... loading ...
جاوید محمود
پانامہ لیک کے کئی سال بعد عالمی رہنماؤں سیاست دانوں اور دیگر طاقتور افراد کی خفیہ دولت کی تفصیلات کے حوالے سے دبئی ان لاکڈ کے نام سے ایک اور لیک سامنے آگئی ہے۔ موجودہ صورتحال میں پاکستان کو کئی بحرانوں کا سامنا ہے۔ ایک طرف پاکستان قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہے لیکن اس ملک کا حکمران طبقہ بیرون ملک جائیدادیں پنانے میں مصروف ہے ۔دبئی ان لاکڈ کی تفصیلات کے مطابق دنیا بھر کے چوٹی کے امیر افراد کی دبئی میں اربوں ڈالرز کی جائیدادیں موجود ہیں۔ دبئی میں غیر ملکیوں کی 389 ارب ڈالرز کی جائیدادیں ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ ان جائیدادوں کے مالکان میں سر فہرست روس کے طاقتور افراد بتائے گئے ہیں۔
دبئی میں جائیدادیں رکھنے والوں میں پاکستان سمیت دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد بھی شامل ہیں۔ دبئی ڈیٹا لیک میں 17ہزار پاکستانی شہری دبئی میں رہائشی املاک کے مالکان کے طور پر ظاہر کیے گئے ہیں۔ ڈیٹا میں پاکستانیوں کی جانب سے ریئل اسٹیٹ سیکٹر میں کل سرمایہ کاری کی مالیت ساڑھے 12 ارب ڈالرز بتائی گئی ہے۔ عالمی سرمایہ کاری کی فہرست میں دبئی رہائشی جائیداد کی خرید و فروخت میں پاکستان کا چوتھا نمبر ہے۔ سیاست دانوں میڈیا سے تعلق رکھنے والے افراد بڑی کاروباری شخصیات اور ملٹری افسران کے نام بھی دبئی لیک میں شامل ہیں ۔ہم ان باثر افراد کی دولت جائیداد اور اثاثوں کی مخالفت تو نہیں کرتے ،ہو سکتا ہے جائز ذرائع ہوں لیکن یہ سارے لوگ حکومت میں ہوتے ہوئے یا حکومتی شخصیات کی قربت میں ہی ترقی کیوں کرتے ہیں؟ حکمرانوں کو ہی تحائف کیوں ملتے ہیں اور تحائف بھی اس وقت کہ یا تو وہ حکومت میں آرہے ہوں یا حکومت سے جا رہے ہوں؟کیا حکومت میں آنے والے ہوں یا پھر کسی کی حکومت کے لیے مسائل پیدا کر رہے ہوں؟ کیا یہ صرف اتفاق ہے ایسا کیوں ہے جو بھی لوگ اس فہرست میں شامل ہیں کیا ان کے زیر انتظام چلنے والے اداروں میں لوگ خوشحال ہیں ؟کیا ان اداروں کے سینکڑوں لوگوں کو وہی خوشحالی میسر ہے ۔پراپرٹی لیکس کو کسی کے لیے بھی ایمانداری یا بے ایمانی کا پیمانہ تو نہیں بنایا جا سکتانہ ہی پانامہ لیک کو پیمانہ بنایا جا سکتا ہے لیکن سوال تو یہ ہو سکتا ہے کہ طاقت اور افراد حکمران طبقہ امیر اور ملک غریب کیوں ہوتا جا رہا ہے؟ صرف دو تین فیصد افراد کی دولت جائیداد و اثاثوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ۔یعنی باس اور افراد تو مالی طور پر مضبوط ہو رہے ہیں اور ملک قرضوں کے دلدل میں پھنستا جا رہا ہے۔ یہ تو نہیں ہو سکتا کہ سب اچھا ہے، ملک انتظامی طور پر بھی مضبوط ہو اور اسے قرضوں کی بھی ضرورت ہو اس بدحالی کا ذمہ دار پاکستان کا عام شہری تو نہیں بلکہ یہی حکمران طبقہ ہے۔ اس میں سرکاری افسران کا بھی حصہ ہے۔ عام آدمی کے لیے تودو وقت کی روٹی مشکل تر ہوتی جا رہی ہے۔ اس لیے یہ سوالات ضرور سامنے آتے ہیں۔
یہ بات طے ہے کہ جن جن لوگوں نے بھی جائیدادیں بنائی ہیں ان کی بنیاد تو پاکستان ہی ہے سب کچھ پاکستان کی وجہ سے ہی کمایا گیا ہے سب کچھ پاکستانی سے بنایا گیا ہے۔ سب آسائشیں اور سہولتیں پاکستان سے ہی حاصل کی گئی ہیں۔ کاش یہ مال و دولت بنانے والے کچھ خیال پاکستان کے کروڑوں لوگوں کا بھی کریں۔ اپنے اداروں میں کام کرنے والے سینکڑوں افراد کا بھی خیال کریں۔ ان کا طرز زندگی بلند کرنے پر بھی زور دیں۔ کہیں تو ملک کا خیال کریں۔ ملک کے قرضے اتارنے کے لیے بھی کوئی حکمت عملی اور منصوبہ بندی تیار کریں جیسے اپنے اداروں کو مضبوط اور خود مختار بنانے کے لیے کام کرتے رہے ہیں، اپنی جائیدادیں بنانے والوں سے سوال ہے کہ ملک کے لیے بھی کچھ کریں۔ اتنے مالدار حکمران ہوں اور ملک قرضوں کے لیے عالمی اداروں کے سامنے ہو۔ اتنے مالدار حکمران ہوں اور ہم ہر وقت قرضوں کے لیے دوست ممالک کی طرف دیکھتے رہیں۔ یہ ظلم نہیں تو اور کیا ہے؟ اس کا بھی کوئی حساب بہرحال ہونا چاہیے دبئی لیک میں کسی مالیاتی جرائم کے پیسوں سے خریدی گئی جائیدادوں کا ثبوت نہیں اور نہ ہی آمدنی کے ذرائع رینٹ کی مد میں ٹیکس ڈیکلریشن جیسی معلومات شامل ہیں ۔تاہم سیاسی پنڈتوں کا ماننا ہے کہ ایسے حالات میں جہاں ایک طرف پاکستان کی ڈوبتی معیشت کو بچانے کے لیے عالمی مالیاتی فنڈ آئی ایم ایف سمیت دیگر ممالک سے بھی مدد کی امید لگائے بیٹھا ہے ۔وہیں دوسری طرف بڑی اور سیکڑوں پراپرٹیز رکھنے والے پاکستانیوں کے نام سامنے آنے پر ملکی سیاست اور حالات میں تنا ؤآ سکتا ہے۔ دبئی میں رہائشی جائیداد کی ضرورت خرید و فروخت میں عالمی سطح پر پاکستان کا دوسرا نمبر ہے اور پاکستانی شہریت والے 17ہزار مالکان کی دبئی میں 23 ہزار جائیدادیں ہیں۔ تیکنیکی طور پر اعلیٰ مالی فوائد والے ذمروں یا درجات میں سمجھداری سے سرمایہ کاری کرنے کے لیے دبئی پراپرٹی مارکیٹ ایک بہترین مثال ہے۔ یہ فری مارکیٹ کیپٹلزم کا نچوڑ ہے۔ درحقیقت دبئی کے نام نہاد لیکس میں بے نقاب ہونے والے زیادہ تر لوگوں نے واضح کیا ہے کہ انہوں نے مکمل طور پر قانونی سرمایہ کاری کی جس کا باقاعدہ اعلان کیا گیا اور یہ معاملہ ان کے لیے ختم ہو جائے گا۔ اگر بیان کردہ سرمایہ کاری ظاہرمیں کی جائے منی ٹریل مشکوک ہو اور سرمایہ کاروں کی آمدن سے مطابقت نہ رکھتی ہو تو مسائل خود بخود کھڑے ہو جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ امارات میں غیر ملکی شہریوں کی جانب سے خریدی گئی املاک کی کل تعداد اور مالیت کے اعتبار سے پاکستانی دوسرے نمبر پر ہیں چونکہ ان میں سے بہت ساری خریداریاں ریٹائرڈ بیوروکریٹس سیاست دان قد آور با اثر شخصیات کی ہیں۔ تاہم ان کی بیان کردہ آمدنی اس قدر نہیں کہ وہ دبئی مارکیٹ میں اس سے جائیداد دیں خرید سکیں ۔بیشتر عام پاکستانی ایف بی آر سے توقع کر رہے ہیں وہ آنے والے دنوں میں بہت زیادہ مصروف رہے یہ انکشافات ایسے وقت میں ہوئے ہیں جب ملک اور اس کے بیشتر شہری خوفناک معاشی خواب سے دوچار ہیں۔ تاریخ کی بدترین مہنگائی بے روزگاری حکومت کے پاس زر مبادلہ ختم ہونے کے سبب آئی ایم ایف کی اختیاری اور مروجہ پالیسیوں کے سبب معیشت کی یرغمالی نے پچھلے چند سالوں میں لاکھوں پاکستانیوں کو خط غربت سے نیچے دھکیل دیا ہے۔ بہرحال ایف بی آر کے پاس جمع کرنے کے لیے ڈیٹا کا ایک خزانہ موجود ہے۔ بہت سے لوگوں کو بجا طور پر شبہ ہے کہ دبئی رئیل اسٹیٹ میں رکھے ہوئے پاکستانی پیسے اگر سارے نہیں تو کچھ حرام طریقے سے کمائے گئے اور پاکستان سے چوری کیے گئے ہیں۔اس سے پہلے دو حکومتوں نے اس کالے دھن میں سے کچھ کو ایمنسٹی اسکیموں کے ذریعے واپس لانے کی کوشش کی ہے حالانکہ دونوں میں سے کوئی بھی اسکیم زیادہ کامیاب نہیں ہوئی اور جب کہ بہت سے لوگوں نے اس وقت دونوں حکومتوں کے اقدام سے اختلاف کیا اس وقت لٹیروں اور غبن کرنے والوں کو کالا دھن سفید کرنے کی اجازت دینے کے عمل کو انتہائی غیر منصفانہ قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف سخت تحقیقات اور سزا دینے کے عوامی مطالبات بھی سامنے آئے ۔
کوئی شک نہیں کہ حکومت کو یہ معاملہ انتہائی سنجیدگی سے لینا پڑے گا۔ تا ہم معاملات اس پر مزید سنگین ہو جائیں گے جب اسلامی جمہوریہ میں طاقت کے مراکز کے قریب کچھ مقدس گائیوں سے نمٹنے کا وقت آئے گا جب تحقیقات اور شفافیت کے بلند بانگ دعوؤں کو سخت امتحان میں ڈالا جائے گا تو اس وقت حالات کچھ اور ہوں گے متنازع عام انتخابات کے بعد سے حکومت کو عوام کی نظروں میں اپنی کم ساکھ اورقانونی حیثیت کا بخوبی ادراک ہے تاہم اسے یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ اسے جو کرنا ہے خود کرنا ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔