... loading ...
میری بات/روہیل اکبر
قرض اور جوا دونوں ایسی چیزیں ہیں جو انسان لالچ میں آکر استعمال کرتا ہے اور یہ دونوں لعنتیں بڑھتی بڑھتی اس حد تک چلی جاتی ہیں کہ انسان کے گھر کے برتن تک بک جاتے ہیں ۔اس پر بعد میں لکھوں گا پہلے کچھ شتر بے مہار سوشل میڈیا کا ذکر کردو جو اس وقت بے لگام ہوچکا ہے ۔کیونکہ ہمارا باقی کا میڈیا سرکارکا غلام بن چکا ہے ۔اصل خبر ڈھونڈنے کے لیے لوگ سوشل میڈیا کی مدد لیتے ہیں جس کے ہمارے معاشرے پر بہت سے منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ ایسے ایسے فیک اکائونٹ کی مدد سے مختلف افراد کے خلاف مہم چلائی جارہی ہے جو جوھٹی ہونے کے باوجود سچی لگنا شروع ہوجاتی ہے حالیہ دنوں جسٹس بابر ستار کے خلاف مہم چلائی گئی جس کی وضاحت بڑی دیر بعد اسلام آباد ہائیکورٹ کو ہی دینا پڑی حالانکہ یہ حکومتی اداروں کا کام ہے کہ وہ ہر ایسی مہم کا فوری منہ توڑ جواب دے لیکن بدقسمتی سے ہمارے تمام ادارے اپنے اصل کام سے ہٹ کر دوسرے کاموں میں مصروف ہیں۔ سوشل میڈیا کو دیکھنا اس پر پالیسی بنانا اور پھر اس پر عملدرآمد کروانا محکمہ تعلقات عامہ صوبائی سطح پر ڈی جی پی آر اور مرکزی سطح پر پی آئی ڈی کا کام ہے جنہوں نے اس حوالے سے ابھی تک کوئی کام نہیں کیا حالانکہ دنیا بھر میں سوشل میڈیا بھی ایک قانونی دائرے کے اندر رہتے ہوئے کام کرتا ہے لیکن ہمارے ہاں لائیکس ،سبسکرائبز اور مونوٹائز کے چکر میں ہم وہ کچھ بھی کر جاتے ہیں جو ہمارے اپنے ،قوم کے اور ملک کے مفاد میں بھی نہیں ہوتا اور یہ سب کچھ اس وقت تک ہوتا رہے گا جب تک ہم اس اتھرے گھوڑے کو لگام نہیں ڈال دیتے اس کے لیے ہمارے اداروں کو بھی سنجیدہ ہوکر اس پر کام کرنا پڑے گا ، رہی بات ڈی جی پی آر کی اس ادارے کی حیثیت آج صرف اشتہاری کمپنی کی بن کررہ گئی ہے۔ حالانکہ اس ادارے کا کام عوام اور حکومت کے درمیان فاصلہ کم کرنا ہے لیکن اس ادارے کے افسران ماس کمیونیکیشن کی ڈگریوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے جب اس ادارے میں آتے ہیں تووہ بھی کلرک بن جاتے ہیں کسی کی اپنی سوچ ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی وژن لکیر کے فقیر بن کر خبر لگوانا اور دوسرے دن اخبارات میں اپنی بنی ہوئی خبر کوچھپی دیکھ کر خوش ہونا ہی انکا کام رہ جاتا ہے میں نے آج تک کسی پی آر او کو یہ کہتے نہیں سنا کہ آپ ہمارے منسٹر کا انٹرویو کریں ،انکے اچھے کاموں کی تشہیر کریں یا کبھی کسی پی آر او نے اپنے کسی وزیر کے حلقے کا صحافیوں کے وفد کو دورہ کروایا ہوا باقی سب باتوں کو تو چھوڑیں کسی پی آر او سے اسکے منسٹر کا نمبر مانگ لیں تو انہیں موت پڑ جاتی ہے کہ اچھے خاصے افسر ہونے کے باوجود ڈی جی پی آر میں بیٹھے ہوئے ڈائریکٹر تک کے لوگ کلرکوں سے بدتر ہیں جو صرف ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کی سیاست کررہے ہیں ۔
ایک دور تھا کہ ڈی جی پی آر باقی سب محکموں سے تگڑا محکمہ ہوا کرتا تھا لیکن آج یہ محکمہ خود اپنی کارستانیوں کی وجہ سے ختم ہوتا جارہا ہے۔ اگر اس محکمہ سے اشتہارات والا کام ختم کردیا جائے تو یہ محکمہ عملاً ختم ہوجائیگا۔ ان کے پاس صحافیوں کے لیے کوئی سہولت نہیں اور تو اور ان کے پاس خود اپنے لیے بھی کچھ نہیں ہے ،وہ تو بھلا ہو ثمن رائے کا جس نے اس مرتے ہوئے محکمہ کو بچا لیا۔ نئی بلڈنگ دی ،نئی گاڑیا ں لیکر دیں ، کمروں میں نئے اے سی لگوادیے اور صاف پانی کے درجنوں ڈسپنسر لگوا کر دیے۔ اس محکمہ کے لوگوں کی مثال اس سے اچھی اور کوئی نہیں ہوسکتی کہ یہ جس ٹہنی پر بیٹھے ہیں سب مل کر اسے ہی کاٹ رہے ہیں اور وہ دن دور نہیں جب سب منہ کے بل دھڑام سے نیچے پڑے ہونگے اور انہیں اٹھانے والا کوئی نہیں ہوگا۔ اس محکمہ کے ٹیلی فون آپریٹر سے لیکر اوپر تک سب ہی اپنے آپ کو نواب سراج الدولہ سمجھتے ہیں لیکن کام ان کے دولے شاہ کے چوہوں سے بھی کم ہیں۔ ڈی جی آپریٹر سے کوئی ٹیلی فون نمبر مانگ لیں تو فورا جواب ملتا ہے کہ نہیں ہے یہاں تک کہ انکے پاس سے ان کے نئے ڈی جی پی آر کا نمبر بھی نہیں ملتاجبکہ سب سے اہم سیٹ ڈائریکٹر نیوز ہوتی ہے جہاں پورے محکمہ سے چن کر ایسے خشک ترین شخص کو لگایا گیا ہے جو اس محکمہ کو پولیس کا تفتیشی ونگ سمجھتا ہے موجودہ ڈی جی پی آر اگر اس ادارے میں کوئی مثبت تبدیلی لانے میں ناکام رہا تو میں سمجھونگا کہ وہ بھی اس ادارے کی بربادی میں اپنا حصہ ڈال کرایک دن رخصت ہوجائیں گے لیکن انہیں بھی یاد رکھا جائیگا کیا ہی اچھا ہو کہ انہیں ثمن رائے کی طرح یاد کیا جائے۔
رہی بات سوشل میڈیا کی تواس بارے میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا ہے کہ حکومت سوشل میڈیا سے متعلق قانون سازی پر کام کر رہی ہے۔ انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کے رویے پر مزید پالیسی گائیڈ لائنز متعارف کرائی جائیں گی۔ ڈیجیٹل رائٹس اور قابل اعتراض مواد کے معاملے میں بھی بہتری آئے گی ۔امید ہے وہ اس کام کو جلد پایہ تکمیل تک پہنچا کر د م لیں گے کیونکہ وہ ایک قابل اور محنتی انسان ہیں اس حوالہ سے اگر وہ پنجاب سے عثمان انور سمیت ان جیسے سوشل میڈیا کو سمجھنے والوں کو بھی اپنے ساتھ ملا لیں تو مزید بہتری کی گنجائش نکل سکتی ہے ۔اب کچھ تذکرہ قرض اور جوئے کا جو ہمارے ہاں سب سے زیادہ ترقی پر ہے اور شیطان کی آنت کی طرح بڑھتا ہی جارہا ہے۔ قرض اورجوا دونوں ایسی چیزیں ہیں جو انسان لالچ میں آکر استعمال کرتا ہے اور یہ دونوں لعنتیں بڑھتی بڑھتی اس حد تک چلی جاتی ہیں کہ انسان کے گھر کے برتن تک بک جاتے ہیں۔ آج ہماری قوم ان دونوں چیزوں کے بھنور میں ایسی پھنسی ہے کہ واپسی کا راستہ نظر نہیں آرہا۔ ایک طرف حکمران ہیں جو قرض کو ثواب سمجھ کر مانگتے ہیں اور پھر اسے بے دردری سے آڑا دیتے ہیں اور بھگتنا قوم کو پڑتا ہے تو دوسری طرف جواری لوگ ہیں جو قوم کولوٹ رہے ہیں۔ پاکستان میں جو ئے کے کون کون سے طریقے اور کیسے استعمال ہوتے ہیں اور ان کے تدارک کے لیے ہماری ایجنسیوں کا کیا کردار ہے، اس پر آج لکھوں گا۔لیکن اس سے پہلے تشویشناک بات یہ ہے کہ حکمرانوں نے قرض کا جو طوق پوری قوم کے گلے میں ڈال رکھا ہے اس سے ہماری قوم کا ہر فرد 2لاکھ 88ہزار کا مقروض ہوچکا ہے۔ اس بات کا اعلان ماہر معیشت اور سابق وزیر خزانہ پنجاب ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نے کیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ ہم نے بطور نیشن آمدن کم اور اخراجات زیادہ کر لیے ہیں۔ پچھلے 12سالوں میں ماضی کی نسبت دُگنا قرضہ لیا ہے قرض سمیت دیگر ادائیگیاں ڈالرز میں کرنی ہوتی ہیں، ہم ڈالرز چھاپ نہیں سکتے۔اس لیے ہمیں کمانے ہوتے ہیں جبکہ بجٹ خسارے کو پورا کرنے کے لیے قرض لیا جاتا ہے اور یہ بات باعث شرمندگی ہے کہ دنیا آگے اور ہم پیچھے جا رہے ہیں جبکہ اسی حوالہ سے سابق گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر کا بھی کہنا ہے کہ سیاسی معاملات حل کئے بغیر معاشی معاملات ٹھیک نہیں ہوسکتے، بجٹ خسارے کی تمام سیاسی جماعتیں اور حکومتیں ذمہ دار ہیں۔ گزشتہ17 سال سے قرضہ بڑھ رہا ہے اور ہم نے کیا کچھ بھی یہاں تک کہ پاکستان میں ایک ہزار بچوں میں سے 62پیدا ہوتے ہی مر جاتے ہیں۔ ملک میں ہیپاٹائٹس 7فیصد اور بنگلادیش میں زیرو فیصد ہے۔ یہ تو تھی معاشی باتیںاب چند باتیں جواریوں کی، جنہوں نے رہی سہی کسر پوری کررکھی ہے اور ان جواریوں نے جدید ایپ اور ویب سائٹس کے ذریعے ملک بھر میں اپنا نیٹ ورک پھیلا رکھا ہے۔ حیرت اور مزے کی بات یہ ہے کہ انہیں پکڑنے والا کوئی نہیں کیونکہ ہماری ایجنسیوں کو سرکاری کاموں سے فرصت ملے تو وہ اس طرف بھی توجہ دیں فی الحال تو ان کے پاس سیاسی ورکروں کی لسٹیں بنانے اور انہیں پکڑنے کا ٹاسک ہے رہی بات عام پاکستانیوں کی وہ پھر سہی ۔