... loading ...
حمیداللہ بھٹی
ایرانی صدر ابراہیم رئیسی ایک ایسے پُراسرار ہوائی حادثے میں خالقِ حقیقی سے جا ملے ہیں جس کے کئی ایک پہلو پوشیدہ ہیںجن کی وضاحت اب شاید تاریخ ہی کرے۔ اتوار کو ڈھلتی دوپہر صدررئیسی جس ہیلی کاپٹر پر سوار تھے وہ سرحدی علاقے میں اچانک لاپتہ ہو گیااور تلاشِ بسیار کے نہ ملا مگرقافلے میں شامل دوسرے دونوں ہیلی کاپٹربحفاظت منزلِ مقصودپر پہنچ گئے ۔لاپتہ صدرکی تلاش کے لیے ایران نے ہمسایہ ممالک سے مددکی درخواست کردی کہ شایددُھند کی وجہ سے صدرکی فضائی سواری نے کہیں کسی ہمسایہ ملک کی سرحدہی عبورنہ کرلی ہو۔ ایرانی درخواست پر ترکی، آذربائیجان ،عراق ، آرمینیاسمیت کئی ملک سُرعت سے حرکت میں آئے لیکن رات بھرکوشش کے باوجود لاپتہ ہیلی کاپٹر کو تلاش کرنے میں ناکام رہے۔ اِس دوران ملک کوانتشاروافراتفری سے بچانے کے لیے ایرانی قیادت کے کئی ایک اجلاس ہوئے اور حالات کے اثرات کا جائزہ لیا جاتارہا ۔آخر کارعل الصبح یہ اطلاع آئی کہ سرحدی علاقے میں محوپرواز ترکی کے ایک ڈرون نے ایسے سگنل دیے ہیں جن سے کسی طیارے یا میزائل کی نشاندہی ہوتی ہے۔ ترکی کا مقامی طورپر تیارکیاجانے والا ایک ایساجدید ترین ڈرون ہے جو سامانِ حرب کے ساتھ مسلسل26 گھنٹے پرواز کر سکتا ہے۔ صلاحیتوں کی بناپرہی اِس کا امریکی ڈرون سے موزانہ کیا جاتاہے جس کی پرواز 27 گھنٹے تک محیط ہو تی ہے ۔کردوں کے خلاف کارروائیوں کے ساتھ ترکی ہنگامی حالات میں ڈرون سے مدد لیتا ہے۔
ڈرون سے ملنے والی اطلاع جلد ہی ایرانی حکام کے علم میں لائی گئی جس کے بعد جلدہی تصدیق ہوگئی کہ صدراور وزیرِ خارجہ عبداللہیان سمیت دیگر کو لے جانے والا امریکی ساختہ بدقسمت ہیلی کاپٹرحادثے کا شکارہوکرتباہ ہو گیا ہے اور سبھی سوارخالقِ حقیقی سے جاملے ہیں۔ حالانکہ ایرانی حکام کا اصرارتھا کہ ہیلی کاپٹر نے جس جگہ ہارڈ لینڈنگ کی ہے وہاں پہنچنے کی کوشش کی جارہی ہے جس سے ایران بارے قائم ایسے تاثر کی نفی ہوئی کہ اُس کی ڈرون ٹیکنالوجی جدید ترین ہونے کے ساتھ ہرقسم کے حالات کے لیے موثر ہے۔ اُس کے ڈرون روس اور یوکرین جنگ کے ساتھ کئی ممالک کے زیرِ استعمال ہیں لیکن صدر کے ہیلی کاپٹر کا ملبہ تلاش کرنے میں قطعی ناکام رہے۔ سوالات تو یہ ہیں کہ اگر ہیلی کاپٹر ازکار رفتہ تھا اور موسم کی خرابی سے سانحہ پیش آیاہے تویہ دریافت کرنا بنتاہے کہ موسم کی خرابی کے باوجود صدرکو روانہ کیوں کر دیا گیا نیز حفاظت پر مامور دونوں ہیلی کاپٹر فرائض چھوڑ کر واپس کیوں لوٹ آئے؟ اور اگر حادثے کے شکارہیلی کاپٹرسے رابطہ منقطع ہو گیاتھا تو تلاش کرنے اور کمک طلب کرنے میں لاپروائی اور سستی کیوں کی گئی؟یہ سوالات حادثے کو پُراسرار بناتے ہیں جن کی روشنی میںخدشات ظاہر کیے جارہے ہیں کہ حادثہ ہوانہیں بلکہ کرایاگیا ہے جس میں اُن قوتوں کا ہاتھ ہوسکتا ہے جوایرانی مفاد کے منافی سرگرم ہیں۔
ملک کو کسی نئی سیاسی افتادسے محفوظ رکھنے کے لیے حادثاتی موت کی تصدیق سے قبل ہی ایران کے نائب صدر محمد مخبر نے صدارتی اختیارات سنبھال لیے ایران کا آئین کہتا ہے ایسی صورتحال میں پچاس روز کے اندر نئے صدرکا انتخاب کرایاجائے۔ رئیسی کے اچانک منظرسے غیاب کو کئی پہلوئوں سے دیکھا جارہاہے نہ صرف ملک میں سیاسی بے یقینی کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے بلکہ خطے میں ایرانی کردار میں کسی حدتک تبدیلی کی بھی توقع ظاہر کی جارہی ہے کیونکہ مرحوم صدر اپنے سخت گیر اور قدامت پسندانہ خیالات کی وجہ سے امریکہ ،مغربی ممالک اور اسرائیل کی طرف سے اکثرتنقید کی زد میں رہتے تھے، اُنھیں مستقبل میں ملک کا سپریم لیڈر بنانے پر بھی کام ہورہا تھا۔ وہ ملک کی گارڈین کونسل کے پسندیدہ ترین تھے۔ اسی لیے اصلاح اور اعتدال پسندامیدواروں کو نااہل قراردے کر صدارتی انتخاب سے باہر کردیا گیا جس سے ابراہیم رئیسی کو ملک کاآٹھواں صدر بنانے کے لیے میدان صاف اور ہموار ہواجس کی بدولت وہ آسانی سے2021میں صدر منتخب ہو گئے ۔
رئیسی اگر ملک کے اندر اور باہر کئی لوگوں کے پسندیدہ تھے تو اُن کی شخصیت کئی حوالوں سے تنقید کی زد میں رہی بلخصوص ایک متنازع عدالتی کمیشن میں جانبدارانہ کردارپراکثر اُنگلیاں اُٹھائی جاتی ر ہیں۔ علاوہ ازیں بے حجاب ہونے کی وجہ سے مہساامینی کی حراست کے دوران ہونے والی موت کے بعد جنم لینے والے پُرتشد د مظاہروں پر بھی اُنھیں مسلسل تنقید کاسامنارہا لیکن پونے تین سالہ دورِ صدارت میں وہ ذراٹس سے مس نہ ہوئے بلکہ اپنے عزم و اِرادوں پر ثابت قدم رہے، حالانکہ پُرتشدد مظاہروں میں سینکڑوں لوگ نہ صرف ہلاک و زخمی و لاپتہ ہوگئے ،لاپتہ ہونے والوں کے بارے اب بھی واقفان حلقوں کا خیال ہے کہ ریاستی اِداروں کی تحویل میں ہیں۔ ملک میں انتشارو افراتفری کے ا یام میں ثابت قدم رہنا ظاہر کرتا ہے کہ رئیسی کو قدامت پسندی کے عوض کسی قسم کے خطرات کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔ شاید اسی لیے مستقبل میں ملک کا سپریم لیڈر بنائے جانے کی قیاس آرائیاں ہو رہی تھیں مگراب اچانک وفات نہ صرف کئی سوالات چھوڑ گئی ہے بلکہ ملک میں سیاسی خلا کا خدشہ بھی قوی ترہے۔
مرحوم صدرنے اپنے دورِ صدارت میں کئی ایسے کام کیے جن سے امن کے قیام میں مددملی گزشتہ برس 2023میں چین کی ثالثی میں سعودی عرب سے ہونے والے مذاکرات کے دوران منقطع تعلقات بحال کیے ۔یہ ایسافیصلہ تھا جو امریکہ سمیت مغربی ممالک کے لیے خاصاحیران کُن تھا جنھیں بات چیت کے سواکسی فیصلے کے بارے میں بھنک تک نہ پڑنے دی گئی۔ اِس فیصلے سے نہ صرف عرب ممالک سے لاحق خطرات سے ایران کو محفوظ بنایا بلکہ مسلم اُمہ کے اتحادکی طرف بھی پیش رفت ہوئی۔ ایران سعودیہ مذاکرات نتیجہ خیز ہونے سے قبل ایسی اطلاعات گردش کررہی تھیں کہ جوہری حوالے سے ایران کا سخت رویہ عرب ممالک کے لیے کسی طور قابلِ قبول نہیں ہوسکتا لیکن امریکہ ، اسرائیل اور مغربی ممالک سے کشیدگی کے باوجود انھوں نے عرب ممالک کو قائل کر لیاجس کے نتیجے میں رئیسی اور شامی صدربشارالاسد نومبرمیںریاض میں منعقدہ عرب لیگ کے ہنگامی اجلاس میں شامل ہوئے اور غزہ پرہونے والے اسرائیلی حملوں کے خلاف عرب ممالک کوہمنوابنانے میں ایران کوآسانی ہوئی ۔اب خیال کیا جارہا تھا کہ یمن میں امن کے حوالے سے بھی ایران اور سعودیہ ایک ایسی مفاہمت کے قریب ہیں جس سے لڑائی کاخاتمہ ہومتحارب گروپوں کی حمایت میں سرگرم دونوں ممالک کا یہ فیصلہ بھی حیران کُن تھا اسی طرح امریکہ سے کشیدگی کے باوجود ایران نے بھارت سے معاشی و تجارتی تعاون بڑھانے کے لیے چاہ بہاربندرگاہ کے حوالے سے دس سالہ معاہدہ کیااور بھاری سرمایہ کاری کے معاہدے سے نہ صرف جمودکا شکار ایرانی معیشت بنانے کی کوشش کی۔ اِس معاہدے سے شام ،عراق،ترکی ، جارجیا اور وسطی ایشیائی ریاستوں تک بھارت کی رسائی بھی آسان ہو جائے گی۔ یہ فیصلہ ثابت کرتا ہے کہ بھارت کاخطے میں ایران ایک بااعتماد اورایساقابلِ قدر دوست ہے جوبھارت سے تعلقات بڑھانے میں کسی ہمسائے یا عالمی طاقت کی پسندیا ناپسند کو خاطر میں نہیں لاتا۔
ایران امریکہ کے درمیان گزشتہ برس 2023میں قیدیوں کے تبادلے کی منظوری صدررئیسی کاایک ایسادلیرانہ فیصلہ تھا جس سے نہ صرف ایران پر عالمی دبائو کم ہوا بلکہ اِس کے عوض کوریا میں منجمد چھ بلین ڈالر تک ایران کی رسائی ممکن ہوئی شام میں ایرانی سفارتخانے پر اسرائیلی حملے کے جواب میں متوقع ایرانی کاروائی سے ایک بڑی جنگ کے خدشات ظاہر کیے گئے مگر ایران کی محتاط کاروائی نے ایسے تمام خدشات کو معدوم کر دیا اسی طرح رواں برس جنوری میںایک مسلح گروپ جیش العدل کے ٹھکانوں پرایران کے فضائی حملے کے نتیجے میں جب پاک ایران کشیدگی پیداہو گئی اورناراضگی میں پاکستان نے ایران سے اپنا سفیر بھی واپس بُلا لیا تو رئیسی نے مُضمرات کابروقت ادراک کرتے ہوئے دونوں ممالک میں تنائوختم کرانے کی کوشش کی اور پھر پاکستان کی جوابی کاروائی پر بھی تحمل وبردباری کا مظاہرہ کیاجس سے دونوں ممالک میں تعلقات نہ صرف جلد معمول پر آگئے بلکہ رئیسی کے دورے کی راہ ہموار ہوئی جس کے دوران دونوںممالک میں تجارت وتعاون بہتر بنانے کے کئی ایک معاہدے ہوئے پاک بھارت تنائو کے باوجود دونوں ممالک سے قریبی تعاون ایرانی قیادت کی فہم و فراست کا نتیجہ ہے۔
ویسے تو ایران کے آئین کے مطابق ایک88رُکنی ماہرین کی اسمبلی سپریم لیڈر کے جانشین کاانتخاب کرنے کی مجاز ہے لیکن یہ اِس حوالے سے مکمل طورپر خود مختار نہیں بلکہ سپریم لیڈر کے جانشین کے انتخاب سے قبل اسمبلی کے اراکین کوبارہ رُکنی ایک ایسی طاقتور گارڈ کونسل جانچتی ہے جو انتخاب سے لیکرقانون سازی کی نگرانی کرتی ہے۔ سپریم لیڈر کے جانشینوں کے نام راز میں رکھنے کی کوششوں کے باوجود چند ماہ سے شنید تھی کہ تین افراد آیت اللہ خمینی کے پوتے حسن خمینی،موجودہ سپریم لیڈرکے صاحبزادے مجتبیٰ خامنائی اور صدررئیسی کے نام شارٹ لسٹ کرلیے گئے ہیں۔ رئیسی کی موت سے ایک ممکنہ سپریم لیڈرتو راستے سے ہٹ گئے ہیں جس سے اب 56سالہ عالم دین مجتبیٰ خامنائی کے سپریم لیڈربننے کی راہ بڑی حدتک ہموار ہو گئی ہے لیکن کیاہنگامی حالات میں نئے سپریم لیڈر اور نئے صدر دونوں ابراہیم رئیسی جیسی فہم و فراست اورتدبر وحکمت کا مظاہرہ کر سکیں گے اورکیا بروقت فیصلوں سے ایران کولاحق خطرات سے بچاپائیں گے ؟ اِس کا جواب وقت، تاریخ ،حالات وواقعات اور مقامی وعالمی سیاست پر چھوڑنا بہتر ہے۔ البتہ یہ طے ہے کہ رئیسی کی اچانک موت کے اثرات دہائیوں تک محسوس ہوتے رہیں گے ۔وہ نہ صرف اُمت مسلمہ کے ایک اہم ،بہادراور ذہین رہنما تھے بلکہ امن کے حوالے سے بھی اُن کاکردار قابلِ قدر ہے جن کی وفات ایران کے ساتھ اُمتِ مسلمہ کا بھی ناقابلِ تلافی نقصان ہے۔ اُن کی ناگہانی موت سے خطے میں ہونے والی کئی مثبت تبدیلیوں کی رفتارسست ہو سکتی ہے اِس نازک مرحلے میں حادثے کی درست چھان بین اور معاملات کو گہرائی تک جانچنے سے آئندہ کا لائحہ عمل مرتب کرنے میں مدد مل سکتی ہے ۔