وجود

... loading ...

وجود

کچہری نامہ (٣)

پیر 06 مئی 2024 کچہری نامہ (٣)

زریں اختر

میاں بیوی میں علیحدگی ہوچکی تھی ، عورت نے خلع لی تھی ۔ یہ مقدمہ باپ کو بچوں سے ملنے کے لیے دن اور وقت طے کیے جانے سے متعلق تھا ،شوہر موجود تھا ،اس نے کوئی وکیل نہیں کیا تھا،وہ اپنا مقدمہ خود ہی لڑ رہاتھا،اس لیے نہیں کہ اس کے پاس وکیل کو فیس دینے کے پیسے نہیں ہوں گے بلکہ اس لیے کہ وہ تیز تھا ، اس کے چہرے کے تاثرات اور نقش بھی یہی بتا رہے تھے۔ جب انسا ن کے چہرے پر اس کے مزاج کے مطابق ایک نوعیت کے تاثرات آتے ہیں تو وہ تاثرات بھی چہرے کے نقوش کا حصہ بن جاتے ہیںمثلاًجن کی ناک بھوں چڑانے کی عادت ہوتی ہے ان کی ناک وہ شکل اختیار کرلیتی ہے ، جو زیادہ غصہ کرتے ہیں اور اپنے ہونٹ سیکڑے رکھتے ہیں ان کے ہونٹ نارمل موڈ میں بھی سکڑے ہوئے رہنے لگتے ہیں،مزاج کا غالب حصہ چہرے پر اپنا اظہار کرنے لگتاہے ۔ تو لڑکا تیز تھا،زیادہ تیزی تیز ہوا ، تیز آندھی کی طرح بہت کچھ اڑا کر لے جاتی ہے ، تیز بارش دیہاتوں میںفصلوں کو ڈبو دیتی ہے توشہروں میں سڑکوںکو اور تیز لہر توبعض اوقات ایک نہیں دو دو تین تین زندگیاں ایک ساتھ لے جاتی ہے ، اس سے زیادہ بھی ،پورے پورے خان دان۔ کبھی انسان ان بیرونی فطری تیزیوں سے خودکو بچا نہیں پاتا اور کبھی اندرونی تیزیاں اسے کورٹ میں گھسیٹ لاتی ہیں۔ اگر دوسری طرف بھی ایسا ہی معاملہ ہوتو مقابلہ کانٹے کا بن جاتا ہے اورایسے لوگ اپنی زندگی میں خود ہی کانٹے بوتے ہیں اور ان کے ساتھ ان کے بچے بھی اس کی فصل کاٹتے ہیں ، اگرایک آندھی ہواور دوسرا پانی بن جائے تو آندھی کا زور کم ہوکر ٹوٹ جائے گا ،گاڑی چل جائے گی اور چلتی رہے گی لیکن اگر دونو ں ہی آندھی ہوں تو ۔ ۔۔تو یہ کہ میاں بیوی اور بچیاں یعنی پورا گھرانہ کچہری میں تھا ۔اگر گھر کے مسئلے گھر کی چار دیوار ی میں حل نہ ہوتو پھر کچہری ہی ہے، ہر فریق یہ سمجھ رہا ہوتا ہے کہ وہ دوسرے کو مزا چکھا رہا ہے اور اس خام خیالی بلکہ بد خیالی میں وہ اپنے دھکے بھی بھول جاتاہے۔ بیوی نے وکیل کیا ہوا تھا، وکیل اپنے معاون وکیل کو بھی ساتھ لے کر چلتے ہیں تو عورت کی طرف سے دو وکیل جج صاحب کے سامنے مقدمہ پیش کرنے کے لیے موجود تھے اور دوسری طرف شوہر کھڑا تھا کیو ںکہ وہ اپنا مقدمہ خود لڑ رہاتھا، یہی لڑائی وہ مرد کبھی تنہائی میں بیٹھ کر خود سے لڑ لیتا تواس دن تنہا عدالت میں نہ کھڑا ہوتا۔ بعد میں عورت عدالت آئی اس کے ساتھ دو بچیاں تھیں۔ یہ دونوں پڑھے لکھے اورکھاتے پیتے گھرانے کے تھے ۔ بیوی معلوم ہورہا تھا کہ کسی اچھی جگہ اچھے عہدے پر کام کر رہی ہے،سنجیدہ اور سپاٹ چہرہ لیے بینچ کے ایک طرف بچیوں کو لے کر بیٹھ گئی۔
عورت کے وکلا ء کا موقف تھا کہ بچیاں اپنے باپ سے ملنے جائیں گی لیکن رات کو وہاں رکیں گی نہیں ، صبح سے شام تک باپ بیٹیوں کو اپنے پاس رکھ سکتاہے لیکن رات کو بیٹیاں واپس ماں کے پاس بھیج دی جائیں ۔ باپ کا موقف تھا کہ وہ کیوں اپنی بیٹیوں کو رات کو اپنے پاس نہیں رکھ سکتا، وہ ان بچیوں کا گھر ہے ، وہاں ان بچیوں کا الگ کمرا ہے۔ کچھ دیر کے لیے باپ اپنی دونوں بچیوں کے ساتھ بینچ پر بیٹھا ۔انگریزی میں بات کررہاتھا اور بچیاں بھی اسے انگریزی میں جواب دے رہی تھیں، کہیں بچیاں باپ سے محبت و قربت محسوس کرتیں اور کہیں وہ کچھ فاصلے پر بیٹھی اپنی ماں کی طرف دیکھتیں ، باپ کہتا میری طرف دیکھو ، وہ آپ کا گھر ہے نا، وہاں آپ کا کمرا ہے ، آپ وہاں کیوں نہیں رہ سکتیں۔مجھے یہ منظر دیکھ کر پی ٹی وی کا ایک ڈرامہ یادآیا ،جس میں باپ کا کردار محمود صاحب کررہے تھے ،وہ اسی طرح کمرئہ عدالت میں بچوں سے ملتے ہیں ،بچوں کو چاکلیٹیں دیتے ہیں تو بچہ اس کو لینے سے انکار کردیتاہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ کیوں یہ تو آپ کی پسندیدہ چاکلیٹ ہے ، بچہ کہتاہے نہیں نہیں ،مجھے نہیں کھانی ، یہاں باپ یعنی محمود صاحب کا کردار ایک مکالمہ بولتاہے کہ ‘اس نے تمہارے ذہنوں میں بھی زہر بھر دیاہے۔’
میا ں بیوی اپنے اختلافات میں اپنے بچوں کو استعمال کرکے بہت بڑی بد اخلاقی بلکہ بد دیانتی کا ارتکاب کرتے ہیں۔ یہ خود ان کے بچوں کی تربیت اور شخصیت کی بڑھوتری کے لیے انتہائی مضر ہے۔ تیزی سوچ پر دھند کی طرح چھا جاتی ہے ، وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ میاں بیوی کا رشتہ ان کا ہے ،بچوں کے وہ ماں اور باپ ہیں۔ یہاں بھی ایسا ہی تھا۔ بچیاں باپ سے اکھڑی اکھڑی تھیں۔ یہ سب جج صاحب بھی دیکھ رہے تھے۔ وہ عورت کے اس مطالبے سے متفق نہیں تھے کہ بچیاں رات کو اپنے باپ کے ساتھ نہیں رہ سکتیں۔ اس موقع پر انہوں نے اپنے تبصرے (ریمارکس) میں کہا کہ اگر ماں کو کچھ ہو جاتا ہے تو بچیاں کہاں جائیں گی؟ یہی وہ فراست ہے اور دور کی وہ سوچ جہاں دھند آلود ذہن نہیں پہنچ پاتا۔ اگر کوئی ایک فریق دوسرے کی طرف سے بچوں کے ذہن کو اس کے خلاف بنادے اور اگر ان میں سے کسی فریق کو کچھ ہوجائے تو بچے کہاں جائیں گے ؟ کسی کو کبھی بھی کچھ بھی ہوجانا ، یہ کوئی ان ہونی نہیں ، یہی جج صاحب بھی فرما رہے تھے ۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ بچیاں باپ سے کھنچی کھنچی ہیں ، اور یہ نہیں ہونا چاہیے ،تو اگر کل کلاں ماں کو کچھ ہوجاتاہے تو بچیاں باپ کے پاس نہیں جائیں گی تو کس کے پاس جائیں گی ؟ وہ گھر جو اتنا بڑا تھا کہ بچیوں کے لیے الگ کمرا تھا۔ باپ کا گھر اور جہاں ماں اپنی بچیوں کے ساتھ رہ رہی تھی ، شاید میکہ وہ ایک ہی علاقے بلکہ محلے میں تھے ۔ممکن ہے یہ ان کی پسند کی شادی ہو، کیوں کہ نہ شوہر کے ساتھ کوئی رشتہ دار موجود تھا اور نہ بیوی کے ساتھ ،شوہر اکیلا تھا اور بیوی کے ساتھ وکیل اور بچیاں تھیں، مغربی لباس میں ، صحت مند ، اسمارٹ ،فر فر انگریزی بولتی پر اعتماد بچیاں۔
باپ ماں کی نوکری کے متعلق یہ کہہ رہا تھاکہ یہ کون سا بچیوں کو وقت دیتی ہیں ،یہ تو خود جاب پر ہوتی ہیں۔ عورت کے نوکری کرنے کے کئی عجیب و غریب نتائج ہیں ۔ مسائل وہاں ہوتے ہیں جہاں مرد یہ چاہتا ہے کہ بیوی گھرکو دیکھے لیکن دوسری طرف بیوی اپنے کیریئر کو بھی دیکھنا چاہتی ہے، اگر یہاں مرد ساتھ دے دے تو ۔۔۔لیکن مرد نہ چاہے کہ عورت نوکری کرے ، اس کے چاہنے پر بھی نہ چاہے ،ساتھ نہ دے تو ۔۔ اس مقدمے میں میاں بیوی میں معاملے کی نوعیت مجھے یہ لگی ۔
عورت بچیوں کو لے کر چلی گئی ، مرد عدالت میں موجود تھا ، کبھی یہ پرچہ جمع کرارہا ہے ، کبھی کسی پرچے کی کاپی ،کبھی کچھ کبھی کچھ ، کیا خواری
ہے ؟ کمرئہ عدالت میں جہاں جج صاحب نہ عورت کے رشتے دار نہ مرد کے ، جج صاحب نے مرد سے کہا کہ جھگڑا ختم کرو ،بیوی کو گھر لے آئو۔ مرد نے کہا کہ وہ خلع لے چکی ہے ۔ یہاں جج صاحب نے تاریخی ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ‘ ‘ خلع کے پرچے میں کیا رکھا ہے ، پھاڑ کر پھینک دو۔”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر