... loading ...
ڈاکٹر جمشید نظر
حال ہی میں امریکہ کے خلائی تحقیقی ادارے ناسا کی جانب سے سورج میں ہونے والے دھماکوں کی تصاویرشیئر کی گئیں ہیں ۔عالمی میڈیا میں ناسا کی جاری کردہ تصاویر کے بارے میں رپورٹ کیاگیا کہ گذشتہ جمعہ اور ہفتہ کے روز سورج پرزوردار دھماکوں کے بعد سورج سے شدید سنہری شعاعیں نمودار ہوئیں اورپھر برقی مقناطیسی توانائی کی لہروں کا رخ زمین کی جانب ہوا ۔اس صورتحال کو دیکھ کر نہ صرف سائنس دان اور ماہرین فلکیات حیران و پریشان ہیں بلکہ سورج میں دھماکوں کی تصاویر نے سوشل میڈیا صارفین کو خوف میں مبتلا کردیا ہے۔سوشل میڈیا صارفین نے اس پر تبصرے کرنا شروع کردیئے ہیں کچھ کا کہنا ہے کہ قیامت نزدیک آرہی ہے اس لئے ایسا ہورہا ہے کچھ کا خیال ہے کہ انسان نے قدرت کے نظام کے ساتھ چھیڑ چھاڑکی جس کے نتیجہ میں یہ سب ہورہا ہے۔بہرحال خدشہ ہے کہ سورج میں ہونے والے دھماکے اور زمین کی جانب بڑھتی برقی لہریں کرہ ارض اور اس پر بسنے والے جانداروں کے لئے مشکلات پیدا کرسکتی ہیں ۔سائنس دانوں نے مشاہدہ کیا ہے کہ ان مقناطیسی لہروں کے جاری رہنے سے سیٹلائٹ ،مواصلات اور ریڈیو ٹرانسمیشن سسٹم میں خرابی ہوسکتی ہے ۔ناسا نے مارچ میں رپورٹ کیا تھا کہ سورج کی سطح پر دوسرا بڑا سوراخ نمودار ہوا جو زمین سے 20گنا بڑا ہے اس سوراخ سے 1.8ملین میل فی گھنٹہ کی رفتار سے شمسی لہریں زمین کی جانب بڑھ رہی ہیں یہی وجہ ہے کہ دنیا کے مختلف حصوں میں آسمان کا رنگ کبھی سبز تو کبھی سرخ دیکھا گیا۔برقی شعاعوں کے باعث آسمان کے بدلتے رنگوں کو ”انوار قطبی” یا” ارورا” کہتے ہیں۔
سورج ،چانداورخلاء میں موجود دیگر سیاروں کی خطرناک شعاعوں سے زمین اور زمین پر بسنے والے جانداروں کی حفاظت کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک خاص فلٹر تخلیق کررکھا ہے جسے اوزون کی تہہ کہتے ہیں جو زمین کی سطح سے تقریباً 19 کلو میٹر اوپر اور 48 کلو میٹر کی بلندی تک پائی جاتی ہے یہ فضائی غلاف ایک طرح سے زمین کاگارڈ ہے جو سورج سے نکلنے والی الٹرا وائلٹ شعاعوں کو زمین تک پہنچنے سے روکتا ہے اگر سورج سے نکلنے والی یہ خطرناک شعاعیں برائے راست زمین پر پہنچ جائیں توجانداروں کو موت کے منہ تک پہچا سکتی ہیں۔اوزون کی تہہ سورج سے نکلنے والی نہایت خطرناک شعاعوں کو زمین تک پہنچنے سے پہلے ہی فلٹر کرلیتی ہیں اور ہمیں احساس بھی نہیں ہوپاتا کہ ہم کس آفات سے بچ گئے ہیں خدانخواستہ جس دن یہ فلٹرختم ہوگیا اسی دن زمین پر بسنے والے جانداروں کی زندگی بھی ختم ہوجائے گی۔
موسمیاتی تبدیلیوں اور انسان کی پیدا کردہ آلودگیوں کی وجہ سے یہ فلٹر(اوزون کی تہہ) روزبروز خراب ہوتا جارہا ہے اسی وجہ سے اقوام متحدہ کے زیراہتمام جتنے بھی عالمی دن منائے جارہے ہیں ان سب کا تھیم موسمیاتی تبدیلیوں کی مناسبت سے رکھا گیا ہے جیسے خاندانوں کا عالمی دن جو ہر سال 15 مئی کو منایا جاتا ہے اس کا تھیم ”خاندان اورموسمیاتی تبدیلیاں ”رکھا گیا ہے۔اس دن کے لئے سبز رنگ کے گول دائرے کی شکل کاایک خاص لوگو بنایا گیا ہے جس کے بیچ میں سرخ رنگ سے دل اور گھر بنا ہوا ہے جو اس بات کی علامت ہے کہ خاندان دنیا کے مرکز میں ہے اور خاندان کے اندر ہی محبت بستی ہے۔آپ کو اس بات پر حیرت ہوگی کہ آج کے مغرب زدہ انفرادی رہن سہن کے ماحول میں اقوام متحدہ ایک ایسا عالمی دن منارہا ہے جو مشترکہ خاندانی نظام کو فروغ دے رہا ہے ۔اگر آپ اقوام متحدہ کے منائے جانے والے عالمی دنوں کا جائزہ لیں توآپ کو پتہ چلے گا کہ بیشتر عالمی دن اسلام کے اصولوں کی عکاسی کررہے ہیں۔شکر ہے کہ ہمارے معاشرے میں خاندانی نظام موجودہے اور خاندان کے افراد ایک دوسرے کے دکھ درد میں شامل رہتے ہیں۔خاندانوں کے عالمی دن کے موقع پر ہر فرد کو چاہیے کہ وہ اپنے خاندان کو جوڑے رکھے اور موسمیاتی تبدیلیوں سے مقابلہ کرنے کے لئے باہمی جدوجہد کرے۔