... loading ...
ڈاکٹر سلیم خان
2014 میں جب گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کو بی جے پی نے وزارت عظمیٰ کا امیدوار بنایا تو کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ اس قدر آسانی سے وزیر اعظم بن جائیں گے لیکن وہ چمتکار ہوگیا۔ اس کے بعد میڈیا کی مدد سے انہوں نے اپنی ‘مہامانو'(عظیم شخصیت) کی جعلی شبیہ بناڈالی ۔ اس کے بعد وہ اتنی آسانی سے ہار جائیں گے یہ بھی لوگوں کے تصورِ خیال سے پرے تھا لیکن ایسا ہی کچھ ہوتا ہوا نظر آرہا ہے ۔ شیام رنگیلا نامی راجستھانی نوجوان مودی جی کی نقالی کرتے کرتے پوری دنیا میں مشہور ہوگیا۔ اس نے مودی کے خلاف انتخاب لڑنے کا ارادہ کیا تو انتظامیہ نے اسے روک دیا۔ سوال یہ ہے کہ ایک کامیڈین سے یہ کیسا خوف؟ شیام رنگیلا نے انتخاب لڑنے کی وجہ یہ بتائی کہ نہ جانے کون سورت یا اندور کی مانند اپنا نام واپس لے لے لیکن میں لڑوں گااور بھی بڑا طنز شیام نے یہ کہہ کر کیا کہ میں ای ڈی سے نہیں ڈرتا ۔ میں جھولا اٹھا کر چل دوں گا ۔ میں اصلی فقیر ہوں ۔ شیام نے بغیر کہے مودی جی کو جعلی فقیرکہہ کر لاجواب کردیا اور سچ تو یہ ہے کہ فی الحال وزیر اعظم کے پاس کسی سوال کا جواب نہیں ہے ۔
شیام رنگیلا کو غیر سنجیدہ کہہ کر مسترد کیا جاسکتا ہے مگر جسٹس (ریٹائرڈ) مدن بی لوکر، جسٹس (ریٹائرڈ) اجیت پی شاہ اور این رام کے بارے میں توکوئی یہ نہیں کہاسکتا ۔ ان تینوں نے وزیر اعظم کو ایک خط لکھ کرانہیں انتخابی معاملے پر بحث کے لیے ایک پلیٹ فارم پر مدعو کیا ۔ بحث کی اس تجویزکو غیر جانبدارانہ اورعام باشندوں کے وسیع تر مفاد میں بتایا گیا۔ بی جے پی چاہتی ہے کہ ملک میں امریکی طرز کا صدارتی نظام نافذ ہوجائے کیونکہ اسے یہ خام خیالی ہے اس کے پاس مودی جیسا قابل امیدوار ہے ۔ ایسے میں اسے چاہیے تھا کہ وہ اس دعوت کو برضا و رغبت قبول کرتی مگر بڑ بولے وزیر اعظم سمیت پوری بی جے پی کو سانپ سونگھ گیا ہے ۔یہ فطری ردعمل ہے کیونکہ جس وزیر اعظم نے دس سالوں تک کوئی پریس کانفرنس کرنے کی ہمت نہیں کی وہ بھلا ایسے کھلے عام بحث و مباحثے کی جرأت کیسے کرسکتا ہے ؟اس کے برعکس راہُل گاندھی نے کہا کہ اس طرح کی بحث سے لوگوں کو ‘ہمارے متعلقہ نقطہ نظر کو سمجھنے اور باخبر انتخاب کرنے میں مدد ملے گی۔ عوام اپنے رہنماوں سے براہ راست سننے کے مستحق ہیں۔’ اس لیے وہ ایک بامعنی اور تاریخی بحث میں حصہ لینے کے لیے بے تاب ہیں۔انہوں نے پوچھا ، ‘براہ کرم ہمیں بتائیں کہ کیا وزیر اعظم شرکت کرنے پر رضامند ہیں۔کانگریس اس پہل کا خیرمقدم کرتی ہے اور بحث کے لیے دعوت کو قبول کرتی ہے ۔ ملک کولوگوں کو بھی امید ہے کہ وزیراعظم اس بات چیت میں شرکت کریں گے ۔’آگے چل کر بی جے پی کے سناٹے پر راہل گاندھی نے کہا کہ وہ بحث میں مودی کا مقابلہ کرنے کے لیے ‘100 فیصد’ تیار ہیں، لیکن جانتے ہیں کہ وزیر اعظم اس سے اتفاق نہیں کریں گے ۔ اس طرح گویا مودی جی چھپنّ انچی غبارہ دھڑام سے پھوٹ گیا ۔
حزب اختلاف کے اندر پائی جانے والی اس غیر معمولی خود اعتمادی کی وجہ انتخابی عمل کے چوتھے مرحلے یعنی ہاف ٹائم سے قبل مودی جی کا وہ سیلف گول ہے جس نے ان کی کمزوریوں کو پوری طرح بے نقاب کردیا ۔ ہندوستانی روایت کے مطابق جس طرح دھرم پتنی اپنے شوہر کا نام نہیں لیتی اسی طرح مودی جی اپنی زبان پر اڈانی اور چین کا نام نہیں لاتے تھے ۔ اس معاملے میں وہ اس قدر حساس تھے کہ کسی اور کے ان کا نام لینے پر بھی آپے سے باہر ہوجاتے تھے ۔ ان کی جذباتیت کا یہ عالم تھا کہ ایوان پارلیمان میں خود اپنے اوپر تنقید برداشت کرلیتے تھے مگر اڈانی کی عزت پر آنچ نہیں آنے دیتے تھے ۔ راہل گاندھی کو جب وزیر اعظم کی اس کمزوری کا احساس ہوا تو وہ انہیں چھیڑنے لگے یہاں تک کہ سزا کے طور پر اپنی پارلیمانی رکنیت سے ہاتھ دھونا پڑا ۔ اڈوانی کا نام لے کر سزا پانے والے راہل اکیلے نہیں ہیں۔ سنجے سنگھ نے اڈانی پر تنقید کے سبب بدعنوانی کا الزام میں جیل جانا پڑا۔بلا ثبوت ٦ ماہ تک جیل میں رہے ۔ ٹی ایم سی کی شعلہ بیان رکن پارلیمان مہوا موئترا کا بھی بنیادی قصور اڈانی پر انگشت نمائی تھا ۔ ان کو بھی بیدردی سے نکال باہر کیا گیا لیکن جس اڈانی کی خاطر مودی جی نے اتنے جتن کیے بالآخر اسی کوہرجائی قرار دے دیا ۔ مودی کی زبان پر اڈانی کے نام آتے ہی آغا حشر کاشمیری کا یہ شعر یاد آگیا
پوچھنے والوں سے گو میں نے چھپایا دل کا راز
پھر بھی تیرا نام لب پر ایک بار آہی گیا
وزیر اعظم نے تلنگانہ کی ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے راہل گاندھی پر سنگین الزامات عائد کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ امبانیـاڈانی کا نام اس لیے نہیں لے رہے ہیں کیونکہ کانگریس نے ان سے بھاری رقم لی ہے ۔ انہوں نے کہا، آپ نے دیکھا ہوگا کہ پچھلے پانچ سالوں سے ، صبح اٹھتے ہی امبانی، اڈانی کی مالا جپنے والے جب سے الیکشن شروع ہوا ہے خاموش ہیں ۔ کیا کوئی ڈیل ہوئی ہے ؟ ‘شہزادہ’ بتاؤ تم نے کتنا مال اٹھایا ہے ؟ کیا ٹمپو بھر کر کانگریس کے پاس نوٹ پہنچے ہیں؟” مودی جی توقع رہی ہوگی کہ راہل گاندھی اس پر صفائی دیں گے مگر انہوں نے تو پلٹ وار کرتے ہوئے کہہ دیا کہ پی ایم مودی کو چاہیے کہ وہ ان صنعت کاروں کے پاس سی بی آئی کو بھیج کر تحقیقات کروالیں۔پی ایم مودی کے بیان پر راہل گاندھی نے اپنے ردعمل میں کہا، ”ہیلو مودی جی، کیا آپ کچھ گھبرائے ہوئے ہیں؟ عام طور پر آپ بند کمروں میں اڈانی جی اور امبانی جی کے بارے میں بات کرتے ہیں، پہلی بار آپ نے عوام میں دونوں کا نام استعمال کیا۔ آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ ٹیمپو میں پیسے دیتے ہیں، کیا یہ آپ کا ذاتی تجربہ ہے ؟ سی بی آئی کو ان کے پاس بھیج کر، مکمل معلومات حاصل کریں ، انکوائری کروائیں نہ گھبرائیں ”۔مودی جی نے راہل گاندھی کے ذریعہ لگائے جانے والے الزامات کی تصدیق کرکے اڈانی و امبانی پر دل کا غبار نکال دیا ۔ بقول شاعر
غیر کی باتوں کا آخِر اِعتِبار آ ہی گیا
میری جانِب سے تِرے دِل میں غُبار آ ہی گیا
راہل گاندھی نے اس موقع کا فائدہ اٹھا کر امیٹھی پر مودی کے ڈرو مت والے مشورے کا جواب دینے کے بعد کہا کہ میں ملک کو پھر سے بتا رہا ہوں کہ ہم ہندوستان کے غریبوں کو اتنا ہی پیسہ دینے جا رہے ہیں جتنا نریندر مودی جی نے ان لوگوں دیا ہے ۔مودی جی کے اوٹ پٹانگ الزام کا جواب دیتے ہوے کانگریس کے ترجمان پون کھیڑا نے انکشاف کیا کہ 3 اپریل سے راہل گاندھی نے 103 بار گوتم اڈانی اور 20
بار مکیش امبانی کا نام لیا ہے ۔ ویسے یہ سلسلہ بہت پرانا ہے ۔ 2014 کی انتخابی شکست کے ایک سال بعد اپریل 2015 میں راہل گاندھی نے جارحانہ حملہ کرتے ہوئے لوک سبھا میں نریندر مودی حکومت کو ‘سوٹ بوٹ والی سرکار’ کہا تھا۔ اس کے بعد انہیں کامیابی کی شاہِ کلید مل گئی اور وہ تقریباً ہر تقریر میں یہ بولنے لگے ۔ 2019 کے لوک سبھا انتخابات سے قبل راہل نے دسمبر 2018 میں رافیل سودے کا مسئلہ اٹھایا اور’چوکیدار چور ہے ‘ یا ‘ہم دو ہمارے دو’ جیسے نعرے مقبول عام کردئیے مگر پلوامہ اور سرجیکل اسٹرائیک نے ان کی محنت و مشقت پر پانی پھیر دیا۔
2024 انتخاب سے قبل جب مودی جی نے میڈیا کو پوری طرح اپنی گود میں لے کر اس کی مدد سے راہل گاندھی کو مہا پپو ثابت کردیا تو مجبوراً انہیں سڑک پر اترنا پڑا۔ کنیا کماری سے کشمیر تک کی بھارت جوڑو یاترا ان کا ایک ایسا اقدام تھا کہ جسے بدنام یا نظر انداز کرنے کی کوشش کو عوامی حمایت نے ناکام کردیا ۔ یہ قافلہ سرینگر سے پہلے 24 دسمبر 2022 کوجب دہلی کے لال قلعہ پہنچا تو وہاں راہل گاندھی خطا ب عام میں کہا کہ ملک میں نریندر مودی کی نہیں ہے بلکہ امبانی اور اڈانی کی حکومت ہے ۔ انھوں نے بی جے پی اور آر ایس ایس پر الزام لگایا کہ یہ لوگ ملک میں نفرت اور خوف پھیلا رہے ہیں تاکہ عوام کی توجہ اصل ایشوز سے ہٹاسکیں ۔ حالیہ انتخابی مہم کے دوران یہ الزام ثابت ہوگیا۔ مودی کے جب سارے پینترے ناکام ہوگئے تو مجبوراً اب عوامی فلاح و بہبود کے اشتہارات آنے لگے ہیں مگر ان پر اعتماد کے فقدان نے انہیں بے اثر کردیا ہے ۔ اڈانی و امبانی پر بھی لب کشائی کرکے وزیر اعظم نریندر مودی نے جو حماقت کی ہے اس سے ان پر عوام کے ساتھ سرمایہ داروں کا بھی بھروسہ اٹھ گیا ۔ یہی وجہ ہے حصص بازار دن بہ دن گرتا جارہا ہے ۔ اس لیے آخری تین مرحلوں کے انتخاب میں عوام تو اپنے ووٹ کے ذریعہ اس کی سزا دیں گے مگراب سرمایہ دار بھی نہیں چھوڑیں گے کیونکہ نمک حرامی کی بھی ایک حد ہوتی ہے ۔ ایسے میں مودی جی کے اس نامعقول تبصرے پر پر جگر مراد آبادی کا یہ شعر صادق آتا ہے
ہاں سزا دے اے خدائے عشق اے توفیق غم
پھر زبان بے ادب پر ذکر یار آ ہی گیا