناگزیرساہوگیاہے۔ روسی قیادت نے چینی قیادت کومتعددمواقع پریہ اعلانیہ وغیراعلانیہ پیغام دیاہے کہ پورے خطے کو ایک لڑی میں پرونے کے پروگرام کے حوالے سے اسے تھوڑی بہت اصلاحات کرناپڑیں گی تاکہ روس جیسے بڑے ملک کوبھی اچھی طرح کھپایاجاسکے۔ چین کیلئے بھی لازم ساہوگیاہے کہ منصوبے ہراعتبارسے جامع ہوں یعنی ان میں کوئی ایساسقم نہ ہوکہ خطے کی کسی طاقت کو زیادہ برالگے یامحسوس ہوکہ اس کیلئے آگے بڑھنے کے مواقع پیدا نہیں ہوپارہے۔چین نے امریکی ترقی سے بھی خاموشی کے ساتھ مستفید ہونے کافیصلہ کیاہے۔
چین کے صدرشی جن پنگ نے2013میں قازقستان میں چین کے عظیم الشان منصوبے بی آرآئی کااعلان کیاتھا،جس کے بعدسے اب تک بہت کچھ تبدیل ہوچکاہے۔ ملائیشیااور پاکستان اوراس سے آگے افریقاتک چین کے متعددمنصوبے زیرتکمیل ہیں۔بہت سے منصوبے مکمل بھی ہوچکے ہیں۔اس حوالے سے شکایات کابازاربھی گرم ہے۔چین کے حوالے سے ایک بڑی شکایت یہ ہے کہ یہ کسی بھی منصوبے میں شراکت دارملک کے مفادات کازیادہ خیال نہیں رکھتا،جس کے نتیجے میں شِکوے بڑھتے جارہے ہیں، تحفظات کا گراف بلند ہو رہاہے۔چین نے پورے خطے کواقتصادی طورپرایک لڑی میں پرونے کاجوپروگرام شروع کیاہے وہ ابتدامیں غیرمعمولی حدتک مبہم تھا، اب چین میں متعدد تھنک ٹینک ابھرکرسامنے آئے ہیں،جوحکومت کومختلف حوالوں سے مشورے دے رہے ہیں۔یہ تھنک ٹینک ایک ایسے ماحول کویقینی بنانے کیلئے کام کررہے ہیں جس میں چین کیلئے مشکلات کم سے کم ہوں اور شرکت دارکوزیادہ سے زیادہ خوش رکھنے کی راہ نکالی جاسکے۔
دنیابھرمیں اِس حقیقت کوتسلیم کرنے میں عارمحسوس نہیں کی جارہی کہ چین نے جومنصوبہ شروع کیاہے،وہ دنیاکوقرضوں میں لپٹے رہنے کے ماڈل سے دورکرنے کی چندبڑی اور مثبت کوششوں میں سے ایک ہے۔امریکااوریورپ نے مل کربین الاقوامی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف)کوفروغ دیا۔امیدکی جانی چاہیے کہ چین اگرکوئی عالمی مالیاتی ادارہ قائم کرنے کی تحریک چلاتاہے تووہ ایسی کوئی حرکت نہیں کرے گا جوآئی ایم ایف کرتارہاہے۔آئی ایم ایف نے پسماندہ ممالک کوقرضوں کے جال میں پھنسارکھاہے۔ روس نے حال ہی میں شمال مشرقی ایشیاکی ریاستوں کوتنظیم کے پلیٹ فارم سے کچھ کرنے کی تحریک دی ہے۔
جوبائیڈن کی ایماپرامریکاکے خفیہ ادارے سی آئی اے نے یوکرین کے حوالے سے جوکچھ کیا،وہ امریکااوریورپ کے حوالے سے روس کی سوچ میں تبدیلی کاباعث بنا۔سابق صدر باراک اوبامانے یوکرین کے ایشوپریورپی یونین کوروس پرپابندیاں عائد کرنے کا مشورہ دیا۔ یہ عمل روس کومختلف حوالوں سے تحفظات کاشکارکرنے کاباعث بنا۔ایسے میں لازم تھا کہ روس اپنے آپشنزکیلئے کسی اورطرف دیکھناشروع کرتا۔روس نے بہت سے معاملات میں مغرب کی طرف دیکھتے رہنے کی پالیسی اپنائی تھی۔اب ان پالیسیوں پرنظرثانی کرتے ہوئے خودمختاری کی کامیاب پالیسی پرعملدرآمدشروع کردیاہے۔ایسے میں روس کیلئے بالکل فطری تھا کہ سیاسی،معاشی اورعسکری معاملات میں خطے(یوریشیا)کی سب سے بڑی قوت یعنی چین کی طرف دیکھتااوراس نے ایساہی کیا اوراب خودآئی ایم ایف کی تازہ رپورٹ کے مطابق یوکرین جنگ کے باوجودروس کی معیشت میں مزیدبہتری ہورہی ہے۔
یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ روسی قیادت بیشترمعاملات میں چین پربہت زیادہ انحصارکررہی ہے،جس کے نتیجے میں ایساوقت بھی آسکتا ہے کہ چین کے بغیرڈھنگ سے جینااس کیلئے ممکن نہ رہے۔چندایک شعبوں میں دونوں ممالک نے ساتھ چلنے کی اچھی خاصی گنجائش پیداکی ہے۔ یہ بات محسوس کی جاسکتی ہے کہ روس اپنے لیے جگہ بناناچاہتاہے مگرساتھ ہی ساتھ وہ اس بات کا خیال بھی رکھ رہاہے کہ چین کے مقابلے میں اس کی وہی حیثیت نہ رہ جائے،جودوڈھائی عشروں کے دوران امریکا کے مقابلے میں برطانیہ کی رہی ہے!
نومبر2018ء میں پاپوانیو گنی میں(اے پی ای سی) کے رکن ممالک کااجلاس ہوا،جس میں شرکت کیلئے پیوٹن نے اپنے وزیراعظم میدو یدوف کوبھیجا۔اس اجلاس میں چین کے صدرشی جن پنگ نے امریکاکے نائب صدرسے ملاقات کی۔ خودپیوٹن نے سنگاپورمیں آسیان کے سربراہ اجلاس میں شرکت کرناضروری سمجھا۔ جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی تنظیم آسیان کے ارکان میں ویتنام، ملائیشیا، برونائی، لاؤس، فلپائن، کمبوڈیا،انڈونیشیا،سنگاپور،تھائی لینڈاورمیانمار)برما(شامل تھے۔اس اجلاس میں اس نکتے پربحث ہوئی کہ روس کی سرپرستی میں قائم یوریشین اکنامک یونین)ای اے ای یو(اور آسیان کے درمیان تجارت اورسرمایہ کاری کوزیادہ سے زیادہ کس طورفروغ دیاجائے۔شنگھائی تعاون تنظیم کی طرزپر یوریشیائی ممالک کی عظیم ترشراکت داری قائم کرنے اور خطے میں ترقی کاعمل تیزکرنے کاجوعزم کیاگیاتھا،اب اس پر خاطرخواہ پیش رفت دکھائی دے رہی ہے۔
روس کسی بھی اعتبارسے اتنامضبوط تونہیں جتناچین ہے،مگرپھربھی جغرافیائی مواقعوں کی بنیادپروہ ایشیااوریورپ کے درمیان وسیع تر رابطے کاکرداراداکرنے کے ساتھ ساتھ خطے کے ممالک کوعظیم تراقتصادی لڑی میں پرونے کی بھرپورصلاحیت رکھتا ہے۔جن علاقوں میں چین کے حوالے سے تاریخی اعتبارسے تحفظات پائے جاتے ہیں،ان میں روس کاکردار اہم ثابت ہوسکتاہے۔ نقشے میں دیکھنے سے اندازہ ہوتاہے کہ روس وسیع ترجغرافیائی حقیقت ہونے کی بنیادپرکتنے ممالک سے جڑاہواہے۔غیرمعمولی تزویراتی اہمیت کی بنیاد پر روس کئی ممالک سے وسیع البنیادشراکت قائم کرکے سیاسی اورمعاشی ہی نہیں،عسکری اعتبار سے بھی اپنی بات منوانے کے ساتھ ساتھ کئی ممالک کی وقعت میں اضافہ کرسکتاہے ۔
سنگاپور سربراہ اجلاس میں مفاہمت کی ایک یادداشت پربھی دستخط کیے گئے تھے،جس کی روسے تجارت اورسرمایہ کاری کو تیزی سے فروغ دیاجائے گا۔ساتھ ہی ساتھ یہ بات بھی قابل غورہے کہ آسیان نے پہلی بارروس سے اپنے تعلق کواسٹریٹجک پارٹنرشپ قرار دیا۔ مفاہمت کی جس یادداشت پردستخط کیے گئے،اس کے تحت روس اس خطے میں تجارت اور سرمایہ کاری کو زیادہ سے زیادہ فروغ دینے کیلئے مختلف شعبوں پر خاص توجہ دے رہاہے.کسٹم ڈیوٹی کے معاملات کونئی شکل دی گئی ہے۔روس آئی ٹی اورچنددیگرشعبوں میں وسیع تر تعاون کررہاہے۔ساتھ ہی ساتھ روسی قیادت اس خطے میں اسمارٹ سٹیزقائم کرکیوسیع تر منصوبے کے کامیاب تجربے سے مستفیذ ہو رہا ہے۔ روسی صدرنے آسیان کے رکن ممالک کے سربراہان کو ذاتی طورپر2019میں سینٹ پیٹرز برگ اکنامک فورم اورولاڈیواسٹوک ایسٹرن اکنامک فورم میں شرکت کی جودعوت دی تھی،اس کی کامیابی کے ثمرکا فائدہ بھی اٹھارہاہے۔
روس کے زیرسایہ کام کرنے والی یوریشین اکنامک یونین اورآسیان کے درمیان2017کے بعدسے تجارت میں کم و بیش 60فیصد اضافہ ہواہے،جس کے نتیجے میں تجارت کاحجم 48/ارب ڈالرتک پہنچاہے۔حقیقت یہ ہے کہ اس خطے میں جتنی تجارت کی سکت ہے یہ تجارتی حجم اس کا معمولی ساحصہ ہے۔آسیان کے ارکان میں ویتنام سے روس کے تعلقات بہت اچھے ہیں،دونوں میں گاڑھی چھن رہی ہے۔سردجنگ کے دورمیں روس نے سمندرمیں تیل کی تلاش کے حوالے سے ویتنام کی خاصی مددکی تھی۔دونوں ممالک نے2015 ء میں آزاد تجارت کامعاہدہ کیاتھا،اس معاہدے کے بعد سے اب تک دونوں ممالک کے تجارت کاحجم 8/ارب ڈالرتک پہنچ چکاہے اوراس میں مزید فروغ کاامکان موجودہے۔
یوریشین اکنامک یونین کے ارکان اورویتنام کے درمیان تجارت بڑھتی جارہی ہے۔تیل، کھاد، فولاداورمشینری ویتنام کی کلیدی درآمدات ہیں۔برآمدات میں فون کے پرزے، الیکٹرانک آلات، کمپیوٹر،ایپرل اورسافٹ ویئر نمایاں ہیں۔اب جبکہ روس،یوریشین اکنامک یونین اور آسیان کے درمیان تجارتی معاہدہ ہوگیاہے،ویتنام غیرمعمولی اہمیت اختیار کرگیاہے۔وہ آسیان کے دیگر ممالک کیلئے روس اوریوریشین اکنامک یونین کی مصنوعات کی فراہمی میں اہم کردارادا کررہاہے۔ اس معاہدے سے فریقین کیلئے کم وبیش 2200 / ارب ڈالر کی جی ڈی پی والی مارکیٹ کھل رہی ہے اوردوطرفہ تجارت2020تک20/ارب ڈالرسے بڑھ کر2030 تک 30/ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔
پیوٹن نے آج سے 5برس قبل جوسنگاپورمیں ملائیشیاکے صدرمہاتیرمحمد،انڈونیشیا کے صدرودودو،جاپان کے وزیراعظم آبے، جنوبی کوریا کے صدرموجائے اِن اورچین اورتھائی لینڈ کے وزرائے اعظم سے جوملاقاتوں کاسلسلہ شروع کیا،اس نے ان تمام ملکوں سے قربت کے نئے درکھلے۔روسی صدرنے جاپانی وزیراعظم آبے سے کرلی جزائرکے حوالے سے بات کی جبکہ جنوبی کوریاکے صدرمون جائے اِن سے انہوں نے شمالی کوریا کے معاملے پربات کی۔جاپان کے وزیر اعظم آبے نے1945سے چلے آرہے تنازع کوختم کرنے سے متعلق وسیع تر مذاکرات پرآمادگی ظاہرکی۔چندماہ قبل جاپان اورروس نے ایک سمندری راہداری اور ٹرانس سائبیرین ریلوے لائن کے ذریعے جاپانی مصنوعات کوروس تک پہنچانے کی جوکامیاب مشق کی تھی،اس میں مزیدعملاً اضافہ دیکھنے میں آرہاہے۔سرکاری اراضی،مواصلات،بنیادی ڈھانچے اورسیاحت کے نائب وزیرتشی ہیرومستوموتونے عالمی میڈیاکے ساتھ بات کرتے ہوئے کہاکہ روس کی5772میل کی ریلوے لائن میں دوطرفہ تجارت کوغیرمعمولی حدتک فروغ دینے کی سکت موجودہے جبکہ ان دونوں ممالک کے درمیان تجارت سمندرکے راستے ہو رہی ہے یاپھرفضاکے راستے۔جاپانی مصنوعات کوبحرہندکے راستے روس تک پہنچنے میں کم وبیش62دن لگتے ہیں۔فضائی راستے سے تجارت بہت مہنگی پڑتی ہے۔نئی راہداری کھلنے سے شپنگ کاوقت بھی گھٹے گااورلاگت میں بھی 40فیصد تک کمی واقع ہوگی۔گویاخطے کے سب سے مضبوط امریکی اتحادی جاپان اب انتہائی سنجیدگی سے روس کے ساتھ تجارتی تعلقات کوبڑھانے کی عملی کوششوں میں مصروف ہے، گویا یہ جہاں روس کی کامیابی نظرآرہی ہے وہاں درپردہ چین کی کوششیں بھی بارآوردکھائی دے رہی ہیں۔
2017میں روس اورجاپان نے سرکاری سرپرستی میں بنیادی ڈھانچے کوفروغ دینے کیلئے مشترکہ ترقیاتی فنڈ قائم کرنے پررضا مندی ظاہر کی۔مرلی جزائرکی ملکیت کامسئلہ حل ہوتے ہی جہاں یہ فنڈ تیزی سے پروان چڑھے گا وہاں دونوں ممالک بنیادی ڈھانچے کوزیادہ سے زیادہ فروغ دینے کی سمت تیزی سے بڑھنے کیلئے کوشاں ہیں۔روس کوجنوب مشرقی،جنوبی اوروسط ایشیا میں اپنے کردارکووسعت دینے کی تحریک اس لیے بھی ملی ہے کہ چین کواپنے میڈاِن چائنا2025ایجنڈے کے حوالے سے امریکا کی طرف سے غیر معمولی دباؤکاسامناہے۔دوسری طرف جاپان،جنوبی کوریااوربھارت نہیں چاہتے کہ انہیں امریکا،چین یا کسی اورملک پربہت زیادہ انحصار کرنا پڑے۔ اس حوالے سے اعتدال اور توازن قائم کرنے کی کوششیں تیزہوتی جارہی ہیں۔چین کسی اورملک کوناراض کیے بغیرروس اورخطے کی تمام ابھرتی ہوئی طاقتوں کے درمیان پل کاکردارعمدگی سے ادا کررہاہے۔
بھارت نے ایک مرتبہ پھرروس سے تعلقات بہتربنانے پرخاص توجہ دی ہے۔سردجنگ کے دورمیں بھارت کاجھکاؤسوویت یونین کی طرف رہااورحقیقت تویہ ہے کہ اس نے امریکا اوریورپ سے بھی خوب فوائدبٹورے۔سردجنگ کے خاتمے اورسوویت یونین کی تحلیل کے بعدبھارتی قیادت نے روس کوزیادہ اہمیت نہیں دی۔اب برہمن سوچ نے انہیں مجبورکردیاہے کہ روس پرتوجہ دی جانی چاہیے کیونکہ وہ اپنے مسائل کوبہت حدتک حل کرچکاہے اوروسیع ترعلاقائی وعالمی کرداراداکرنے کی پوزیشن میں آچکاہے۔ دونوں ممالک نے سویلین نیوکلیئرٹیکنالوجی،میزائل ٹیکنالوجی اورچنددوسرے اہم شعبوں میں اہم معاہدے کیے ہیں۔روس،جوسویلین نیوکلیئرری ایکٹر بنانے والا سب سے بڑاملک ہے،بھارت میں نیوکلیئرفیول اسمبلیزتیارکرے گا۔روس نے بھارت کوکوچارکرائویک کلاس کے فریگیٹس فراہم کرنے کا معاہدہ کررکھاہے،جس میں2 فریگیٹس ڈھائی ارب ڈالرکی لاگت سے بھارت میں تیارہورہے ہیں۔
2019 میں ایک سال کے دوران پیوٹن اورمودی کی پانچ ملاقاتیں ہوئیں۔دونوں رہنماؤں نے اس بات کاعندیہ دیاکہ دوطرفہ تعلقات کو 1950کے عشرے کی سطح تک لے جایا جائے۔روس کابھارت کی طرف متوجہ ہونابہت اہم ہے کیونکہ چارپانچ سال کے دوران دونوں ممالک کے تعلقات قابلِ رشک نہیں رہے اوراس دوران امریکانے بھارت کواپنے دائرہ اثرمیں رکھنے کی بھرپورکوشش کی ہے اور اب دونوں ممالک ایک دوسرے کوخوب سمجھتے ہیں کہ ایک دوسرے کوکہاں کہاں اورکس مدمیں استعمال کیاجاسکتاہے۔اس دوران روس مسلسل چین سے ہٹ کربھی بہت کچھ کرنے کی کوششیں کررہاہے۔ وہ جاپان،جنوبی کوریا،ویتنام اوربھارت پر بھرپورتوجہ دے رہاہے،جس سے یہ اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ روسی قیادت کواپنی بڑھتی ہوئی قوت کااحساس ہے اوروہ چاہتی ہے کہ اس قوت کوعمدگی سے بروئے کاربھی لایا جائے۔
پیوٹن نے2018 میں جس عظیم یوریشین اکمانک پارٹنرشپ کا اعلان کیا تھا،اب ایک مرتبہ پھرروس کاصدرمنتخب ہونے کے بعد وہ اس حوالے سے غیرمعمولی سنجیدہ اورمتحرک دکھائی دے رہے ہیں۔ پیوٹن نے انرجی سپررِنگ قائم کرنے کی بات بھی کی تھی، جوروس، چین، جاپان اورجنوبی کوریاکوجوڑے گا۔ جاپان کے جریزے ہوکائیڈواورروس کے جزیرے سخالین کوریل اورروڈ لنک کے ذریعے جوڑنے کا پلان سرِفہرست ہے۔اگرایساہو گیاتوپورے خطے میں تجارت اورتوانائی کے حوالے سے انقلاب برپا ہو جائے گا۔یقیناامریکااتنی آسانی سے اپنی سپرمیسی کو لاحق خطرات کے جواب میں خاموش تونہیں بیٹھے گا،اسی لئے یوکرین جنگ میں الجھانے کاجوعمل شروع کیاگیاہے،اس کو اب ایک نئے اندازسے آگے بڑھانے کی پالیسی پرعملدرآمدشروع ہوچکاہے لیکن کیا امریکاایک مرتبہ پھردنیاکی واحد سپرپاور کا اعزاز برقرار رکھنے کیلئے پاکستان اورافغانستان کی طرح یوکرین کوبھی قربانی کابکرا بنانے میں کامیاب ہوجائے گا؟اب شایدیہ ممکن نہیں ہوگا کیونکہ یورپی عوام اب امریکاکودنیاکی واحدسپرپاوربنانے کیلئے مزیدمالی اورجانی قربانی دینے کوتیارنہیں ہوں گے۔