وجود

... loading ...

وجود

پاکستان بنانا ری پبلک؟

هفته 25 مئی 2024 پاکستان بنانا ری پبلک؟

میری بات/روہیل اکبر
پاکستان بنانا ری پبلک بن چکا ہے۔ یہ وہ الفاظ ہیں جنہیں ہمارے ہر سیاستدان نے اپنی زبان سے ادا کیے ہیں ہمارے یہ سیاستدان جب اقتدار میں ہوتے ہیں توکاش یہ اپنے وہ الفاظ یادرکھتے جو انہوں نے اقتدار سے باہر رہتے ہوئے ادا کیے تھے ۔شایدپاکستان بنانا ری پبلک جیسے الفاظ سے باہر نکل آتا ۔ابھی کل ہی مولانا فضل الرحمان ، عمر ایوب اور اسد قیصر کی ملاقات ہوئی جس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ان رہنمائوں کا کہنا تھا کہ آج پاکستان میں آئین نام کی کوئی چیز ہے ہی نہیں اور نہ ہی کہیں سے کوئی سرمایہ کاری آرہی ہے کیونکہ اس وقت ملک میں عدل و انصاف نہیں اور ملک بنانا ری پبلک بن چکا ہے ۔ چلو آج ہم پھر بنانا ری پبلک یعنی کیلے کی جمہوریت پر ہی بات کرتے ہیں کہ یہ ہے کیا اور اسکی ابتدا کہاں اور کیسے ہوئی ؟
کیا پاکستان واقعی کیلے کی جمہوریت والا ملک بن چکا ہے ۔ بنانا ری پبلک کا لفظ سب سے پہلے 1904 میں امریکی مصنف O. Henry نے وضع کیا تھا جو ایک سیاسی اور اقتصادی طور پر غیر مستحکم ملک کی وضاحت کرتا ہے جس کی معیشت صرف قدرتی وسائل پر منحصرہو اور انتہائی طبقاتی سماجی طبقات کا معاشرہ ہو غریب محنت کش طبقہ اور حکمران طبقے کا واضح فرق ہو تسلط پسندی کا رواج ہو۔ کاروبار اور حکومت سیاسی اور فوجی اشرافیہ پر مشتمل ہو۔ حکمران طبقہ محنت کشوں کے استحصال کے ذریعے معیشت کے بنیادی شعبے کو کنٹرول کرتا ہو۔ کیلے کی جمہوریہ کی اصطلاح ایک غلام طبقے کے لیے ایک طنزیہ جملہ بھی ہے جہاں کک بیکس لیے جاتے ہوں اور پھر ڈھٹائی سے انکا دفاع بھی کیا جاتا ہو۔ کیلے کی جمہوریہ ایک ایسا ملک ہوتا ہے جس کی معیشت ریاستی سرمایہ داری کی ہو جس کے تحت ملک کو حکمران طبقے کے خصوصی منافع کے لیے نجی تجارتی ادارے کے طور پر چلایا جاتا ہو اور اس طرح کا استحصال ریاست اور پسندیدہ معاشی اجارہ داریوں کے درمیان ملی بھگت سے ہوتا ایسے ملک میں قرضوں کی بھر مار ہوتی ہے۔ حکمران طبقہ قرضہ حاصل کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتا ہے۔ ملکی اثاثے گروی رکھ دیتا ہے ۔لیکن ان قرضوں کو عوام پر لگانے کی بجائے خود ہضم کر جاتا ہے اور ان قرضوں کی مالی ذمہ داری سرکاری خزانے کی ہوتی ہے۔ اس طرح کی غیر متوازن معیشت ملک میں غیر مساوی اقتصادی ترقی کی وجہ بھی بنتی ہے اور عام طور پر قومی کرنسی کو قدرے کم کر کے بینک نوٹ (کاغذی کرنسی) میں تبدیل کر دیتی ہے۔ یوں ملک بین الاقوامی ترقیاتی کریڈٹ کے لیے نااہل ہو جاتا ہے۔ 20ویں صدی میں امریکی مصنف او ہنری نے کیبیز اینڈ کنگز کتاب میں افسانوی جمہوریہ اینچوریا کو بیان کرنے کے لیے کیلے کی جمہوریہ کی اصطلاح وضع کی جس کی معیشت کا بہت زیادہ انحصار کیلے کی برآمد پر تھا۔20 ویں صدی کے اوائل میں یونائیٹڈ فروٹ کمپنی ( ایک ملٹی نیشنل کارپوریشن) نے کیلے کی جمہوریہ کے رجحان کی تخلیق میں اہم کردار ادا کیا۔ اس کمپنی نے دیگر کمپنیوں کے ساتھ مل کر اور امریکی حکومت کی طاقت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مختلف ممالک میںسیاسی، اقتصادی اور سماجی حالات میں ابتری پیدا کی جس کے بعد وہاں کی منتخب جمہوری حکومت میں بغاوت ہوئی اور پھر کیلے کی جمہوریہ قائم کردی گئی ۔ان میں ابتدائی طور پر وسطی امریکی ممالک جیسے ہونڈوراس اور گوئٹے مالا شامل ہیں۔ سادہ لفظوں میں اسکی مثال ایسٹ انڈیا کمپنی کی سمجھ لیں جو تجارت کی غرض سے ہندوستان آئی اور پھر کیسے انہوں نے پورے برصغیر پر قبضہ کرکے اس سونے کی چڑیا میں لوٹ مار کی اور انہی کی باقیات ابھی تک ہم پر مسلط ہیں۔
میں بات کررہا تھا کیلے کی ریاست کی ابتدا کی تاکہ عام انسان کو بھی اندازہ ہو سکے کہ کیسے ایک پلاننگ کے تحت ملک کو تباہ و برباد کرکے بناناری بپلک بنایا جاتا ہے اور اسکی ابتدا کہاں سے ہوئی اسکا تو ذکر کردیا۔ اب اسکی کچھ اور تفصیل بھی ملاحظہ فرمالیں19ویں صدی کے آخر تک تین امریکی ملٹی نیشنل کارپوریشنز (UFC، سٹینڈرڈ فروٹ کمپنی، اور Cuyamel Fruit Company) نے کیلے کی کاشت، کٹائی اور برآمد پر غلبہ حاصل کر کے ہونڈوراس کی سڑک، ریل اور بندرگاہ کے بنیادی ڈھانچے کو کنٹرول کرلیا اورپھر ہنڈوران کی قومی سیاست کو مزدور مخالف تشدد سے جوڑ دیا ۔20 ویں صدی کے اوائل میں امریکی تاجر سیم زیمرے (کیومیل فروٹ کمپنی کے بانی) نے “کیلے کی جمہوریہ” کے دقیانوسی تصور کوحقیقت کا رنگ دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ وہ یونائیٹڈ فروٹ کمپنی سے زیادہ پکے ہوئے کیلے خرید کر کیلے کی برآمد کے کاروبار میں داخل ہوئے اور 1910 میں زیمورے نے کیومیل فروٹ کمپنی کے استعمال کے لیے ہونڈوراس کے کیریبین ساحل میں 6,075 ہیکٹر (15,000 ایکڑ) زمین خریدی 1911 میں زیمورے نے ہونڈوراس کے سابق صدر مینوئل بونیلا (1904–1907) اور امریکی باڑے لی کرسمس کے ساتھ مل کر ہونڈوراس کی سول حکومت کا تختہ الٹنے اور غیر ملکی کاروبار کے لیے دوستانہ فوجی حکومت قائم کرنے کی سازش کی ۔اس مقصد کے لیے کرسمس کی قیادت میں Cuyamel Fruit Company کی کرائے کی فوج نے صدر Miguel R. Dávila (1907–1911) کے خلاف بغاوت کی اور بونیلا (1912–1913) کومسلط کردیا۔اس تمام غیر قانونی کھیل کو ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے منتخب حکومت کی معزولی کو نظر اندازکرتے ہوئے امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے ڈیویلا کو سیاسی طور پر بہت زیادہ آزاد خیال اور ایک غریب تاجر کے طور پر پیش کیا گیا جس کی انتظامیہ نے ہنڈوراس کو برطانیہ کا مقروض کر دیا تھا جو کہ جغرافیائی طور پر ناقابل قبول صورتحال ہے ۔اس بغاوت کے نتیجے میں سیاسی عدم استحکام نے ہنڈوران کی معیشت کو روک دیا۔امریکی ڈالر ہنڈوراس کی قانونی کرنسی بن گیا کرسمس ہونڈوران آرمی کا کمانڈر بن گیاجو بعد میں ہونڈوراس میں امریکی قونصل مقرر ہوا اسی طرح گوئٹے مالا کوبھی ایک ‘کیلے کی جمہوریہ’ کی علاقائی سماجی و اقتصادی میراث کا سامنا کرنا پڑا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے سیاستدان پاکستان کے بارے میں جو بنانا ری پبلک جیسے الفاظ استعمال کرتے ہیں ان میں کتنی حقیقت ہے اگر خدا نخواستہ ہم واقعی بنانا ری پبلک کی طرف جارہے ہیں تو اس میں قصور کس کا ہے بریانی کی پلیٹ پر بکنے والے عوام کا یا پھر لوٹ مار کرنے والی اشرافیہ کا ؟


متعلقہ خبریں


مضامین
خرم پرویز کی حراست کے تین سال وجود منگل 26 نومبر 2024
خرم پرویز کی حراست کے تین سال

نامعلوم چور وجود منگل 26 نومبر 2024
نامعلوم چور

احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر