... loading ...
عماد بزدار
نومبر 1927میں سائمن کمشن کا اعلان ہوا جس کا مقصد ہندوستان کے لئے آئندہ دستوری اصلاحات بارے سفارشات پیش کرنا تھا۔ کانگریس اور مسلم لیگ دونوں نے سائمن کمشن کے بائیکاٹ کا اعلان کیا لیکن پنجاب کے مسلمان لیڈر اس بائیکاٹ کے حق میں نہیں تھے۔ یہاں آکر مسلم لوگ دو دھڑوں میں تقسیم ہوگئی ایک ”جناح لیگ ”کیونکہ جناح صاحب کانگریس کے ساتھ کمیشن کے بائیکاٹ کے حق میں تھے اور دوسرا”شفیع لیگ”کے نام سے مشہور ہوا۔ اقبال بھی اسی شفیع لیگ کا حصہ ہوتے ہوئے اس بائیکاٹ کے حق میں نہیں تھے ۔انہی ہنگاموں کے دوران شفیع لیگ نے دسمبر 1927میں اپنا جلسہ اسلامیہ کالج لاہور کے حبیبیہ ہال میں منعقد کیا اور جناح لیگ نے اپنا اجلاس کلکتہ میں کیا۔ شفیع لیگ میں سر شفیع کے علاوہ اقبال، نواب سر ذوالفقار اور حسرت موہانی نے شرکت کی جبکہ جناح لیگ کے اجلاس میں محمد علی
جناح کے علاوہ علی برادران، مولانا ظفر علی خان، مولانا ابوالکلام آزاد ، مہاراجہ محمود آباد شامل تھے ۔19دسمبر 1927کو محمد علی جناح کی پالیسی پر تبصرہ کرتے ہوئے اقبال نے یہ بیان دیا
”مسٹر جناح اور ان کے رفقاء نے بدقسمتی سے قومی زندگی کی ایسی حالت کا تصور کر رکھا ہے جو حقیقت میں مفقودہے ۔
مسٹر جناح کو بخوبی علم ہے کہ تقرر کمیشن کا اعلان ہونے سے پہلے مسلمانوں نے متعدد مرتبہ اکثریت سے درخواست کی
کہ باہمی اختلافات کا تصفیہ کرائیں پھر موتمر اتحاد شملہ میںمسلمانوں نے ایک مرتبہ پھر اپنے شکوے کی آواز بلند کی اور
اب اس موقع پر پھر مسلمان ان کو صلح کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ اس تماشے میں مسٹر جناح چیف ایکٹر رہے ۔ کیا وہ
ہم کو بتلا سکتے ہیں کہ ان کو کبھی ہندوؤں کی جانب سے سوائے سخت ہٹ دھرمی کے اور کوئی جواب ملا ہے ۔۔ ہم اس بات
کو نظر انداز نہیں کرسکتے کہ دولت ، رسوخ، سیاسی قیادت اور تعداد کے لحاظ سے ہم ہندوؤں کا مقابلہ نہیں کرسکتے ۔ اس لئے
جب تک ہم ہندوؤں اورانگریزی حکومت دونوں سے اپنے حقوق کا مطالبہ مستعدی اور سرگرمی سے نہ کریں، ہماری سیاسی
موت مسلمہ امر ہے ، جیسا کہ بعض مسلمان ہم سے کہتے ہیں کہ ہم اکثریت کی ہوائی فیاضی پر اعتماد نہیں کرسکتے ۔ اب
قیاسات اور جذبات کی گنجائش نہیں ۔ ہمیں ٹھوس دلائل کی ضرورت ہے ۔ مسٹر جناح اور ان کے دوست ہم کو اپنے مفاد
کے لئے موردِ طعن و تشنیع بنائیں، ہم اس بات کو زمانہ مستقبل پر چھوڑتے ہیں جو ہمارے اس استقلال کا انصاف کرے
گا جو ہم نے فرقہ وار نہ مفاد کو مستحکم بنیاد پر رکھنے میں دکھلایا ہے” ۔
شفیع لیگ نے اپنے اجلاس میں ” تجاویز دہلی” کے خلاف اور کمیشن کے ساتھ تعاون کے حق میں قرادادیں پاس کیں جبکہ ”جناح لیگ” نے کمیشن کے بائیکاٹ اور ”تجاویز دہلی”کے حق میں قرادادیں منظور کیں۔اس موقع پر جناح صاحب نے قراداد کی تائید کرتے ہوئے کہا
”یہ تجاویز بہت سے دماغوں کے مجموعی غور و فکر کا نتیجہ ہیں۔ آپ یہ توقع نہ رکھئے کہ ہر شخص کو اس طویل
قرارداد کے ایک ایک لفظ یا ایک ایک جملے سے اتفا ق ہوگا۔ لیکن جہاں تک اس کی روح کا تعلق ہے
جو اس قراداد میں جاری و ساری ہے میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ یہ تجویز ہندوستان کی دونوں
قوموں کے لئے جائز، معقول اور منصفانہ ہے ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم ملک کی اکثریت کو بھی اپنے
ساتھ شامل کرسکیں گے ؟ اگر قوم کی اکثریت بھی ہماری ہم نوا بن جائے تو مجھ سے بڑھ کر اور کسی کو مسرت
نہ ہوگی۔ بہرحال یہ امر بھی تصفیہ طلب ہے اور آئندہ ہمارا فرض ہوگا کہ عوام کو اس قراداد کے حقیقی مفہوم
سے آگاہ کریں اور انہیں اس کی صداقت کا یقین دلا کر اپنے ساتھ شامل کرنے کی کوشش کریں۔ جہاں
تک غرض و غایت اور مفاد کا تعلق ہے مجھے یقین ہے کہ مسلمانانِ ہند کی فلاح و بہبود کے لئے اس قرارداد
سے بہتر اور کوئی تجویز نہیں”۔
شفیع لیگ میں اپنے لاہور کے اجلاس میں اقبال کی پیش کردہ یہ قراداد منظورکی
” موجودہ نظام میں بنگال اور پنجاب کے مسلمانوں کو مجلس وضع قوانین میں اکثریت کے حقوق سے محروم رکھا
گیا ہے ۔ آل انڈیا مسلم لیگ کا یہ اجلاس اس کے خلاف پُرزور احتجاج کرتا ہے اور اسے اصول جمہوریت کے
منافی بتاتا ہے ۔ لیگ، حکومت سے مطالبہ کرتی ہے کہ 1921میں مسلمانوں کے ساتھ جو بے انصافی کی گئی
تھی اسے دور کیا جائے” ۔
اسی دوران وزیر ہند لارڈ برکن ہیڈ نے ہندوستانیوں کو چیلنج کیا تھا کہ وہ مل کر کوئی دستور بنانے کی اہلیت نہیں رکھتے اس حوالے سے 19 مئی 1928ء کو کانگریس کی کوششوں سے بمبئی میں ایک آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ اس اجلاس میں دستور بنانے کے لئے پنڈت موتی لال نہرو کی صدارت میں ایک دس رکنی سب کمیٹی تشکیل دی گئی۔ جس کے ارکان میں سر علی امام، شعیب قریشی، پنڈت موتی لال نہرو، ایم ایس اینے ، ایم آر جیکار،جی آر پردھان، سردار منگل سنگھ ، سرتیج بہادر سپرو، ایم این جوشی اور سبھاش چندر بوس شامل تھے ۔
آل پارٹیز کانفرنس کا دوسرا اجلاس ڈاکٹر انصاری کی سربراہی میں لکھنومیں ہوا جہاں کمیٹی نے دستور کے بنانے کے حوالے سے اپنی رپورٹ ( نہرورپورٹ ) پیش کی اس رپورٹ میں ” تجاویز دہلی”سے صریحا انحراف کیا گیا جیسے پنجاب اور بنگال میں مسلمانوں کی نشستیں آبادی کے تناسب سے مخصوص کرنے سے انکار کردیا تھا اس کے علاوہ مرکز میں بھی مسلمانوں کو ایک تہائی نشستیں دینے سے انکار کرکے مخلوط انتخاب کی سفارش کردی گئی تھی۔ محمد علی جناح ان دنوں انگلستان میں تھے ۔ اس اجلاس میں مولانا شوکت علی نے ان تجاویز کی مخالفت کی لیکن کانفرنس نے اس کی مشروط منظوری دی کہ دسمبر 1928 میں کانگرس کے سالانہ اجلاس میں جو کلکتہ میں ہوگا، اس رپورٹ پر آخری مہر تصدیق ثبت کیا جائے گا۔
شفیع لیگ نے اس موقع کا خوب فائدہ اٹھایا اور جناح لیگ پر تابڑ توڑ حملے کیے کہ اگر جناح لیگ” تجاویز دہلی” میں جداگانہ طرز انتخاب کو ترک کرنے کی ہامی نہ بھرتے تو نہرو رپورٹ مرتب کرنے والوں کو مسلمانوں کے ساتھ اس مذاق کی ہمت نہ ہوتی ۔