... loading ...
ڈاکٹر سلیم خان
انتخابی عمل کے چوتھے مرحلے سے قبل چار سو پار کا نعرہ چاروں خانے چت ہوگیا۔ الیکشن کے نتائج چونکہ چار جون کو آنے تھے اس لیے اب کی بار چار سو پار کا نعرہ وضع کیا گیا۔ بعید نہیں کہ نعرکے لحاظ سے تاریخ طے کی گئی ہو کیونکہ ‘مودی ہے تو ممکن ہے ‘۔ پچھلی مرتبہ بی جے پی نے تین سو پار کرلیاتھا اور این ڈی اے کی جملہ تعداد356 تھی۔ حسبِ ضرورت بی جے ڈی اور بی آر ایس جیسے لوگوں کی حمایت سے یہ بھان متی کا کنبہ چارسو کے قریب پہنچ جاتا تھا لیکن اس بار چونکہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے خلاف بھارت کی جنتا انتخاب لڑ رہی ہے اس لیے مشکلات کا سامنا ہے اور بعید نہیں کہ ‘دو مئی دیدی گئی ‘ کی مانند یہ نعرہ بھی ‘اب کی بار بنٹا دھار’میں بدل جائے ۔ بی جے پی کو جب احساس ہوا کہ اس ہدف کو پانا ممکن نہیں ہے تواس نے وضاحت کی کہ یہ این ڈی اے کا نشانہ ہے مگر اس میں سے اکالی دل، انا ڈی ایم کے اور اصلی شیوسینا تو الگ ہوچکی ہے ۔ لاکھ کو شش کے باوجود بی آرایس اور بی جے ڈی کو ساتھ لینے میں کامیابی نہیں ملی اس لیے این ڈی اے کی دیگر جماعتوں کو تیس نشستیں ملنا بھی مشکل ہے ۔
بی جے پی نے بڑی چالاکی سے اپنا ہدف 370 رکھا تاکہ کشمیر کی یاد دلا کر ووٹ لیا جاسکے مگر یہ غبارہ بھی پھوٹ گیا۔ اس مسئلہ پر کشمیر کی وادی میں بی جے پی کا کمل کھلنے سے پہلے مرجھا گیا۔ اس سے بڑی رسوائی کیا ہوسکتی ہے کہ اسے تین میں سے ایک حلقہ میں بھی امیدوار نہیں ملا ؟ لداخ کے اندر بی جے پی ہار دیکھ کر اپنا امیدوار بدل دیا۔ جموں کی دو میں سے اگر ایک سیٹ بھی نکل جائے تو غنیمت کیونکہ 370کے بعد بیرونی لوگوں کے آنے کی سب سے بڑی قیمت وہیں کے لوگوں نے چکائی ہے ۔ عوامی رحجان کا پتہ لگانے کی خاطر معروف یو ٹیوب چینل ‘للن ٹاپ ‘ ابھینو پانڈے امیٹھی اور رائے بریلی ہائی وے پر ایک چائے خانے میں رکے جہاں الگ الگ گاوں کے لوگ جمع تھے ۔ انہوں نے بات چیت کے دوران سوال کردیا کہ ‘اب کی بار چار سو پار’ کے بارے میں کیا خیال ہے ؟ تو دلچسپ ردعمل سامنے آیا۔ایک شخص بولا پانچ سال قبل پلوامہ میں چار سو کلو آر ڈی ایکس کے دھماکہ سے چالیس فوجی ہلاک ہوگئے ۔ وہ آر ڈی ایکس کہاں سے آیا سرکار کو پتہ نہیں چلا مگر چار سو سیٹیں ملنے والی ہیں اس کا علم ہوگیا۔ دوسرا بولا اس بار ہم لوگ راہل گاندھی کو چار لاکھ کے فرق سے کامیاب کریں گے ۔ تیسرے نے کہا پچھلی بار جو غلطی ہوگئی تھی اسے نہیں دوہرائیں گے ۔ اس کی وجہ دریافت کی گئی تو لوگوں نے بتایا سمرتی ایرانی نے مفت چینی کا وعدہ کیا تھا کہ وہ نہیں ملی ۔ دوسرا بولا چارسو روپیہ میں سلنڈر مل رہا تھا اب بارہ سو ہوگیا ہے ۔ عوام کے نزدیک یہ چار سو پار کی حقیقت۔ ایک زمانے میں کانگریس مکت بھارت کا نعرہ لگتا تھا ۔ امیت شاہ کرناٹک اور مدھیہ پردیش کی سرکار گرا دیا کرتے تھے لیکن بھارت جوڑو یاترا کی زبردست پذیرائی نے اس نعرے کی ہوا نکال دی ہے ۔ ویسے مہاراشٹر اور بہار کے اندر بی جے پی کو حزب اختلاف کے خیمے کے اندر گھس کر سرجیکل اسٹرائیک کرنے میں کامیابی ملی مگر انہیں دونوں صوبوں میں بی جے پی کو سب سے زیادہ غم و غصے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔
تیجسوی یادو اور ادھو ٹھاکرے کے خطابات عام میں عوام کی تعداد اور ان کا جوش و خروش قابلِ دید ہے ۔ ان دونوں رہنماوں کو اقتدار میں رہنے کا موقع ملا اور وہ اپنی کارکردگی کا حوالہ دے کر ووٹ مانگ رہے ہیں۔ اس لیے ان کے وعدوں پر لوگ یقین کررہے ہیں ۔ اس کے برعکس وزیر اعظم اور ان کے چیلے چاپڑ پاکستان، مسلمان، منگل سوتر، مچھلی، مٹن ، مندر ، مسلم ریزرویشن، اڈانی اور امبانی جیسے جذباتی اور ہنگامی موضوعات پر اپنی انتخابی مہم چلارہے ہیں ۔ لوگ مہنگائی اور بیروزگاری سے پریشان ہیں مگر مودی کی زبان پر مہنگائی کا ‘م’ اور بیروزگاری کا ‘ب’ نہیں آتا اس لیے عوام کوان کی کھوکھلی گارنٹی میں کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔ بہار اور مہاراشٹر کے برعکس ہماچل پردیش ، جھارکھنڈ اور دہلی میں بی جے پی کا آپریشن کمل ناکام ہوگیا اور ہریانہ میں تو اس کی اپنی سرکار اقلیت میں چلی گئی۔
ہماچل ،جھارکھنڈ اور دہلی میں بی جے پی کو مختلف اندازکی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ۔ ہماچل پردیش میں لاکھ کوشش کے باوجود بی جے پی چونکہ ایک تہائی ارکان اسمبلی کونہیں خرید سکی اس لیے وہ سازش ناکام ہوگئی۔ بی جے پی صدر جے پی نڈا کے آبائی صوبہ میں آپریشن کمل کی ناکامی ان کی قیادت پر بدنما داغ ہے ۔
جھارکھنڈ میں ہیمنت سورین کو گرفتار کیا تو انہوں نے استعفیٰ دے کر اپنی بیوی کے بجائے چمپئی سورین کو وزیر اعلیٰ بناکراقربا پروری کے الزام سے سرکارکو بچالیا۔ دہلی کے اندر اروند کیجریوال نے استعفیٰ دینے سے انکار کرکے اپنی سرکار بچائی اور جیل سے حکومت کرکے بی جے پی کو آئینہ دکھا دیا۔ عوام کی ہمدردیاں سمیٹنے کے بعد دہلی اور پنجاب کی پولنگ سے قبل سپریم کورٹ کی عبوری ضمانت نے چار سو پار کے خواب کو چکنا چورکر دیا۔ اس بار جھارکھنڈ، دہلی اور پنجاب سے بی جے پی کا تڑی پار ہونا یقینی ہے ۔ مہاراشٹر اور بہار میں نقصان بھرپائی کا کوئی امکان نہیں ہے ۔ اس لیے اب 400کے بجائے 272 پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے ۔بی جے پی والے کسی زمانے میں راہل گاندھی کو پپو کہہ کر پکارتے تھے اس کے جواب میں کانگریسیوں نے وزیر اعظم کو گپو کے لقب سے نواز دیا ۔ بھارت جوڑو یاترا کے بعد راہل کی شبیہ ایسے بدلی کہ انہیں پپو کہنے والے خود پپو لگنے لگے مگر وزیر اعظم نے اپنی گپ بازی سے گپو والے لقب کو اور بھی تقویت دی ۔ اڈانی اور امبانی والے بیان نے تو اس میں ایسے چار چاند لگائے کہ اب کہنا پڑے گا ‘جب تک سورج چاند رہے گا، گپو تیرا نام رہے گا’۔ کانگریس پر بی جے پی کا سب سے بڑا الزام اقربا پروری تھا ۔ اسے ایک خاندان کی پارٹی کہنے والوں کا منہ بند کرنے کی خاطر کانگریس نے اول تو پارٹی کی صدارت ملک ارجن کھڑگے کے ہاتھوں میں سونپ دی ۔ دوسرے امیٹھی اور رائے بریلی سے راہل اور پرینکا کو لڑانے کے بجائے راہل گاندھی کے ساتھ کے ایل شرما کو ٹکٹ دے دیا۔ اس طرح پھر سے اقربا پروری کے الزام کا توڑ ہوگیا۔
مودی جی نے جب راہل گاندھی کو شہزادہ کہہ کر مخاطب کرنا شروع کیا تو اس کے جواب میں پرینکا نے وزیر اعظم کو شہنشاہ کہہ کر منہ توڑ جواب دیا۔ اسے ‘تو ڈال ڈال میں پات پات ‘کہتے ہیں ۔ موجودہ طول طویل انتخابی مہم میں یہ دلچسپ صورتحال بن گئی کہ اب کانگریس کے بجائے بی جے پی کے مستقبل کی بابت بحث و مباحثہ شروع ہوگیا ہے ۔ ماہرین سیاست اب اس سوال پر گفتگو کرنے لگے ہیں کہ اگر بی جے پی کو کسی طرح معمولی اکثریت مل بھی جائے تو کیا امکانات ہیں ؟ اور بصورت دیگر پارٹی کا کیا ہوگا؟ اروند کیجریوال نے یہ شوشہ چھوڑ دیا ہے کہ مودی کے لیے اگلے سال سبکدوش ہونا لازمی ہے ایسے میں وہ امیت شاہ کو اپنا ولیعہد بنانے کی خاطر یوگی ادیتیہ ناتھ کو ان کے عہدے سے ہٹا دیں گے ۔ ویسے تو یہ محض ایک قیاس آرائی ہے مگر بی جے پی کے اندر مودی کے بعد کون ؟ اس سوال پر جو اختلاف ہے اس کا انکار کرنا حقیقت سے منہ موڑنے کے مترادف ہے ۔
بی جے پی میں پارٹی کے صدر جے پی نڈا کا مسئلہ بھی ہے ۔ ان کی مدتِ کار دو سال قبل ختم ہوگئی مگر کانگریس کو طعنہ دینے والی بی جے پی انتخاب کے بجائے توسیع دیتی رہی ۔ جون کے اندر ان کو توسیعی مدتِ کار بھی ختم ہوجائے گی ایسے میں خود اپنا آبائی صوبہ بچانے میں ناکام صدر کو ہٹایا جائے گا یا نہیں یہ سوال ہے ؟ بی جے پی اگر معمولی اکثریت لانے میں ناکام ہوجائے تو دوسروں کی مدد سے بننے والی سرکار کی سربراہی کرنا مودی کے لیے مناسب نہیں ہوگا۔ ایسے میں سنگھ چاہے گا ان کا منظور نظر نیتن گڈکری وزیر اعظم بنے تاکہ مودی کے ہاتھوں ہونے والی رسوائی سے نجات ملے ۔ تیسرا امکان انڈیا الائنس کے اقتدار میں آجانے کا بھی ہے ۔ ایسے میں مودی و شاہ کی جوڑی کا کیا ہوگا؟ ان کے خلاف اگر مقدمات درج ہوگئے تو وہ اس کا مقابلہ کریں گے اور پارٹی اس نقصان سے خود کو کیسے بچائے گی؟ اس سوال پر گفتگو ہونے لگی ہے ۔ فی الحال صرف مودی سرکار کا نہیں بلکہ بی جے پی اور سنگھ پریوار کے بھی مسائل ہیں ۔ سنگھ پریوار کے داخلی اختلافات پر فی الحال اقتدار چادر پڑی ہوئی ہے لیکن جب یہ ہٹ جائے گی تو خوف کے مارے خاموش زبانیں بول پڑیں گی اور کیا اور کیسے بولیں گے اس کا نمونہ سبرامنیم سوامی کے انٹرویوز میں دیکھا جاسکتا ہے ۔ خیر آگے چل کر کیا ہوگا یہ تو وقت بتائے گا لیکن بظاہر چار سو پار کا امکان ندارد ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔