... loading ...
علی عمران جونیئر
دوستو،باباجی کہتے ہیں کہ ۔۔جدید دور کے لوگ اپنے موبائل فون میں قید ہیں۔۔جب ہی تو وہ اسے ”سیل فون” کہتے ہیں۔۔آج اسی سیل فون کے حوالے سے کچھ اوٹ پٹانگ باتیں کرلیتے ہیں۔مہنگائی ، غربت اور بے روزگاری اس حد تک ہمارے ملک میں بڑھ گئی ہے کہ چھ سال بعد پہلی بار پاکستان میں 2023 کے دوران موبائل فون صارفین کی تعداد میں 37 لاکھ کی ریکارڈ کمی ہوئی ہے۔میڈیا رپورٹ کے مطابق 2023 کے دوران پاکستان میں سیلولر سبسکرپشنز میں 37 لاکھ کی ریکارڈ کمی ہوئی ہے، ملک میں موبائل فون صارفین کی تعداد گزشتہ برس 19 کروڑ 46 لاکھ رہ گئی تھی جو 2022 میں 19 کروڑ 90 لاکھ تھی۔ڈیٹا اینڈ مارکیٹ انٹیلی جنس پلیٹ فارم ڈیٹا دربار اور متحدہ عرب امارات کے ا سٹریمنگ پلیٹ فارم بگن (begin) کی مرتب کردہ سالانہ سٹیٹ آف ایپس رپورٹ برائے پاکستان کے مطابق 2023 کے دوران پاکستان میں موبائل فون صارفین کی تعداد میں 19 فیصد کی ریکارڈ کمی ہوئی۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ ٹیلی کام انڈسٹری جان بوجھ کر کم خرچ کرنے والے صارفین کو ہٹا رہی ہے اور زیادہ خرچ کرنے والے صارفین پر توجہ مرکوز کر رہی ہے۔
موبائل فون اب ہمارے معاشرے کی اہم ضرورت بن چکا ہے، ایک دور وہ بھی تھا جب موبائل فون کے بغیر زندگی سکون سے گزر رہی تھی، اب صبح اٹھنے کے بعد سب سے پہلے لوگ موبائل فون چیک کرتے ہیں، مساجد میں باجماعت نماز کے اختتام پر اپنے موبائل فون ایسے چیک کرتے ہیں جیسے نماز کی قبولیت کا میسیج آیا ہو۔۔ایک خاتون اپنی سہیلی کی شادی پر کچھ دن رہنے گئیں، جاتے وقت شوہر کو ہدایت دی کہ۔۔ میری بلی کا خاص خیال رکھنا! وقت پر اس کو دودھ دینا، کھانے کیلئے تازہ گوشت دینا اور ہاں میری والدہ بزرگ ہیں ان کا بھی خاص خیال رکھنا۔۔ابھی انہیں گئے ہوئے دو دن ہی ہوئے تھے کہ شوہر کا فون آ گیا۔۔تمھاری بلی مر گئی ہے۔۔وہ خاتون بہت روئیں اور شوہر سے بہت ناراض ہوئیں کہ ایک دم سے کیوں بتایا۔۔۔ آپ کو چاہیے تھا کہ میرا دل رکھنے کو پہلے کہتے کہ بلی چھت پر کھیل رہی ہے پھر کہتے بلی چھت سے گر گئی ہے اور پھر بتاتے کہ بلی مر گئی ہے اچانک بتا کر مجھے بہت دکھی کر دیا ،آپ جانتے ہیں کتنی عزیز تھی وہ مجھے۔۔ بہت رو چکنے کے بعد بولیں۔۔میری امی کیسی ہیں؟۔۔شوہر نے معصومیت سے جواب دیا، امی جان چھت پر کھیل رہی ہیں۔۔۔۔
ایک استانی بتا رہی تھی کہ میری ایک کولیگ نے چھٹیوں سے پہلے مجھ سے کچھ پیسے ادھار لیے۔ چھٹیوں میں مجھے ضرورت پڑی تو واپسی کا مطالبہ کیا تو کبھی انکار اور کبھی ٹال مٹول، اور پھر میرے فون کا جواب دینا ہی چھوڑ دیا۔۔ایک بار تو حد ہی ہو گئی، میرے 15 بار فون کرنے کے جواب میں اس نے ایک بار بھی فون نہیں اُٹھایا۔۔۔ اتفاق سے مجھے پتہ تھا اس کا خاوند گھر پر نہیں ہے، میں نے اسے میسیج کیا۔۔ بہن، میں پیسوں کے لئے اتنے فون نہیں کر رہی تھی، میں تو تجھے یہ بتانا چاہ رہی تھی کہ میں نے آج تیرے گھر والے کو اپنی کار میں ایک لڑکی کو بٹھا کر جاتے دیکھا ہے۔۔میرے میسیج کے جاتے ہی اس کی کال آگئی، میں نے نظر انداز کیا۔ اگلے آدھے گھنٹے میں اس کی 21 سے زیادہ کالیں آ چکی تھیں۔۔۔میرے فون نہ اٹھانے پر اس نے مجھے لگاتار 3 میسیج کیے جس میں اس نے پوچھا کہ۔۔ کیسی لڑکی تھی، کب کی بات ہے، کدھر دیکھا تھا اور کس طرف جاتے دیکھا تھا؟؟ میں نے اس کے کسی میسیج کا جواب نہیں دیا، اس کے فون کالوں کا سلسلہ جاری رہا اور گھنٹے بھر میں اس نے 36 کالیں کر ڈالیں۔۔اس بار اس کا میسیج آیا کہ کیا خیال ہے کہیں ملتے ہیں، میں تمہارے پیسے تمہیں واپس کرتی ہوں بس تم مجھے تفصیل سے میرے خاوند اور اس کے ساتھ جاتی لڑکی کے بارے میں بتا دو۔۔میں نے جواب بھیجا مجھے ملنے میں کوئی حرج نہیں، لیکن میرے پاس تو کار میں پیٹرول ڈالوانے کے پیسے بھی نہیں ہیں، مجھے پیسے میرے اکاؤنٹ میں بھیج دو میں ابھی آ جاتی ہوں۔استانی کہتی ہے اگلے 20 منٹ میں میرے سارے پیسے میرے اکاؤنٹ میں آ چکے تھے اور پھر میں نے موبائل ہی آف کر دیا۔۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔معروف عرب مفکر ڈاکٹر علی طنطاوی مرحوم لکھتے ہیں ایک دن میں ٹیکسی میں ائیرپورٹ جا رہا تھا، ہم سڑک پر اپنی لائن پر جا رہے تھے کہ اچانک کار پارکنگ سے ایک شخص انتہائی سرعت کے ساتھ گاڑی لے کر روڈ پر چڑھا، قریب تھا کہ ان کی گاڑی ہماری ٹیکسی سے ٹکرائے لیکن ٹیکسی ڈرائیور نے لمحوں میں بریک لگائی اور ہم کسی بڑے حادثے سے بچ گئے، ہم ابھی سنبھلے نہیں تھے کہ خلاف توقع وہ گاڑی والا الٹا ہم پر چیخنے چلانے لگ گیا اور ٹیکسی ڈرائیور کو خوب کوسا، ٹیکسی ڈرائیور نے اپنا غصہ روک کر اس سے معذرت کرلی اور مسکرا کر چل دیا۔مجھے ٹیکسی ڈرائیور کے اس عمل پر حیرت ہوئی میں نے ان سے پوچھا کہ غلطی اس کی تھی اور غلطی بھی ایسی کہ کسی بڑے حادثے سے دو چار ہو سکتے تھے پھر آپ نے ان سے معافی کیوں مانگی؟ٹیکسی ڈرائیور کا جواب میرے لیے ایک سبق تھا ،وہ کہنے لگا کہ ۔۔ کچھ لوگ کچرے سے بھرے ٹرک کی طرح ہوتے ہیں، وہ گندگی اور کچرا لاد کر گھوم رہے ہوتے ہیں، وہ غصہ، مایوسی، ناکامی اور طرح طرح کے داخلی مسائل سے بھرے پڑے ہوتے ہیں، انہیں اپنے اندر جمع اس کچرے کو خالی کرنا ہوتا ہے، وہ جگہ کی تلاش میں ہوتے ہیں، جہاں جگہ ملی یہ اپنے اندر جمع سب گندگی کو انڈیل دیتے ہیں لہٰذا ہم ان کے لئے ڈسٹ بِن اور کچرا دان کیوں بنیں؟اس قبیل کے کسی فرد سے زندگی میں کبھی واسطہ پڑ جائے تو ان کے منہ نہ لگیں بلکہ مسکرا کر گزر جائیں اور اللہ تعالی سے ان کی ہدایت کے لئے دعا کریں۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔