... loading ...
میری بات/روہیل اکبر
ملک میں اس وقت سب سے برا حال ہے تو وہ ہے ہماری نوجوان نسل کاہے جو مایوسی کا شکار ہیں شائد یہی وجہ ہے کہ ملک میں آئے روز وارداتوں میں اضافہ ہورہا اور ان سب کارروائیوں میں نوجوان ہی ملوث ہیں جن میں سے اکثریت اعلی تعلیم یافتہ بچوں کی ہے ۔ان کے پاس کاروبار کے لیے پیسے ہیں اور نہ ہی نوکری کے لیے سفارش اور رشوت اگر انہیں صبح شام کوئی چیز بلا معاوضہ ملتی ہے تو وہ ہیں طعنے جو گھر والوں سے تو ملتے ہی ہیں ساتھ میں کبھی کبھی محلے دار اور رشتے دار بھی دے ڈالتے ہیں کہ ایک بے روزگاری اور اوپر سے طعنے یہ دو ایسی چیزیں ہیں جو ہمارے نوجوانوں کو بغاوت پر مجبور کررہی ہیں۔ شاید اسی وجہ سے ہمارے لوگ اپنا سب کچھ قربان کرکے باہر جانے کو ترجیح دیتے ہیں اگر ہمارے نوجوان باہر چلے گئے باقی رہ جانے والے دو نمبری کرنا شروع کردیں تو پھر ملک کیسے چلے گا اور رہی بات تعلیم کی تو اس میں ہم ویسے ہی بہت پیچھے ہیں، بس ڈگریوں کا جمع بازار لگا ہوا نوکریوں کی لوٹ سیل میں جسکی بولی زیادہ ہوتی ہے یا پھر تگڑی سفارش رکھنے والا نوکری لے جاتا ہے باقی صرف ٹیسٹ،دوڑ اور انٹریوکی حد تک ہی رہتے ہیں۔ ان حالات میں وزیر اعظم یوتھ پروگرام اس وقت ملک کے نوجوانوں کو مایوسی سے نکالنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے اور اس پروگرام کی خوبصورت بات یہ ہے کہ وزیر اعظم نے ایک نوجوان رانا مشہود احمد خان کو ہی اس پروگرام کا سربراہ بنا دیا ہے جو نہ صرف نوجوانوں کے مسائل کو سمجھتا ہے اور انہیں حل کرنے کا درد بھی رکھتا ہے۔ امید ہے اگر انہیں انکے کا م میں آزادی دی گئی تو وہ ملک کے نوجوانوں کے لیے ترقی اورخوشحالی کے دروازے کھول سکتے ہیں۔ اس کے لیے انہیں ملک بھر سے محمد اکبر کی طرح کے کام کرنے والے لوگوں کو بھی آگے لانا ہوگا ۔جنکے پاس نوجوانوں کے لیے وسیع سوچ ہے ان جیسے افراد کے تجربات سے فائدہ اٹھا کر ملک کے نوجوانوں کو ملکی ترقی کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے ۔
اس وقت پاکستان دنیا کا پانچواں سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے جس میں ہمارے پاس نوجوانوں کی اکثریت ہے جو اپنی روایتی تعلیم بھی بڑی مشکل سے حاصل کرتے ہیں پاکستان دنیا میں سب سے کم شرح خواندگی میں سے ایک ہے جبکہ پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 25ـA ریاست کو پابند کرتا ہے کہ وہ 5 سے 16 سال کی عمر کے بچوں کو مفت اور لازمی معیاری تعلیم فراہم کرے لیکن مجال ہے ہمارے ادارے اس سلسلہ میں کوئی کام کریں یہاں تو ٹیچروں کی 15سالوں سے ترقی نہیں ہورہی سرکاری سکولوں کا برا حال ہے اور نہ ہی کوئی قابل وزیر تعلیم آیا جو پاکستان میں تعلیم کے نظام کی سمت ہی درست کرجاتا ہمارے قابل بچے اخراجات نہ ہونے کی وجہ سے سکولوں تک پہنچنے سے محروم رہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان نائیجیریا کے بعد دوسرے نمبر پر ہے جہاںاسکول سے 22.8 ملین بچے ہیں صرف 68% ہمارے بچے پرائمری اسکول کی تعلیم مکمل کرتے ہیں اور ہمارے پرائمری سکولوں کا تو حشر نشر ہو چکا ہے اسکی کی بھی سمت درست کرنے کا کام وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے محی الدین وانی کے حصہ میں ڈال دیا ہے میں سمجھتا ہوں کہ جس طرح انہوں نے گلگت بلتستان میں بطور چیف سیکریٹری کام کیا وہاں کے بچوں کو تعلیم کے میدان میں اتارا اسی طرح وہ اب اسلام آباد میں بھی کام کررہے ہیں اگر وزیراعظم انہیں
بچوں کی بنیادی تعلیم کا شعبہ دیدیں جہاں وہ اپنی مرضی سے کام کرسکیں تو یہ ملک کے نونہالوں کے لیے بہت اچھا ہوگا یہی بچے کل جب جوانی کی حدود میں قدم رکھیں گے نہ صرف محب وطن پاکستان ہونگے بلکہ انہیں کام کاج کے لیے بھاگ دوڑ بھی نہیں کرنا پڑے گی اور نوجوانوں کو رانا مشہود سنبھال لیں گے ہمارے نوجوانوں کے ساتھ ایک اور مسئلہ بھی ہے کہ ہمارے والدین بچوں کی کم عمری میں شادی بھی کردیتے ہیں کہ شائد اسی بہانے کسی کام کاج پر لگ جائے لیکن ہمارے ہاں سرکاری اداروں میں کام سفارش یا رشوت پر ملتا ہے جبکہ پرائیوٹ اداروں میں قابلیت پر اور ان میں سے ہمارے نوجوانوں کے پاس کچھ بھی نہیں ہے کم عمری کی شادی کا رواج سب سے زیادہ صوبہ سندھ میں ہے بچپن کی شادی اکثر دیہی اور کم آمدنی والے گھرانوں میں بھی ہوتی ایک محتاظ اندازے کے مطابق پاکستان میںکی کل خواتین کی آبادی میں سے سے 35 فیصد خواتین 18 سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی ماں بن جاتی ہیں اس سلسلہ میں بھی پنجاب میں ثمن رائے بہترین کام کررہی ہے جنکے پاس آبادی کو کنٹرول کرنے کی ذمہ داری ہے ویسے یہ بھی کمال کی عورت ہے جس ادارے میں بھی کام کیا نہ صرف انکے ملازمین کا خیال رکھا بلکہ اس ادارے کو پروان چڑھانے میں بھی اپنا حصہ ضرور ڈالا اور اب وہ جتنا کام محکمہ بہبود آبادی میں کررہی ہے وہ بھی شائد پہلی بار ہی ہورہا ہے کیونکہ ہماری آبادی میں بھی بے تحاشا اضافہ ہورہا ہے جس کے بعد رہائش کے مسائل بھی پیدا ہورہے ہیں۔ اس وقت پاکستان کے بڑے شہر اور شہری مراکز ایک اندازے کے مطابق 1.2 ملین گلی کوچوں کے گھر ہیں اس میں بھکاری اور خاک چھاننے والے شامل ہیں جو اکثر بہت کم عمر ہوتے ہیں اور یہ بچے STDs جیسے HIV/AIDS کے ساتھ ساتھ دیگر بیماریوں کا شکاربھی ہیں۔ پاکستان میں اسٹریٹ چلڈرن کی تعداد کا تخمینہ 1.2 ملین سے 1.5 ملین کے درمیان ہے۔گھریلو تشدد، بے روزگاری، قدرتی آفات، غربت، غیر مساوی صنعت کاری، غیر منصوبہ بند تیزی سے شہری آبادیوں میں اضافہ ، خاندانی ٹوٹ پھوٹ اور تعلیم کی کمی جیسے مسائل کو اسٹریٹ چلڈرن کی تعداد میں اضافے کے پیچھے بڑے عوامل تصور کیا جاتا ہے اس وقت ملک میں 11 ملین سے زیادہ بچے کام کر رہے تھے جن میں سے نصف کی عمریں دس سال سے بھی کم ہیں جبکہ غذائی قلت بھی پاکستان میں صحت عامہ کے سب سے اہم مسائل میں سے ایک ہے اور خاص طور پر بچوں میں یونیسیف کے مطابق، تقریباً نصف بچے دائمی طور پر غذائی قلت کا شکار ہیں۔ جبکہ ہمارے قومی سروے ظاہر کرتے ہیں کہ تقریباً تین دہائیوں سے پانچ سال سے کم عمر کے بچوں میں سٹنٹنگ اور شدید غذائی قلت کی شرح بالترتیب 45 فیصد اور 16 فیصد پر جمود کا شکار ہے ۔ان حالات میں وزیراعظم کا نوجوانوں کے لیے پروگرام ایک امید کی کرن ہے جس سے آنے والے دور میں مثبت تبدیلی آسکتی ہے ۔