... loading ...
علی عمران جونیئر
دوستو، چند روز قبل واٹس ایپ کسی نے ہمیں ”جذبہ حب الپتنی ” کے عنوان سے کسی شاعر کی ایک چھوٹی سی نظم بھیجی جس کے چند اشعار یاد رہ گئے۔۔شاعر لکھتا ہے کہ۔۔ہر اِک کی قسمت میں نہیں جذبہ حب الپتنی ،صرف خوش نصیبوں کو ملے جذبہ حب الپتنی۔۔سب سے اعلیٰ درجہ وہ کھسم پاویں ہیں جو سرعام نعرہ لگاوین زندہ باد یا حب الپتنی۔۔بے شک کپڑے دھوئیں یا پانڈے مانجیں بنا پیر دبائے نہیں مل سکتا جذبہ حب الپتنی۔۔حقیقتاً دنیا کی سب مُحبتیں جنجال ہیں زندہ رہنے کا مزہ ہے صرف جذبہ حب الپتنی۔۔تمام دوستوں کو مشورہ دیوے ہے وقاص زندگی میں سکون لاوے ہے جذبہ حب الپتنی۔۔
ہم شاعر کے خیالات، نظریات سے متفق ہیں اور ان کے حالات پر صرف انہیں صبر کا مشورہ ہی دے سکتے ہیں۔۔ کہتے ہیں کہ بیوی کوئی بھی ہو ظالم ہوتی ہے، باباجی سے جب ہم نے یہ سوال پوچھا تو انہوں نے فوری طور پر بھارتی میڈیا پر اسی روز شائع ہونے والی ایک خبر دکھادی جس کے مطابق۔۔چپس کھانے کی شوقین بیوی نے چپس نہ لا کر دینے پر شوہر سے طلاق کا مطالبہ کردیا۔بھارتی میڈیا کے مطابق یہ واقعہ ریاست اتر پردیش کے شہر آگرہ میں پیش آیا جہاں شوہر اپنی بیوی کا پسندیدہ چپس کا پیکٹ لانا بھول گیا۔ا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ بیوی چپس کھانے کی عادی تھی اور وہ روزانہ اپنے شوہر سے 5 روپے والا چپس کا پیکٹ منگوا کر کھاتی تھی، بیوی کی یہ ہی عادت دونوں کے درمیان روزانہ لڑائی جھگڑے کی وجہ بھی بنتی تھی۔رپورٹ کے مطابق یہ لڑائی اس وقت شدت اختیار کر گئی جب شوہر چپس کا پیکٹ لانا بھول گیا جس پر بیوی نے شوہر سے لڑائی کی اور وہ ناراض ہو کر اپنے والدین کے گھر چلی گئی اور پھر پولیس اسٹیشن جا کر شوہر سے طلاق کا مطالبہ کیا۔پولیس کے مطابق شوہر نے مؤقف اپنایا کہ وہ اپنی بیوی کی روزانہ چپس کھانے کی عادت سے پریشان ہے اور بیوی نے الزام لگایا کہ اس کا شوہر اسے مارتا پیٹتا ہے جس کے سبب وہ شوہر کا گھر چھوڑ کر آئی ہے۔
باباجی سے اپنی چالیس سالہ ازدواجی زندگی کو مدنظر رکھتے ہوئے گراں قدر تجربات ہم سے شیئر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ۔۔ عورت کو کبھی مطمئن نہیں کیاجاسکتا، اگر آپ اس کے لئے بینک بھی لوٹ کر لے آئیں تو وہ پھر بھی شکوہ کرے گی کہ حبیب بینک کیوں لوٹا، میزان بینک لوٹنا تھا۔۔ایک صاحب کی گاڑی کا دروازہ خراب تھا۔۔وہ اپنی یادداشتوں”خیر و برکت کا دروازہ” میں لکھتے ہیں کہ۔۔ میری بیوی لڑکیوں کے اسکول میں پڑھاتی تھی۔ میں اسے چھوڑ کر روزا سکول سے اٹھاتا تھا۔روزانہ ہی ا سکول کے گیٹ پر پہنچ کر گاڑی سے باہر نکلتا اور بیوی کی طرف سے دروازہ کھولتا۔۔ میرا یہ طریقہ اسکول میں ماسٹرز اور لڑکیوں کا پسندیدہ موضوع بن گیا اور وہ اس پر بحث کرنے لگے۔۔ا سکول کے اساتذہ اور طلباء میری بیوی سے جلتے تھے اور کہتے تھے کہ رومانس کیا ہوتا ہے، کاش ہم ایسے پیار کرنے والے سے شادی کر لیتے۔ لیکن کوئی نہیں جانتا کہ یہ سب رومان، یا عورت پرستی وغیرہ کچھ بھی نہیں تھی، حقیقت یہ تھی کہ گاڑی کا دروازہ خراب تھا جو صرف باہر سے کھلتا تھا۔۔ لمبی کہانی مختصر اب میں تین بیویوں کا شوہر ہوں، اور ابھی تک دروازہ ٹھیک نہیں کیا۔
باباجی نے خواتین کے حوالے سے ہی ہمیں ایک واٹس ایپ میسیج کیا۔۔لکھتے ہیں کہ۔۔جب سے خواتین کو آٹو میٹک واشنگ مشین دستیاب ہوئی ہے تب سے ان کو ڈپریشن، تذبذب اور طرح طرح کے نفسیاتی عارضے لاحق رہنے لگے ہیں۔ آپ حیران ہوں گے کہ بھلا وہ کیوں؟ واشنگ مشین کا نفسیاتی بیماریوں سے کیا تعلق؟ تو اس کا جواب کچھ اس طرح سے سمجھیے کہ عورت کسی نہ کسی کے بارے بھری ہی رہتی ہے۔ اس کا شکوہ شکایت ہر کسی سے ہو سکتا ہے چاہے وہ بھائی ہو، دیور، سسر، شوہر، ساس، نند، بہو یا بھابھی ہو، عورت کو کب کسی کی بات یا رویہ برا لگ جائے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اب یہ غم، یہ غصہ، یہ تپش، یہ تلخی یہ کڑواپن اس کے دل و دماغ میں بھونچال کھڑا کر دیتا ہے۔ پرانے زمانے میں عورت کپڑے دھونے گھاٹ پر جاتی اور ساس، سسر، دیور، شوہر، نند کے کپڑوں پر خوب ڈنڈے برساتی اور اس کا غصہ ہلکا ہوتا جاتا۔ جس پر کچھ زیادہ ہی غصہ ہوتا تو اس کے کپڑے پکڑ کر پٹخ پٹخ پتھر پر مارتی جیسے اس شخص کو ہی مار رہی ہے۔ پھر بھی غصہ کم نہ ہوتا تو کپڑوں کو مڑور مڑور کر ایسے نچوڑتی گویا خون نچوڑ رہی ہے۔ دیکھنے والے دیکھتے کہ کپڑے دھو رہی ہے لیکن اندر ہی اندر اس کا من بھی دھل رہا ہوتا۔ اس طرح وہ کپڑے بھی دھو لیتی اور ایک ایک سے بدلہ بھی لے لیتی۔ایسے کپڑے بھی صاف ہو جاتے اور اس کے دل و دماغ کا بوجھ بھی۔ لیکن آج کی بیچاری عورت کو کپڑوں پر ڈنڈے برسانے، ان کو پتھروں پر مارنے اور نچوڑنے کا یہ دیسی علاج میسر نہیں رہا۔ یہ کمبخت واشنگ مشین ان کے دل کا بوجھ ہلکا نہیں ہونے دیتی۔ جس کی وجہ سے وہ کئی طرح کی ذہنی الجھنوں اور نفسیاتی بیماریوں میں گرفتار نظر آتی ہے۔۔ بیوی پر ترس کھائیے۔ آج ہی واشنگ مشین کو گھر سے بھگائیے اور بیوی کو ایک موٹا ڈندا لا کردیجیے۔۔ آگے پھر بیوی کی مرضی وہ آپ کے اتارے ہوئے کپڑوں پر ڈنڈا برسائے یا پھر آپ کے پہنے ہوئے کپڑوں پر۔۔۔البتہ کتھارسس یقینی ہے۔۔
سندھ میں میٹرک کے امتحانات چل رہے ہیں، بھارت میں بھی کئی ریاستوں میں بچوں کے امتحانات ہورہے ہیں۔۔ بھارتی بچوں کے پیپر میں سوال آگیاکہ۔۔ گبر سنگھ کے کردار کے بارے میں روشنی ڈالیں۔۔ تو ایک لڑکے نے لکھا کہ۔۔۔۔سادہ زندگی تھی ان کی، بھیڑ بھاڑ سے دور جنگل میں رہتے تھے۔۔ایک ہی کپڑوں میں کئی کئی دن گزار دیتے تھے۔۔پانی کی بچت کے لیے کبھی کبھار ہی نہاتے تھے۔۔ قاعدہ و اصول کے پابند ایسے تھے کہ کالیا اور اس کے ساتھیوں کو پراجیکٹ ٹھیک سے نہ کرنے پر براہ راست گولی مار دی تھی۔۔رحم دلی کا تو پوچھیں مت، ٹھاکر کو قبضے میں لینے کے بعد صرف اس کا ہاتھ کاٹ کر چھوڑ دیا تھا، اگر وہ چاہتے تو اس کا گلا بھی کاٹ سکتے تھے۔۔فنون لطیفہ کے دلدادہ تھے، ان کے ہیڈ کوارٹر میں ڈانس میوزک کے پروگرام چلتے تھے اور سب خوشی سے جھوم جھوم جاتے۔۔مردم شناس ایسے تھے کہ بسنتی کو دیکھتے ہی پرکھ لیا تھا کہ وہ ایک ماہر رقاصہ ہے۔۔ مزاح کو سمجھنے والے تھے، سینس آف ہیومر بلا کا تھا،کالیا اور اس کے ساتھیوں کو ہنسا ہنسا کے مارا تھا، خود بھی ٹھٹھے مار مار کے ہنستے تھے، وہ اس دور کے لافنگ بدھا تھے۔۔عورت کی عزت وآبرو کے حوالے سے بہت حساس بھی تھے، بسنتی کے اغوا کے بعد صرف اس کا رقص دیکھنے کی درخواست کی تھی۔۔فقیرانہ زندگی گزاری انہوں نے، ان کے آدمی صرف زندہ رہنے کے لیے خشک اناج مانگتے تھے،کبھی بریانی یا چکن تکے کی مانگ نہیں کی۔۔سب سے اہم کام جو وہ کر گئے، وہ یہ کہ جب تک زندہ رہے سماجی کارکن بنے رہے، رات کو بچوں کو سلانے کا کام بھی کرتے تھے۔۔
اوراب چلتے چلتے آخری بات۔۔ عورت کا بھی مرد کی زندگی میں اتنا ہے عمل دخل ہونا چاہیے جتنا کسی پکوان میں نمک کا۔زیادہ نمک بھی دونوں کی زندگی زہر بنا دیتا ہے۔ ۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔