... loading ...
مولانا زاہد الراشدی
غرب نے اب سے کم و بیش تین سو برس قبل جمہوریت کا راستہ اختیار کیا تھا اور اس سے قبل کی صدیوں میں اسے جس صورتحال کا سامنا کرنا پڑا تھا، یہ اس کا رد عمل ہے کہ وہ جمہوریت کی شاہراہ پر مسلسل آگے بڑھتا جا رہا ہے اور اپنے اس نئے سفر اور پیشرفت کے نفع نقصان کا جائزہ لینے کے لیے پیچھے مڑ کر دیکھنے کو بھی تیار نہیں ہے ۔ مغرب کو مطلق العنان بادشاہت، جامد اور بے لچک مذہبی پیشوائیت، اور بے رحم و ظالم جاگیرداری کی تکون نے جکڑ رکھا تھا اور مغرب کی عام آبادی ظلم و جبر اور تشدد کے ان تین پاٹوں میں بری طرح پس رہی تھی۔ علم کی روشنی اس کے لیے شجر ممنوعہ کی حیثیت رکھتی تھی، حقوق اور ان کے حصول کا کوئی تصور نہیں تھا اور جانوروں کی طرح اپنے مالکوں اور آقاؤں کے احکام کی تعمیل میں شب و روز مصروف رہنا اس کا سب سے بڑا فریضہ سمجھا جاتا تھا۔
مغرب کو قرون مظلمہ کے ان اندھیروں سے نکلنے کا راستہ مسلمانوں نے دکھایا۔ اسپین میں بیٹھ کر علم و دانش کی شمع جلائی اور مغرب کے عوام کو بتایا کہ بادشاہ خدا کی طرف سے مقرر نہیں ہوتا بلکہ اسے تخت پر بٹھانے اور پھر اتارنے میں خود ان کی رائے اور مرضی کا بھی دخل ہونا چاہیے ۔مسلمانوں نے انہیں سمجھایا کہ دین و مذہب میں فائنل اتھارٹی کا درجہ کسی شخص یا طبقہ کو نہیں، بلکہ اصول و قوانین کو حاصل ہوتا ہے ۔ بادشاہ اور پوپ سمیت کوئی بھی شخص ان اصول و قوانین پر بالادستی نہیں رکھتا، اور نہ ہی ان میں سے کسی کو ان اصول و قوانین کی کسی خود ساختہ تعبیر و تشریح کا حق حاصل ہے۔مسلمانوں نے انہیں اس حقیقت سے آگاہ کیا کہ جاگیرداری اور کاشتکاری کی تقسیم خدائی نہیں ہے ، بلکہ کچھ انسانوں نے دوسرے انسانوں کے استحصال اور انہیں غلام بنائے رکھنے کے لیے ازخود یہ تقسیم قائم کر رکھی ہے۔اور مسلمانوں نے ہی مغرب کے عوام تک یہ پیغام پہنچایا کہ کائنات کے حقائق پر غور کرنا، زمین اور اس کے اردگرد پھیلی ہوئی بے شمار اشیا کی ماہیت و افادیت معلوم کرنا اور انہیں نسل انسانی کے فائدہ میں استعمال میں لانے کی صورتیں تلاش کرنا خدا کے نظام میں مداخلت یا اس کے خلاف بغاوت نہیں، بلکہ خود اللہ تعالیٰ کے منشا کی تکمیل اور اس کے حکم کی تعمیل ہے ۔
ہم اسپین میں بیٹھ کر صدیوں تک مغرب کو یہ سبق پڑھاتے رہے ، لیکن جب مغرب نے ہماری صدیوں کی تگ و دو اور محنت کے بعد یہ سبق سیکھ لیا اور اپنی راہ سے ہٹ کر ہماری بتائی ہوئی اس راہ پر اس نے چلنا شروع کیا تو ہم زمانے کی باگ ڈور اس کے ہاتھ میں تھما کر چپکے سے اپنے گھروں کو واپس لوٹ آئے ۔ اور تب سے یہ شکوہ ہماری زبانوں پر ہے کہ مغرب نے یہ کر دیا، مغرب نے وہ کر دیا، مغرب نے یہ چھین لیا، مغرب نے اس چیز پر قبضہ جما لیا اور مغرب نے فلاں چیز پر اجارہ داری حاصل کر لی۔ گزشتہ تین صدیوں سے صورتحال یہ ہے کہ جو کچھ کر رہا ہے ، مغرب ہی کر رہا ہے اور ہمارے پاس چیخنے چلانے ، واویلا کرنے ، شور مچانے یا زیادہ سے زیادہ ”اب کے مار سالے ” کی دھمکیوں کے سوا کوئی اختیار یا آپشن باقی نہیں رہا۔مجھے اس مرحلے میں ایک کہاوت یاد آ رہی ہے کہ بلی کو شیر کی خالہ کہا جاتا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ شیر کو حملہ کرنے ، جھپٹنے اور شکار کرنے کے سارے داؤ پیچ بلی نے سکھائے ہیں۔ کہاوت ہے کہ شیر نے جب بلی سے سارے داؤ پیچ سیکھ لیے تو اس کا پہلا تجربہ اس نے بلی پر ہی کرنا چاہا۔ موقع تاک کر بلی پر جھپٹ پڑا۔ بلی پہلے سے ہوشیار تھی، پھرتی سے قریب ایک درخت پر چڑھ گئی۔ شیر نیچے کھڑے ہو کر غرانے لگا کہ خالہ! یہ درخت پر چڑھنے کا طریقہ تو تم نے مجھے نہیں سکھایا تھا۔ بلی بڑے مزے اور اطمینان سے درخت کی ٹہنی پر بیٹھے ہوئے بولی کہ یہ داؤ میں نے آج کے دن کے لیے ہی بچا کر رکھا تھا۔ ہم تو اس بلی جتنی سمجھ داری کا مظاہرہ بھی نہ کر سکے کہ کوئی داؤ اپنے لیے بھی بچا کر رکھ لیتے اور مشکل کے وقت کام آنے والی کوئی چیز اپنے قابو میں رہنے دیتے ۔ ہم نے مغرب کے ایک کونے میں بیٹھ کر اپنا سب کچھ مغرب کے سامنے کھول کر رکھ دیا اور خود آپس کے جھگڑے نمٹانے اور ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں اس قدر مگن ہوئے کہ مغرب نے ہمیں اسپین سے اٹھا کر سمندر میں پھینک دیا اور ہماری ہر چیز پر قبضہ کر کے دنیا کو مسخر کرنے کے سفر پر روانہ ہوگیا۔
مغرب جس تہذیب و تمدن پر نازاں ہے اور جسے پوری دنیا پر میڈیا، معیشت اور اسلحہ کے زور پر مسلط کرنے کے درپے ہے ، اس کی بنیاد کن چیزوں پر ہے ؟ ذرا ایک نظر ڈال لیں:
* حریت اور آزادی
* عوام کی رائے سے حکومت کی تشکیل اور حکومت کی عوام کے سامنے جواب دہی
* شہری حقوق
* سائنس اور ٹیکنالوجی
* انسانی مساوات
* زندگی کے وسائل اور ذرائع پر کسی ایک طبقہ کی اجارہ داری کی نفی
* حاکم وقت یا مذہبی پیشوا کو براہ راست خدا کا نمائندہ تسلیم کرنے سے انکار
* اجتماعی زندگی میں مذہب کے کردار کا خاتمہ
میں ان ساری باتوں کی حمایت نہیں کر رہا اور اچھی طرح اس بات کو سمجھتا ہوں کہ ان میں سے بعض باتیں مغرب نے بے جا طور پر اپنے پروگرام میں شامل کر لی ہیں اور بعض میں حدود سے تجاوز کر کے ان کی مقصدیت و افادیت کو مضرت میں تبدیل کر لیا ہے ۔ البتہ اس نکتہ کی طرف ضرور اہل دانش کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ اس راستے پر مغرب کو لگایا کس نے ہے ؟ خود مغرب کے سنجیدہ دانشوروں کو اس بات سے انکار نہیں ہے کہ انہوں نے یہ سبق اندلس سے سیکھا ہے اور یہ تاریخی حقیقت بھی ہے ، لیکن اس کے بعد کیا ہوا؟ ہمیں آگے بڑھنے سے قبل اس تبدیلی اور اس کے اسباب پر ایک نظر ضرور ڈالنا ہوگی۔۔(جاری ہے )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔