وجود

... loading ...

وجود

مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام

جمعه 19 اپریل 2024 مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام

ریاض احمدچودھری

بھارتی سیکیورٹی فورسز نے آپریشن کی آڑ میں درجنوں عام شہریوں کو قتل کردیا۔حال ہی میں ریاست چھتیس گڑھ کے علاقے بیجاپور میں ڈسٹرکٹ ریزرو گارڈ، اسپیشل ٹاسک فورس، سینٹرل ریزرو پولیس فورس (سی آر پی ایف) اور کمانڈو بٹالین فار ریزولوٹ ایکشن (کوبرا) نے نیکسل باغیوں کے خلاف آپریشن کیا۔گھنے جنگل میں صبح 6 بجے سے شروع میں ہونے والے سیکیورٹی آپریشن 8 گھنٹے تک جاری رہا جس میں 3 خواتین سمیت 13 افراد ہلاک کردیا گیا، سیکیورٹی فورسز نے دعویٰ کیا ہے کہ مارے جانے والے تمام افراد علیحدگی پسند ماؤنواز تھے، نیکسل باغیوں کے خلاف یہ بہت بڑی کامیابی ہے اور ایسی کارروائیاں آئندہ بھی جاری رہیں گی۔ 27 مارچ کو بھی پولیس سے مقابلے میں 6 عسکریت پسند ماؤنواز نیکسل باغیوں کو ہلاک کردیا گیا تھا۔ اس طرح ایک ہفتے میں یہ تعداد 19 اور رواں برس اب تک 43 ہوچکی ہے۔
بھارت میں دوسری کئی علیحدگی پسندیا آزادی کی تحریکوں کی طرح ماؤ پرستوں کی تحریک بھی پرانی باغیانہ تحریکوں میں سے ایک ہے۔ یہ تحریک بھارت میں کئی دہائیوں سے جاری ہے۔بھارت میں مختلف ریاستوں میں اقلیتوں اور دوسری قومی شناختوں کے حامل باغی یا علیحدگی پسند گروپ موجود ہیں۔ جن کو دبانے کے لیے بھارت نے لاکھوں کی تعداد میں فوجی و نیم فوجی دستے تعینات کر رکھے ہیں۔انہی میں ماؤ نظریات کے حامل بھارتی ہیں۔جو” ریڈ کوریڈور” میں پھیلے ہوئے ہیں۔رواں ہفتے بھی سیکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپ میں 29 ماؤ باغی ہلاک ہوئے۔تمام 29 باغیوں کی موت ریاستی دارالحکومت رائے پور کے جنوب میں واقع ضلع کنکر میں ہوئی ۔ باغیوں کو وسطی ریاست چھتیس گڑھ کے دور دراز حصے میں مارا گیا، جہاں اس سال ماؤ فورسز پر کئی مہلک حملے ہو چکے ہیں۔یہ سب کچھ انتخابات میں کامیابی کیلئے کیا جا رہا ہے۔ جمعہ سے شروع ہونے والے چھ ہفتے کے عام انتخابات سے قبل چھتیس گڑھ میں سیکیورٹی بڑھا دی گئی ہے۔باغی، جو نکسلائٹ کے نام سے جانے جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ دیہی غریبوں کے لیے لڑ رہے ہیں، 1967 سے گوریلا حملے کر رہے ہیں۔
بھارتی ریاست چھتیس گڑھ میں طویل عرصے سے کشیدگی جاری ہے اور سیکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپ میں ہونے والی ہلاکتیں ریاست میں ہونے والے خون ریز کارروائیوں میں سے ایک ہے۔ سیکیورٹی فورسز اور ماؤ نواز باغیوں کے درمیان جھڑپ ریاست چھتیس گڑھ کے مضافات میں ہوئی جہاں رواں برس ماؤ جنگجوؤں کے ساتھ متعدد خون ریز کارروائیاں ہوئی ہیں۔بھارت کی ریاستوں میں ایک ریاست ہے۔ یہ وسط بھارت میں واقع ہے۔ حال ہی میں ریاست مدھیہ پردیش کو تقسیم کرکے چھتیس گڑھ ریاست قائم کی گئی۔ اس کا دار الحکومت رائے پور ہے۔ جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے ایک ایسا علاقہ ہے جہاں چھتیس قلعے واقع ہوں لیکن مشہور برطانوی مورخ جے بی بیگلرکی تحقیق کے مطابق یہ نام ”چھتیس گڑھ” نہیں بلکہ ” چھتیس گھر” ہے جو اس علاقے میں بسنے والے نچلی ذات کے چھتیس ”دلت” خاندانوں کی نسبت سے مشہور ہو گیا تھا۔ اس تحقیق کو اس بات سے بھی تقویت ملتی ہے کہ اس علاقے میں چھتیس قلعوں کا کوئی وجود نہیں ہے۔ تاہم یہ نام زیادہ قدیم نہیں ہے۔ قدیم زمانے میں یہ علاقہ ”ڈکشن کوسلا” کہلاتا تھا۔ جب کہ مشہور تاریخ دان ہری اٹھاکر کے مطابق موجودہ ”جبلپور اور چھتیس گڑھ” کے درمیانی علاقے کو ماضی میں ”مہا کو سلا” کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ مغلوں کے عہد میں اس علاقے کو رتن پور کہا جانے لگا جب کہ اس علاقے کو چھتیس گڑھ مراہٹوں کے دور میں 1795ء کی دستایزات میں لکھا گیا ہے۔
یکم نومبر 2000ء کو بھارت کی ریاست مدھیہ پردیش کے بطن سے پیدا ہونے والی چھبیسویں ریاست چھتیس گڑھ میں بھارت کی آبادی کے لحاظ سے شیڈولڈ کاسٹ اور قبائلی گروہوں کا تناسب سب سے زیادہ زیادہ ہے اور ریاست کی پوری آبادی کا چوالیس اعشاریہ سات فی صد مختلف قبائلی گروہوں اور شیڈولڈ کاسٹ سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ قبائل جو خود کو فرزند زمین کہتے ہیں ان کو بہ وجود پس ماندہ رکھا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس خطے میں ہمیشہ بغاوت کا علم لہراتا رہا ہے، جس کی اولین مثال1774ء میں برطانوی تاجروں کے خلاف کی جانے والی بغاوت ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ مختلف قبائلی ثقافتوں اور رسم و رواج کے باوجود ریاست میں ہندو مت کا بھرپور عمل دخل ہے، لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ ریاست کے 95 فی صد ہندو جن کا تعلق نچلی ذات کی ہندو برادریوں سے ہے وہ ملک کی باقی ماندہ ہندو کمیونٹی سے ذات پات کے گورکھ دھندے کے باعث بالکل کٹے ہوئے ہیں، جس کے باعث ریاست میں اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کے خلاف شدید نفرت پائی جاتی ہے۔
جغرافیائی لحاظ سے ایک لاکھ پینتس ہزار ایک سو تینتیس مربع کلومیٹر کے رقبے پر محیط چھتیس گڑھ کے شمال میں بہار اور اترپردیش اور شمال مشرق میں جھارکھنڈ واقع ہیں۔ جن کے جنوب میں آندھرا پردیش مشرق میں اڑیسہ اور مغرب میں مہاراشٹر اور شمال مغربی سمت پر مدھیہ پردیش واقع ہے۔ ریاست کی آبادی 20795956 نفوس پر مشتمل ہے، جس میں تعلیم کا تناسب 65 فی صد ہے۔ اس کے علاوہ ریاست میں بولی جانے والی زبانوں میں چھتیس گڑھی، جو ہندی ہی کی ایک شکل ہے، کے علاوہ ہندی، مراٹھی، اوریائی اور قبائلی زبنیں بولی جاتی ہیں۔چھتیس گڑھ میں کافی اقسام کی معدنیات بھی پائی جاتی ہیں۔ جن میں لوہا کوئلہ، ایلومینم، جست سونا، چونا، کیلشیم، ہیرے اور کواٹز وغیرہ شامل ہیں۔ جب کہ اس علاقے میں فولاد ایلومینم سمینٹ اور کوئلے سے توانائی پیدا کرنے کی صنعتیں کام کر رہی ہیں۔ ریاست میں چاول، گنا، گندم، دالوں اور کیلے کی کاشت کاری بڑے پیمانے پر کی جاتی ہے۔
ریاست چھتیس گڑھ میں کئی سیاسی جماعتوں کا اثر رسوخ ہے۔ بھارتیہ جنتہ پارٹی کو ریاستی قانون ساز اسمبلی میں اکثریت حاصل ہے۔ ریاست کے وزیر اعلیٰ ”ڈاکٹر رامن سنگھ ” کا تعلق بھی بھارتیہ جنتہ پارٹی سے ہے۔ جو نومبر 2003 میں وزیر اعلیٰٰ منتخب ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ انڈین نیشنل کانگریس بھی ریاست کے سیاسی میدان میں اہمیت کی حامل ہے۔ انڈین نیشنل کانگریس کو موجودہ بر سر اقتدار جماعت بھارتیہ جنتہ پارٹی سے قبل اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل تھی۔ ان دو نمایاں جماعتوں کے علاوہ ”بہوجن سماج پارٹی” گونڈوانا پارٹی، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (کمیونسسٹ، لیننسٹ) اور انڈین پیپلز فرنٹ کا بھی اپنے مخصوص علاقوں میں خاصا سیاسی اثر ورسوخ ہے۔ جب کہ ریاست میں کئی عسکریت پسند باغی گروہ سرگرم ہیں جن کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ ان کو نیکسلائٹ باغی کہا جاتا ہے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر