وجود

... loading ...

وجود

عصرحاضرکادہشت گرد

پیر 20 مئی 2024 عصرحاضرکادہشت گرد

سمیع اللہ ملک
دہشت گردی عصرحاضرکی سب سے ہولناک لعنت ہے جس پرہرمہذب ومتمدن دنیااورمعاشرہ پریشان ہے اوراس عفریت سے محفوظ رہنے کیلئے کوشاں بھی ہے مگربھارت واحدملک ہے جس کی موجودہ قیادت متعصب اوراقلیتوں پرزندگی حرام کرنے والا مودی جیساسازشی کررہاہے جودہشت گردی کوہرمعاملے پربڑھاوادینے میں پیش پیش رہتاہیاوراپنی روش پر دیدہ دلیری سے ابھی تک قائم ہے۔مودی کے تمام بازوئے شمشیرزن بشمول راشٹریہ سیوک سنگھ(آرایس ایس)،بجرنگ دل،وشواہندوپریشد،سنیکت ہندوسنگھرش سمیتی،کرنی سینا، سناتن سنستھا،سریرام سینے،ہندوویواواہنی،اب جوبھی دہشتگردانہ کام کرتے ہیں یاتعصب سے مامورجوکرتوت بھی کرتے ہیں انہیں باعث ندامت نہیں سمجھتے بلکہ اعلانیہ اظہارکرنے لگے ہیں۔مودی سرکارکارویہ اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ اس حدتک ظالمانہ ہوچکاہے جس کی مثال خودبھارت ہی کی ماضی میں نہیں ملتی۔کوئی دن ایسا نہیں جاتاجب لوجہا ، گئورکھشا اوراب بچہ چوری کے نام پرکسی مسلمان کوجان سے نہ ماراجاتاہو، کسی کی سرراہ پٹائی نہ ہوئی ہو،اوریہ تمام دہشتگردانہ ظالمانہ کاروائیاں ڈھکے چھپے نہیں ہورہیں،باضابطہ کسی نہ کسی تنظیم کے بینرتلے ہورہی ہیں۔
جولوگ انفرادی طورپران دہشت گردیوں میں ملوث ہیں ،وہ بھی عام طورپرکسی بھگواتنظیم سے وابستہ ہیں اوراس کااظہارکھلے عام کررہے ہیں پھر بھی نجانے ان کے خلاف ان کی تنظیم کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی جاتی۔اگردنیاکودکھانے کیلئے اکا دکاواقعہ میں کوئی کارروائی ہوبھی رہی ہے تومحض دکھاوے کے طورپرکیونکہ ان پرمعمولی قسم کی دفعات لگائی جاتی ہیں تاکہ وہ آسانی سے ضمانت پررہائی پاسکیں ۔ دہشت گردی کی زیادہ ترکاروائیاں راشٹریہ سیوک سنگھ (آرایس ایس)کی ذیلی تنظیمیں جیسے وشواہندوپریشداوربجرنگ دل انجام دے رہی ہیں جبکہ بعض کاروائیاں مخصوص ریاستوں میں سرگرم عمل تنظیمیں کر رہی ہیں جیسے گوا،مہاراشٹر،کرناٹک کی حدتک سناتن سنستھا،جنوبی کرناٹک میں سری رام سینے اوراترپردیش میں ہندودیوا واہنی بعض جگہوں پرنئے نام بھی سامنے آرہے ہیں جیسے ہریانہ میں مسلمانوں کوجمعہ کی نمازنہ پڑھنے دینے کیلئے بھگوا تنظیموں کاایک متحدہ محاذسنکیت ہندوسنگھرش سمیتی سامنے آگیاہے۔پدماوت علم کی مخالفت کے نام پرکھڑی کی گئی تحریک کے وقت کرنی سیناکابینراستعمال کیاگیاجس نے راجستھان اورہریانہ وغیرہ میں طوفانِ بدتمیزی مچایا۔
تنظیمیں چاہے کوئی بھی ہوں ان سب کی فکرایک ہی ہے اورصاف پتہ چلتاہے کہ ان سب تنظیموں کے پیچھے وہی متعصب ذہنیت ہے جس کومودی سرکارنے بڑھاوادیکرخوف کی علامت بنادیا ہے۔ہندورکھشاکے نام پرمسلمانون،عیسائیوں اوردلتوں سے بے انتہا نفرت کااظہاراوراپنے مذموم مقاصد کے حصول کیلئے جھوٹ اورفریب کے ساتھ تشدد اور دہشتگردی کررہے ہیں۔عالمی قوانین کے مطابق ان تمام متعصب اوربیمارذہنیت کی تنظیموں پرفوری پابندی لگنی چاہئے خاص طورپربجرنگ دل پر،کیونکہ سب سے فعال تنظیم یہی ہے جس نے ایک طرح سے پورے بھارت میں دہشتگردی کی کمان سنبھال رکھی ہے۔کہیں یہ براہِ راست میدان میں اترتی ہے اورکہیں اس کے زیراثرافرادیاگروپس سامنے آتے ہیں ۔ماضی میں بجرنگ دل پر پابندی لگائے جانے کا مطالبہ بھارتت کی تمام اہم سیاسی جماعتوں کے قائدین کرتے رہے ہیں جن میں دیویگوڑا،شردپورا،لالوپرشاد،رام دلاس پاسوان ،مایاوتی اورمنیش کمارتیواری کے نام قابل ذکرہیں۔
جب من موہن سنگھ وزیراعظم تھے توسابق وزیراعظم دیویگوڑانے ایک خط لکھ کرشکائت کی تھی کہ بجرنگ دل،کرناٹک اوراڑیسہ میں اقلیتوں کے خلاف جنونی اندازمیں تشددکررہاہے ۔ ایک اورممتازبھارتی رہنمادیرپامائل نے کہاتھاکہ راشٹریہ سیوک سنگھ کی اس ذیلی تنظیم پراس لئے پابندی لگنی چاہئے کہ عام دہشتگردتوچھپ کرحملہ کرتے ہیں جبکہ بجرنگ دل کھلے عام دہشتگردی پھیلارہے ہیں۔یہ بھی کہاگیاکہ جن ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت ہے وہاں پارٹی بجرنگ دل کواپنی بقاکیلئے آکسیجن سمجھتی ہے۔نیشنل کمیشن فارمناریٹیز بھی ایک زمانے میں بجرنگ دل سے عاجزرہاہے اورپابندی لگانے کامطالبہ کرتا رہا۔کمیشن کے وائس چیئرمین مائیکل نپٹونے کرناٹک حکومت پرجب وہ بی جے پی کے تحت تھی،الزام عائد کیاتھاکہ باربارکی یاددہانی کے باوجودبجرنگ دل کوچرچ اورعیسائیوں پرحملوں سے بازنہیں رکھاجاسکا۔وشواہندوپریشدنے جو خودآرایس ایس کی ایک ذیلی تنظیم ہے۔
1984میں بجرنگ دل قائم ہواتھا،اپنے یوتھ ونگ کے طورپرہندوپریشدکواس کی ضرورت یوپی میں ہندوں نوجوانوں کوبابری مسجدپرقبضہ کیلئے شروع کی گئی اورنوجوان متعصب ہندونوجوانوں کواس تحریک میں شامل کرنے کیلئے باقاعدہ ایک سیل بنایاگیا۔ان کی یہ پیشکش اورتحریک اتنی کامیاب رہی کہ جلدہی اسے وسعت دیکرسارے ملک میں پھیلادیاگیا۔ رام جنم بھومی کے حوالے سے جتنی بھی ریلیاں سنگھ پریوارنے نکالیں ان سب میں بجرنگ دل کے کارکن پیش پیش رہے۔1962میں بابری مسجد کی شہادت سے لیکر2002کے گجرات فسادات تک ہرخونخواری میں بجرنگی کارکن براہِ راست ملوث رہے۔نرسمہاراکی حکومت نے بابری مسجدمیں عبادت پرپابندی لگادی تھی لیکن بعدازاں ان پراس قدردباؤ پڑا کہ صرف ایک سال بعدیہ پابندی اٹھانی پڑی۔اس سے پھرسے رہ رہ کرمختلف قومی اورعالمی اداروں کی طرف سے اس کونکیل ڈالنے کامطالبہ ہوتارہا۔ایمنسٹی انٹرنیشنل ہیومن رائٹس واچ،پیپلزیونین فارسول لبرٹیزاورپیپلزیونین فارڈیموکریٹک رائٹس جیسی انسانی حقوق کی تنظیمیں گاہے بگاہے، بجرنگ دل کے کالے کرتوتوں پرروشنی ڈال کربھارتی حکم رانوں سے اس پرپابندی لگانے کامطالبہ کرتی چلی آرہی ہیں مگراب تک بی جے پی اوراس سے پہلے کانگرس کی حکومت نے ان مطالبات کوتسلیم کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی، گویا دہشتگردی کی کھلی چھٹی دیئے جانے پربھارت کی کسی بھی حکومت کوکوئی ملال ہے اورنہ ندامت!بلکہ اب تومودی سرکارکی سرپرستی نے تودہشتگردبجرنگ دل کے حوصلے اتنے بلند کردیئے ہیں کہ اس کے منہ کوانسانی خون کاچسکالگ چکاہے۔
اب ایک مرتبہ پھرمودی سرکاراوراس متعصب جماعت کے دیگررہنما اوروزراانتخابات جیتنے اس انتہاپسندتنظیم کے ساتھ کھڑے نظرآرہے ہیں،کون نہیں جانتا کہ نوادہ میں گری راج سنگھ فسادبھڑکانے کے الزام میں گرفتار بجرنگ دل کے ذمہ داروں سے ملنے جیل جاکر اس بات پرباضابطہ آنسوبہارہاہے اوریقین دہانی کروارہاہے کہ وہ ان سب کوجلدجیل سے رہائی دلاکردم لے گا اور اسی طرح ہزاری باغ میں جیت ہنسانے ماب لنچنگ کے ملزموں کی کھلے عام میزبانی کررہاہے جوحال ہی میں ضمانت پررہا ہوئے تھے،یہ کام اس نے خاموشی سے نہیں کیابلکہ مٹھائی کھاتے ہوئے ان کے ساتھ تصویریں بنوائیں۔بجرنگ دل کے کارکن پہلے صرف لاٹھی کا استعمال کرتے تھے،اب ہر طرح کے آتشیں ہتھیاروں کااستعمال بے دھڑک استعمال کررہے ہیں۔اس سال رام نومی کے موقع پرسنگھ پریوارکی طرف سے انہیں کھلے عام ترشول اورتلوارایسے ہتھیاربانٹے گئے۔اس سے پہلے یہ خبربھی آئی کہ انہیں ہرقسم کے ہتھیارچلانے کی تربیت وٹریننگ دی جارہی ہے۔ آر ایس ایس کے ذریعے چلنے والے ایک اسکول میں بجرنگ دل کے سینکڑوں کارکنوں کومارشل آرٹس کی ٹریننگ دی جا رہی ہے جس میں انہیں تلوار،ترشول کے علاوہ دیگر ہتھیار چلانے کی تربیت بھی دی جارہی ہے۔ملک کے مختلف مقامات پربجرنگ دل اورہندوپریشداسکول کے بچوں کوہرقسم کے اسلحے استعمال کے استعمال کی کھلے عام ٹریننگ دی جارہی ہے۔
28فروری2015 کوپندرہ روزہ ملی گزٹ نے اطلاع دی تھی کہ بجرنگ دل ملی ٹینٹ ہندوفورس تیارکرنے کافیصلہ کیاہے جس کے تحت ملک کے تمام اضلاع میں شکتی آرادھنا کیندر قائم کیاجائے گاجہاں اس کے کارکن لاٹھی اورپستول چلاناسیکھیں گے۔ اس سکیم پرنہ صرف باقاعدہ عملدرآمدہورہاہے بلکہ اب تومودی سرکارکی سرپرستی میں ہونے والی ہندو دہشتگردانہ کاروائیوں اور وارداتوں کانوٹس انٹرنیشنل میڈیا بھی لے رہاہے اورعالمی ادارے بھی بھارت پرانگلی اٹھارہے ہیں۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جاری کردہ ایک رپورٹ میں بھارتی حکومت پر سخت تنقیدکی گئی ہے کہ وہ اقلیتوں اوردلتوں پرہونے والے ظلم اورجبرکوروکنے میں ناکام رہی ہے۔سی آئی اے کی ورلڈفیکٹ بک میں وشواہندوپریشداوربجرنگ دل کوملی ٹینٹ،عسکریت پسندیا جنگجو قراردیاگیاہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ان دونوں تنظیموں کودہشتگردکادرجہ دینے کا باضابطہ اعلان کیاہے لیکن کیاان دہشتگردجماعتوں کے ساتھ بھی عالمی طورپرویساہی سلوک کیاجارہاہے جیساپاکستان میں بعض جماعتوں کے بارے میں روارکھاجارہاہے؟کیااس کھلی منافقت کاپردہ چاک کرنے کی ذمہ داری ہماری حکومت پوری کررہی ہے؟


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر