... loading ...
زریں اختر
ستمبرگیارہ المعروف نائن الیون ۔ پچھلے دن ایک پی ایچ ڈی کا مقالہ بعنوان ”دہشت گردی کے خلاف جنگ پر برطانوی اور پاکستانی اخبارات کے اداریوں کا موازنہ ”پڑھتے گزرے۔یہ تحقیق ‘اوٹارا یونیورسٹی ،ملائشیا ‘ میں عاصمہ صفدر نامی مقالہ نگار نے کی ،سالِ اشاعت ٢٠١٥ء ہے ۔اس تحقیق کے لیے برطانیہ کے دو روزنامے، گارجین اور انڈیپنڈنٹ اور پاکستا ن کے دوانگریزی روزنامے ڈان اور دی نیوز کابارہ ستمبر ٢٠١١ء تا گیارہ ستمبر ٢٠١٣ء یعنی دو سال کے اداریوں کا مطالعہ شامل تھا۔
مقالہ پڑھتے ہوئے کہیں میری توجہ نظریے ،تکنیک اور طریقۂ تحقیق پر ہوتی جو کہ مقالے کو پڑھنے کا اصل مقصد تھا تو کہیں میں موضوع میں کھو جاتی کہ یہ ایسا موضوع ہے جس کے ایک طرف عالمی سیاست ،علاقائی سیاست اور پاک امریکہ تعلقات کی جہات تھیں تو دوسری طرف اس نے دنیا میں مذہبی تقسیم کے تصور کو تقویت دی اور بد قسمتی سے یہ سب اکیسویں صدی کے پہلے ہی سال ہوگیا۔ اس تحقیق کے مطابق اس وقت کے امریکی اخبارات کی پالیسی مکمل طور پر بش انتظامیہ کے ساتھ تھی اور یہ اخبارات کا اپنا آزادانہ فیصلہ نہیں تھا یہی وجہ ہے کہ تحقیق میںامریکہ میں آزادیٔ اظہار کے جمہوری حق پر بھی سوالات اٹھائے گئے۔دوسری طرف اس تحقیق کے مطابق امریکی اخبارا ت کو بش انتظامیہ کے اقدامات کے مخالف نکتہ نظر پیش کرنا تو دور کی بات غیر جانب دارانہ پالیسی اختیار کرنے کی بھی اجازت نہیں دی گئی یعنی پالیسی یہ رہی کہ آپ کو لکھنا ہے اور ہمارے حق میں لکھنا ہے ۔ممکن ہے کہ بش انتظامیہ کی طرح اخبارات کو بھی لگا ہو کہ ستمبر گیارہ کا مطلب یہ ہے کہ ملکی سا لمیت براہ ِراست نشانے پر ہے اور اس کا منہ توڑ جواب ہی دیا جانا چاہیے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ نہ صرف تمام ادارے ایک صفحے پر ہوں بلکہ رائے عامہ بھی اسی سمت ہموار کی جائے،یہ نہ ہو کہ داخلیت پر حملے سے نبٹنے کے لیے مخالف عوامی ردّ ِ عمل کا بھی سامنا کرنا پڑے۔لیکن بش کے تاریخی الفاظ ”یا تو آپ ہمارے ساتھ ہیں یا نہیں ہیں”کی روشنی میں یہ کہا جاسکتاہے کہ بش انتظامیہ کی بیرونی ہی نہیں بلکہ اندرونی پالیسی بھی یہی تھی۔
ستمبر گیارہ کا بش پر اثر ایسا ہی تھا جیسے بل فائٹنگ کے میدان میں بل کو سرخ کپڑا ہی نہیں دکھایا گیاہو بلکہ بل کے سینگ بھی توڑ دیے، گئے ہوں، اس غصیل بل کی چنگھاڑ بش کی دھاڑ کی صورت میںدنیا میں چہار سمت سنی گئی ۔بش کی ‘دہشت گردی کے خلاف’ جنگ کی حکمت ِ عملی کی ملکی سطح پر مشہوری ، مقبولیت اور قبولیت کا بین ثبوت امریکہ اگلے صدارتی انتخابات میں اس کی دوبارہ کامیابی سے بہ خوبی کیا جا سکتا ہے۔ اب یہاں امریکی اخبارات کی آزادانہ جمہوری روایات پر مزید لب کشائی کی ضرورت نہیںجب اس لب کشائی کی جرأت امریکی اخبارات نہ کرسکے کہ انہوں نے تو اپنے لیے خود پہلی آئینی ترمیم کو بھی اپنی ڈھال نہیں بنایاجو تقریباََِِ ڈھائی سو سالہ تاریخ رکھتی ہے کہ کانگریس ایسا کوئی قانون منطور نہیں کرے گی جو آزادی اظہار کے خلاف ہو،بل آف رائٹ ٤ ِ جولائی ١٧٧٦ئ۔
اس وقت کے برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر اگرچہ کہ بش کے برابر کے اتحادی بنے لیکن جن دوبرطانوی اخبارات کے اداریوں پر تحقیق کی گئی ان کی پالیسی واضح طور پر بلیئر کی بش کے ‘شانہ بشانہ ‘ پالیسی کے مخالف رہی ۔اس تحقیق کے مطابق ان اداریوں میں جو حکومتی اقدامات کے مخالف استدلال سامنے آیا وہ یہ کہ کسی دہشت گردانہ حملے کے جواب میں کسی ملک کی طرف سے کسی دوسرے ملک یا ممالک پر حملے کا جواز نہیں بنتا جب کہ بش انتظامیہ کی جانب سے ان حملوں کا ذمہ دار اسامہ بن لادن کو قراردیا گیا لیکن کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیااور نہ ہی اقوام متحدہ کو امریکی اقدامات کی حمایت حاصل تھی ۔لیکن امریکہ کی جانب سے پہلے مرحلے پر افغانستان اور دوسرے مرحلے پر عراق پر جنگ مسلط کردی گئی ۔ برطانوی اخبارات نے ملکی پالیسیوں پر تنقید کی اور انہوں نے ان دوملکوں میں انسانی جانوں کے اتلاف ، املاک کی تباہی ، سماجی نظام کی صورت حال ،خوارک کی کمی ، پانی کی فراہمی ، زخمی ہونے والے شہریوں کے لیے علاج کی سہولیات ان سب کو موضوع بنایا۔اخبارات نے انسانی حقوق کی صورت حال اوربحالی کے اقدامات کو بھی مستقل اداریوں کا موضوع بنایا۔ عراق کے بارے میں اقوام متحدہ کی اس رپورٹ کے باوجود کے وہاں امریکی الزام کے مطابق کوئی نیو کلیئر بم نہیں ہے اور صدام حسین یہ درخواست کررہا ہے کہ اس کو اپنے بیٹوں کے ساتھ ملک چھوڑنے کی اجازت دی جائے ،عراق پر حملے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ لیکن امریکہ نے عراق پر حملہ کیا اور برطانیہ کے ساتھ دینے پر برطانوی اخبارات نے کھل کر تنقید کی ۔ اس سے برطانیہ میں اخبارات کی آزادی کی صورت حال بھی سامنے آتی ہے لیکن کیا اس کی ایک وجہ یہ بھی سمجھی جاسکتی ہے کہ نائن الیون کابراہ راست شکار برطانوی سرزمین نہیں تھی کہ ایک وقت وہ بھی تھا جب سلطنت انگلشیہ میں سورج غروب نہیں ہوتاتھا۔
پاکستانی اخبارات کے اداریوں میں جو موقف اختیار کیا گیا وہ دنیا کی مذہب کی بنیادپر تقسیم ، امریکہ کی تیل تک رسائی اور مشرق وسطیٰ میں امریکی رسوخ کی کوششیں تھا جو امریکہ کا مقصد تھا۔ افغانستان کی حوالے سے پاکستان کی پالیسی نے یو ٹرن لیا۔ کل کے مجاہد اب دہشت گرد تھے۔پاکستان امریکہ کا ساتھی بنا جس کے بدلے میں پاکستان کے حصے میں امریکی بد اعتمادی اور مذہبی انتہا پسندی آئی ۔ستمبر گیارہ کے جواب میں امریکہ یا بش انتظامیہ کا جو ردّ ِعمل دنیا کے سامنے آیا اس نے مذہب کو ہتھیا ر کے طور پر استعمال کرنے کی منفی سوچ پر تہذیب کے اتنے لمبے سفر کے بعد مہر ِ تصدیق ثبت کر دی۔ سماج کی تاریخی جدلیاتی تقسیم سمجھی جاسکتی ہے لیکن اس کھیل میں مذہبی کارڈ استعمال کا موقع آنے نہیں دینا چاہیے ۔ستمبر گیارہ کے جواب میں جو بش انتظامیہ نے پالیسی بنائی وہ اپنی بنیاد میں تہذیبی ،اخلاقی ، قانونی غرض ہر لحاظ سے بد ترین تاریخی نتائج رکھتی ہے۔ یہ دنیا میں مذہبی تقسیم کی بنیاد بنانے میں انتہاپسندی کو تقویت دیتی ہے۔ یہ امریکہ مخالف رویے کو بھی فروغ دیتی ہے۔ بش نے تاریخ میں تہذیبی سطح پر اپنا اور امریکہ کا نام بلند کرنے کا تاریخی موقع گنوادیا۔ اس کی حالت ایسی ہوگئی جیسے زخمی سانڈ کی ۔ اس نے اخبارات کے اداریوںپر کی جانے والی تحقیق کے مطابق جس کی لاٹھی اس کی بھینس (مائٹ از رائٹ ) کے مقولے کو درست ثابت کردیا۔ ہم اقوام متحدہ کے ساتھ ساتھ اسلامی ممالک کی تنظیم (او آئی سی ) اور عرب ممالک کی تنظیم کو بھی رو سکتے ہیں۔
اس تحقیق کے مطابق بل کلنٹن جو دو مرتبہ امریکہ کے صدر منتخب ہوئے نے بش کو اس ردّعمل سے باز رہنے کا مشورہ دیاتھا۔ ہم سوچ سکتے ہیں کہ کاش اس وقت بل کلنٹن صدر ہوتے تو شاید آج دنیا کی تاریخ مختلف ہوتی اور امریکہ کی تصویر ایسے ملک کی جس کے واحد عالمی طاقت ہونے پر دنیا فخر کرتی اور سوچتی کہ طاقت کا توازن اگر جھکائو رکھتا بھی ہے تو یہ اتنا بھی برا نہیں کہ کائنات کا نظام بھی ایک خدا ہی کے ہاتھ میں ہے ،لیکن افسوس یہ ہو نہ سکا۔
میں اس بات پر سہمت ہو ں کہ تاریخ بااختیار سیاسی شخصیت لکھتاہے۔ اس وقت وہ شخص جارج ڈبلیو بش تھا جو بعد میں دوبارہ امریکہ کا اگلے چار برس کے لیے صدر منتخب ہوا۔ قانون وہی جو انگریزی زبان میں بھی مروج ہے اور اردو میں بھی موجودہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔