... loading ...
حمیداللہ بھٹی
دگرگوں معاشی حالات سے پریشان پاکستان کے لیے آجکل سب سے اہم سوال یہ ہے کہ آمدہ تین برس کے دوران ستر ارب ڈالر کی بیرونی ادائیگیاںکیسے کی جائیں؟کیونکہ فی الوقت پاکستانی معیشت سے اتنی بڑی رقم یک مشت نکالنا ممکن نہیں مگر اس سوال کاجواب تلاش کرنے کے لیے سیاسی و عسکری قیادت سرگرم ہے لیکن مشکلات و رکاوٹیں اتنی زیادہ ہیں کہ تمام بھاگ دوڑ رائیگاں جاتی محسوس ہوتی ہے۔ البتہ روشنی کی جو ہلکی سی رمق دکھائی دیتی ہے یا امکان ہے وہ یہ ہے کہ عین ممکن ہے پاکستان کا دیرینہ دوست امریکہ ایک بارپھر دستِ تعاون بڑھا دے اور عالمی مالیاتی اِدارے ادائیگی کے لیے مزید وقت عنایت کردیں ۔
آئی ایم ایف ،ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کی طرف سے ہونے والی نرمی اِشارہ ہے کہ امریکہ اب مزید پاکستان کومعاشی خطرات سے دوچار نہیں دیکھنا چاہتا البتہ پالیسیوں بارے اُس کے کچھ تحفظات ضرور ہیںجس کے تناظر میں کو شش کرنی چاہیے کہ اندھادھند معاہدوں سے ملک کو مزید نقصان نہ پہنچایا جائے۔ اِس میں شائبہ نہیں کہ پاکستانی مال کی آج بھی دنیامیں سب سے بڑی منڈی امریکہ ہے اور وہ بڑے سرمایہ کاروں میں سے ایک ہے۔ مزید قابلِ تذکرہ بات یہ ہے کہ امریکہ سے تجارت میں توازن پاکستان کے حق میں ہے لیکن اندھادھند معاہدوں سے خطرات کے سائے منڈلانے لگے ہیں۔ گزشتہ ہفتے ہی امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیوملر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے نہ صرف بڑی برآمدی منڈی کی طرف اِشارہ کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ ایران سے تجارتی معاہدوں پر پابندیوں کا خطرہ ہو سکتا ہے۔ اِس وجہ سے تجارتی معاہدوں پر غور کرنے والوں کو خطرات سے آگاہ رہنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ یہ درست ہے امریکہ کو پاک ایران فروغ پاتے مراسم اِس وجہ سے پسند نہیں کہ وہ علاقائی تبدیلیوں کو اپنے مفاد کے منافی تصورکرتا ہے اور یہ کہ اگر پاکستان موجودہ روش سے نہیں چھوڑتا تو نہ صرف ایک بڑی برآمدی منڈی سے ہاتھ دھو سکتا ہے بلکہ پابندیوں کا امکان بھی حقیقت کاروپ دھار سکتا ہے ۔یادرہے حال ہی میں دفاعی سازو سامان تیار کرنے والے پاکستانی اِداروںکو آلات وپُرزے فراہم کرنے والی چار عالمی برآمد کنندگان کمپنیوں پرامریکہ کی طرف سے پابندیاں لگائی جا چکی ہیں ۔ اِس بناپر پاکستان کومزیدایسے اندھا دھند معاہدوںسے محتاط رہنے کی ضرورت ہے جن سے ملک کو نفع کے بجائے نقصان ہو۔
معاشی مشکلات کے شکار پاکستان کا علاقائی سطح پرہونے والی تبدیلیوں میں بھی کلیدی کردار ہے، ایک طرف امریکہ کے مقابلے میں چین کوترجیح دے چکا ہے حالانکہ چین سے ہونے والی تجارت میں بڑے پیمانے پر خسارے کا سامنا ہے لیکن چینی ہُنرمندوں کی حفاظت کے لیے طریقہ کار طے کرنے کے ساتھ بھاری تعداد میں حفاظتی نفری لگا چکا ہے ۔مزے کی بات یہ کہ ایسی نوازش و عنایت کسی اور ملک کو حاصل نہیں جو اِس تاثر کو پختہ کرتی ہے کہ اُسے چین سب سے عزیز ہے۔ اسی طرح سعودی عرب کے وزیرِ خارجہ کا ایک بڑے وفد کے ساتھ دورہ کرنا اور سرمایہ کاری کا جائزہ لینا نیز شہباز شریف کی طرف سے سعودی تعاون کا خود جائزہ لیتے رہنے کی یقین دہانی کرانا بھی نہایت اہم ہے۔ اِس کے فوری بعدسعودی وزیرِ دفاع کا دفاعی تعاون بڑھانے کے مواقع کا جائزہ لینے کے لیے پاکستان آنا بھی اہم ہے ۔اِن دوروں کے مثبت اور مستقل ہونے کے بارے تو کوئی شائبہ نہیں البتہ بارآور ہوں گے یا نہیں کسی حد تک شبہات موجود ہیں کیونکہ سرمایہ کاری حاصل کرنے کے چکر میں جائز وناجائز شرائط کابھی خیر مقدم کیا جارہا ہے۔ اہم سعودی حکام کے بعد ایرانی صدر ابراہیم ریئسی پاکستان آئے۔ اِس دوران کئی معاہدے اور سمجھوتوں پر دستخط بھی ہوئے اُن کی آمد ظاہر کرتی ہے کہ دونوں ممالک میں قربت فروغ پارہی ہے مگر ایسا تاثر پختہ ہورہاہے کہ معاشی مشکلات سے نکلنے کے لیے قیادت میں حکمت و تدبر کا فقدان ہے اورحقائق کوخاطر میں لائے بغیر بھاگ دوڑ کی جارہی ہے حالانکہ بہتریہ ہے کہ امریکی تنبیہ کونظر انداز کرنے کی بجائے کوئی ایسا درمیانی راستہ نکالا جائے جس سے کسی کو نظر اندازہونے یا غیر اہم ہونے کا تاثر نہ ملے۔ علاوہ ازیں سفارتی ذرائع سے پابندیاں لگانے کے حوالے سے خبردار کرنے والوں سے دریافت کرنا چاہیے کہ اگر ایران نہیں تو اِس کا متبادل بتا دیں یا پھر معاشی مشکلات کم کرنے میں خود تعاون کریں۔ اندھادھند معاہدے عالمی طاقتوں کو چڑانے کا باعث بن سکتے ہیں، ایسی نوبت نہ آنے دینے میں ہی عافیت ہے۔
پاکستان نئی تجارتی منڈیوں تک رسائی حاصل کرنے اور دستیاب مواقع بڑھانا چاہتا ہے اِس حوالے سے افغانستان ایران ،سعودی عرب ، قطر،عرب امارات پر پاکستان کی خاص نظر ہے اہم بات یہ ہے کہ مزکورہ تمام ممالک کے نہ صرف بھارت سے اچھے تعلقات ہیں بلکہ کئی ممالک تو بھارت میں اربوں ریال کی سرمایہ کاری بھی کررہے ہیں ۔یہ ممالک تیل کے متبادل معیشت اُستوار کرنے کے لیے سرگرداں ہیںاِن حالات میں ضرورت اِس امر کی ہے کہ معاہدے کرتے ہوئے ملکی مفاد پیشِ نظر رکھا جائے ۔یادرہے کوئی ملک کسی پر بغیر فائدے کے لیے احسان نہیں کرتا۔ فلسطین کے حالات شاہد ہیں ۔بڑھتے تعاون کی وجہ سے ہی دبئی نے چھ ارب ڈالر کی لاگت سے مندربناکر بھارت کو خوش کیا ہے تو پھر پاکستان کیوں معمولی سرمایہ کاری کے لیے مفاد کے منافی شرائط تسلیم کر رہا ہے؟ سعودی عرب نے اسٹیٹ بینک میں رکھوائے تین ارب ڈالر کی رقم پانچ ارب ڈالر کردی تو خوشی میں ملکی اثاثے کوڑیوں کے بھائو خریدنے کی پیشکش کرنا سمجھ سے بالاترہے۔ ترکی بھی پاکستانی معیشت نچوڑنے میں پیش پیش ہے۔ اب ایران کوبھی ایسے مواقع دینا کم فہمی کو اُجاگر کرتا ہے۔ کیا اِس حقیقت کو جھٹلایا جا سکتا ہے کہ 1965کی پاک بھارت جنگ کے دوران شاہ ایران رضا شاہ پہلوی بھارت کے طرفدار تھے ؟ اور اِس خدشے کے پیشِ نظر کہ مشرقی سرحد پر جنگ کی صورت میں کہیں ایران پیٹھ پر وارنہ کردے کوختم کرنے کے لیے صدر ایوب خان کی ہدایت پر وزیرِ خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے ایران کا دورہ کیااور اُس کی شرائط اول ۔سیندک کا وہ علاقہ جہاں لوہے،تانبے ،کاپراور تیل سمیت قیمتی معدنیات کے وسیع ذخائر ہیں ہمیں دے دیں دوم۔ ایرانی سرحد کے قریب سے بلوچستان کے اندر سے پاکستان تیل نہ نکالے بلکہ خرید کراستعمال کرے۔ بھارت سے بڑھتی کشیدگی کی وجہ سے پاکستان نے ایران کی مذکورہ دونوں شرائط تسلیم کرلیں۔ 1995میں اِس معاہدہ کی اگلے تیس برس کے لیے تجدید کردی گئی ۔اب پھر شنید ہے کہ ابراہیم رئیسی اسی معاہدے کی تجدیدکے لیے پاکستان آئے کیونکہ حالات اِس کے لیے سازگارہیں ماضی میں ذوالفقار علی بھٹو اگراپنی ایرانی نژاد اہلیہ نصرت بھٹو کی وجہ سے ایران کے بارے نرم گوشہ رکھتے تھے تو اب صدرِ مملکت کے منصب پر بھٹوکا داماد ہے۔ محسن نقوی جیسے طاقتور شخص کے پاس وزارتِ داخلہ کا قلمدان ہے جنھیں ایران نواز خیال کیا جاتا ہے۔ اسی طرح کچھ اور بااختیار لوگ بھی ایرانی ہم خیال تصورکیے جاتے ہیں۔ اسی لیے معاہدے کی تیسری بار تجدید کامطالبہ سامنے آیا ہے۔ اگر یہ سچ ہے تو اب جبکہ پاکستان کوبیرونی حملے کا کوئی خطرہ نہیں رہا تو بہتر ہے معاملات طے کرتے وقت ملکی وقار اور مفاد کا تحفظ کیا جائے ۔ایران کی اہلِ پاکستان پر ایک اوراہم ترین نوازش یہ بھی ہے جب نوے کی دہائی میں او آئی سی مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اقومِ متحدہ سے رائے شماری کرانے کامطالبہ کرنے کی ایک متفقہ قرارداد پاس کرنے لگی تھی توبھارت کی ایما پر اُس نے اجلاس سے غیر حاضر ہوکر یہ کوشش ناکام بنا دی تھی۔ وگرنہ جنوبی ایشیا کانقشہ ہی کچھ اور ہوتااُس وقت امریکہ بھی اِس مسئلے کو حل کرنے میں سنجیدہ تھا ۔اُس کے بعد حالات ایسے تبدیل ہوئے کہ سب کچھ ہی بدل کررہ گیا۔ اب پاکستان اور ایران باہمی تجارت کو دس ارب ڈالر بڑھانے کے دعویدار ہیں مگر اہم سوال یہ ہے کہ ہونے والے معاہدوں ، سمجھوتوں اور یادداشتوں پر عمل ہو سکے گا؟ سوال کی وجہ یہ ہے کہ پاک ایران گیس سمجھوتے کی عالمی سطح پر مخالفت عیاں اور عدم تکمیل کی صورت میں اٹھارہ ارب ڈالر جرمانے کا خدشہ ہے۔ پاکستان میں استعمال ہونے والا تیس فیصد تیل ایران سے اسمگل ہو کر آتا ہے جس سے حکومت اربوں روپے آمدن سے محروم ہورہی ہے۔ کیا دوستانہ باتوں سے یہ اسمگلنگ رُک جائے گی؟ایسے کوئی آثار نہیں۔ دراصل یہ ہماری قیادت کی نااہلی ہے جوحقائق کا جائزہ لیے بغیراندھادھند معاہدے وسمجھوتے تو کرتی ہے لیکن ملکی مفاد کا تحفظ نہیں کرتی جس سے ملکی مفاد اور وقار کو نقصان ہورہا ہے۔ سچ یہ ہے کہ ا حمقانہ معاہدوں سے معاشی حالت بہتر ہونے کے بجائے مزید بگڑرہی ہے۔ لہٰذا بہتری اسی میں ہے کہ قیادت معاہدے کرتے ہوئے کسی ملک پر مہربان ہونے کے بجائے اِس طرح ریاستی مفاد اور وقارکا تحفظ کرے جو ملک کی معاشی بہتری کے لیے سنگِ میل ثابت ہو ۔