وجود

... loading ...

وجود

جناح کا مقدمہ ( قسط نمبر 5)

اتوار 05 مئی 2024 جناح کا مقدمہ ( قسط نمبر 5)

عماد بزدار

 

نومبر 1927میں سائمن کمشن کا اعلان ہوا جس کا مقصد ہندوستان کے لئے آئندہ دستوری اصلاحات بارے سفارشات پیش کرنا تھا۔ کانگریس اور مسلم لیگ دونوں نے سائمن کمشن کے بائیکاٹ کا اعلان کیا لیکن پنجاب کے مسلمان لیڈر اس بائیکاٹ کے حق میں نہیں تھے۔ یہاں آکر مسلم لوگ دو دھڑوں میں تقسیم ہوگئی ایک ”جناح لیگ ”کیونکہ جناح صاحب کانگریس کے ساتھ کمیشن کے بائیکاٹ کے حق میں تھے اور دوسرا”شفیع لیگ”کے نام سے مشہور ہوا۔ اقبال بھی اسی شفیع لیگ کا حصہ ہوتے ہوئے اس بائیکاٹ کے حق میں نہیں تھے ۔انہی ہنگاموں کے دوران شفیع لیگ نے دسمبر 1927میں اپنا جلسہ اسلامیہ کالج لاہور کے حبیبیہ ہال میں منعقد کیا اور جناح لیگ نے اپنا اجلاس کلکتہ میں کیا۔ شفیع لیگ میں سر شفیع کے علاوہ اقبال، نواب سر ذوالفقار اور حسرت موہانی نے شرکت کی جبکہ جناح لیگ کے اجلاس میں محمد علی
جناح کے علاوہ علی برادران، مولانا ظفر علی خان، مولانا ابوالکلام آزاد ، مہاراجہ محمود آباد شامل تھے ۔19دسمبر 1927کو محمد علی جناح کی پالیسی پر تبصرہ کرتے ہوئے اقبال نے یہ بیان دیا
”مسٹر جناح اور ان کے رفقاء نے بدقسمتی سے قومی زندگی کی ایسی حالت کا تصور کر رکھا ہے جو حقیقت میں مفقودہے ۔
مسٹر جناح کو بخوبی علم ہے کہ تقرر کمیشن کا اعلان ہونے سے پہلے مسلمانوں نے متعدد مرتبہ اکثریت سے درخواست کی
کہ باہمی اختلافات کا تصفیہ کرائیں پھر موتمر اتحاد شملہ میںمسلمانوں نے ایک مرتبہ پھر اپنے شکوے کی آواز بلند کی اور
اب اس موقع پر پھر مسلمان ان کو صلح کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ اس تماشے میں مسٹر جناح چیف ایکٹر رہے ۔ کیا وہ
ہم کو بتلا سکتے ہیں کہ ان کو کبھی ہندوؤں کی جانب سے سوائے سخت ہٹ دھرمی کے اور کوئی جواب ملا ہے ۔۔ ہم اس بات
کو نظر انداز نہیں کرسکتے کہ دولت ، رسوخ، سیاسی قیادت اور تعداد کے لحاظ سے ہم ہندوؤں کا مقابلہ نہیں کرسکتے ۔ اس لئے
جب تک ہم ہندوؤں اورانگریزی حکومت دونوں سے اپنے حقوق کا مطالبہ مستعدی اور سرگرمی سے نہ کریں، ہماری سیاسی
موت مسلمہ امر ہے ، جیسا کہ بعض مسلمان ہم سے کہتے ہیں کہ ہم اکثریت کی ہوائی فیاضی پر اعتماد نہیں کرسکتے ۔ اب
قیاسات اور جذبات کی گنجائش نہیں ۔ ہمیں ٹھوس دلائل کی ضرورت ہے ۔ مسٹر جناح اور ان کے دوست ہم کو اپنے مفاد
کے لئے موردِ طعن و تشنیع بنائیں، ہم اس بات کو زمانہ مستقبل پر چھوڑتے ہیں جو ہمارے اس استقلال کا انصاف کرے
گا جو ہم نے فرقہ وار نہ مفاد کو مستحکم بنیاد پر رکھنے میں دکھلایا ہے” ۔
شفیع لیگ نے اپنے اجلاس میں ” تجاویز دہلی” کے خلاف اور کمیشن کے ساتھ تعاون کے حق میں قرادادیں پاس کیں جبکہ ”جناح لیگ” نے کمیشن کے بائیکاٹ اور ”تجاویز دہلی”کے حق میں قرادادیں منظور کیں۔اس موقع پر جناح صاحب نے قراداد کی تائید کرتے ہوئے کہا
”یہ تجاویز بہت سے دماغوں کے مجموعی غور و فکر کا نتیجہ ہیں۔ آپ یہ توقع نہ رکھئے کہ ہر شخص کو اس طویل
قرارداد کے ایک ایک لفظ یا ایک ایک جملے سے اتفا ق ہوگا۔ لیکن جہاں تک اس کی روح کا تعلق ہے
جو اس قراداد میں جاری و ساری ہے میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ یہ تجویز ہندوستان کی دونوں
قوموں کے لئے جائز، معقول اور منصفانہ ہے ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم ملک کی اکثریت کو بھی اپنے
ساتھ شامل کرسکیں گے ؟ اگر قوم کی اکثریت بھی ہماری ہم نوا بن جائے تو مجھ سے بڑھ کر اور کسی کو مسرت
نہ ہوگی۔ بہرحال یہ امر بھی تصفیہ طلب ہے اور آئندہ ہمارا فرض ہوگا کہ عوام کو اس قراداد کے حقیقی مفہوم
سے آگاہ کریں اور انہیں اس کی صداقت کا یقین دلا کر اپنے ساتھ شامل کرنے کی کوشش کریں۔ جہاں
تک غرض و غایت اور مفاد کا تعلق ہے مجھے یقین ہے کہ مسلمانانِ ہند کی فلاح و بہبود کے لئے اس قرارداد
سے بہتر اور کوئی تجویز نہیں”۔
شفیع لیگ میں اپنے لاہور کے اجلاس میں اقبال کی پیش کردہ یہ قراداد منظورکی
” موجودہ نظام میں بنگال اور پنجاب کے مسلمانوں کو مجلس وضع قوانین میں اکثریت کے حقوق سے محروم رکھا
گیا ہے ۔ آل انڈیا مسلم لیگ کا یہ اجلاس اس کے خلاف پُرزور احتجاج کرتا ہے اور اسے اصول جمہوریت کے
منافی بتاتا ہے ۔ لیگ، حکومت سے مطالبہ کرتی ہے کہ 1921میں مسلمانوں کے ساتھ جو بے انصافی کی گئی
تھی اسے دور کیا جائے” ۔
اسی دوران وزیر ہند لارڈ برکن ہیڈ نے ہندوستانیوں کو چیلنج کیا تھا کہ وہ مل کر کوئی دستور بنانے کی اہلیت نہیں رکھتے اس حوالے سے 19 مئی 1928ء کو کانگریس کی کوششوں سے بمبئی میں ایک آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ اس اجلاس میں دستور بنانے کے لئے پنڈت موتی لال نہرو کی صدارت میں ایک دس رکنی سب کمیٹی تشکیل دی گئی۔ جس کے ارکان میں سر علی امام، شعیب قریشی، پنڈت موتی لال نہرو، ایم ایس اینے ، ایم آر جیکار،جی آر پردھان، سردار منگل سنگھ ، سرتیج بہادر سپرو، ایم این جوشی اور سبھاش چندر بوس شامل تھے ۔
آل پارٹیز کانفرنس کا دوسرا اجلاس ڈاکٹر انصاری کی سربراہی میں لکھنومیں ہوا جہاں کمیٹی نے دستور کے بنانے کے حوالے سے اپنی رپورٹ ( نہرورپورٹ ) پیش کی اس رپورٹ میں ” تجاویز دہلی”سے صریحا انحراف کیا گیا جیسے پنجاب اور بنگال میں مسلمانوں کی نشستیں آبادی کے تناسب سے مخصوص کرنے سے انکار کردیا تھا اس کے علاوہ مرکز میں بھی مسلمانوں کو ایک تہائی نشستیں دینے سے انکار کرکے مخلوط انتخاب کی سفارش کردی گئی تھی۔ محمد علی جناح ان دنوں انگلستان میں تھے ۔ اس اجلاس میں مولانا شوکت علی نے ان تجاویز کی مخالفت کی لیکن کانفرنس نے اس کی مشروط منظوری دی کہ دسمبر 1928 میں کانگرس کے سالانہ اجلاس میں جو کلکتہ میں ہوگا، اس رپورٹ پر آخری مہر تصدیق ثبت کیا جائے گا۔
شفیع لیگ نے اس موقع کا خوب فائدہ اٹھایا اور جناح لیگ پر تابڑ توڑ حملے کیے کہ اگر جناح لیگ” تجاویز دہلی” میں جداگانہ طرز انتخاب کو ترک کرنے کی ہامی نہ بھرتے تو نہرو رپورٹ مرتب کرنے والوں کو مسلمانوں کے ساتھ اس مذاق کی ہمت نہ ہوتی ۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر