... loading ...
زریں اختر
جدید ٹیکنالوجی کا پھیلائو اور ہر ہاتھ میںاس کا ہونا، اس کے استعمال کی جو جو صورتیں سامنے آرہی ہیںعقل دنگ اور دل دھک سے رہ جاتے ہیں۔ اسے یو ں سمجھا جائے کہ یہ بہرحال حقائق ہی ہیں جو ہم تک پہنچتے ہیں ،تو کیا یہ ممکن نہیں تھا کہ حقائق کی یہ صورت ہی نہ ہوتی ؟حقائق جو وائرل ہوجاتے ہیںخواہ وہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کی کسی چار دیوار ی میں پیش آنے والا واقعہ ہو یا چلتی ریل گاڑی کا ، وڈیو وائرل ؛ حقائق سامنے آئے اور مشینری بھی حرکت میں آئی ،حقائق انتہائی شرم ناک اور مشینری انتہائی سست۔
قارئین کو یاد ہوگا کہ کراچی کی ایک بلندو بالا عمارت میں آتش زدگی کا واقعہ ہوا تھا ،وہاں ایک نوجوان جوملازمت کے لیے انٹرویو دینے گیاتھا وہ خود کو آگ سے بچانے کے لیے بلند عمارت کی کھڑکی سے لٹک گیا ،لوگو ں نے موبائل سے تصویریں بنانا شروع کردیں، نوجوان کے ہاتھ کب تک اس کے پورے جسم کا بوجھ سہارتے بالآخر وہ زمین پر آرہا اور مرگیا،لوگوں کے موبائل بھی تب ہی اس نوجوان سے ہٹے ، آخر وقت تک ساتھ دیا۔ اس واقعے پر ایک تحریر پڑھی تھی(مصنف کا نام یاد ہوتا تو حوالہ ضرور دیتی) جس میں لکھا تھا کہ جتنی دیر تک لوگ تصویریں لینے میں لگے رہے ، یااس منظر کو ایک تماشا سمجھ کر دیکھتے رہے کہ اب کیا ہوتاہے،جیسے یہ بھی کوئی فلمی منظرہو ؟ کسی کویہ نہیں سوجھی کہ سوچے کہ اس انسان کی جان کیسے بچائی جاسکتی ہے؟کیا ہمیں اس کے لیے بہت زیادہ تربیت یافتہ ہونے کی ضرورت ہے ؟یا ابھی تربیت احساس کی کرنی ہے؟
ریل گاڑی میں جو واقعہ پیش آیا ، لوگوں نے وڈیو بنانا شروع کردی اور وہ وائرل ہوگئی ۔ سوا ل یہ ہے کہ کسی میں اتنی جرات نہیں تھی کہ مارنے والا کا ہاتھ پکڑتا اور پٹنے والے کو بچاتا، یہ لوگ فوراََ ہجوم میںہی کیوں بدل جاتے ہیں؟جو محض یاتو تماشا دیکھتاہے یا اس بھی زیادہ ہولناک شکل اختیار کرلیتاہے(مشال خان اور سری لنکن کا واقعہ ) ۔ یہ ہجوم پتھرمارنا جانتاہے ہاتھ روکنا نہیں جانتا۔ یہ ٹیکنالوجی ایسے لوگوں کے ہاتھو ں میں آگئی ہے جو پس ماندہ ہیں معاشی ،تعلیمی اور اخلاقی اعتبارات سے۔جب تک آگ ہمارے گھر وں تک نہیں پہنچتی تب تک ہم ہاتھ تانپتے ہیں یا روٹیاں سینکتے ہیں، جب تک ڈنڈا ہمارے سر پر نہ پڑے تب تک ہم دوسرے کے سر کے گومڑے گنتے ہیں اور اس کی جسامت و حجم ناپتے ہیں ، جب تک ہمارے گھر کی عورت کو کوئی نہ چھیڑے تب تک ہماری عزت غیرت کے عجیب و غریب جذبات لمبی تان کر سوئے پڑے رہتے ہیںاور ہمیں موبائل سے وڈیو بنانے سے فرصت نہیں ملتی۔
وہ نکتہ جس پرایک قیادت، ایک جماعت ، ایک بڑی تعداد اکھٹی ہوگئی تھی اس سے پہلے کہ وہ جم غفیر قوم بنتا؛ وہ نکتہ نقطہ بن کر خلا میںتحلیل ہوگیا ۔ اب ایک ہجوم کو سدھانا ہے۔ وہ تجربہ دہرایا نہیں جاسکتا،کیو ں کہ نہ کوئی غاصب ہے اور نہ کوئی غیر مذہب ۔ کسی کو لگے کہ میری سوچ کہیں دور جاپڑی ہے لیکن بیماری کی جڑ تک اگر نہیں پہنچے تو بیماری جڑ سے اکھاڑ کیسے سکیں گے؟ یہ بات ہوسکتاہے کہ تصوراتی لگے لیکن اب اتنی جدید مشینری بھی آسکتی ہے جو عمارت کی ٹیڑھی بنیاد کو سیدھا کردے ، تو جو نظریاتی بنیاد غلط تھی اسے بھی سیدھا کیا جاسکتاہے ، اگلی منزلوںاور نسلوں کے لیے یہ کام کیا جاسکتاہے ۔ ماضی کی غلطیوںکے اعتراف کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگااور ویسے بھی وہ غلطیاں ہمارے آباء کی ہیں ہم نے تھوڑی کی ہیں ہم تو اگلی نسلوں کی فلاح کے لیے ان غلطیوں کا سدھار چاہتے ہیں۔ کیا ہوگا اگر ہم قائد ِ اعظم کی سیاسی غلطیوں کی نشان دہی کردیں گے ، بیسیویں صدی کی سیاسی شخصیت ہی تھے ،کیا ہوگا اگر ہم لوگوں کو یہ بتائیں کہ حکیم الامت شاعرِ مشرق علامہ اقبال عطیہ فیضی کی ذہانت کے محبت کی حد تک گرویدہ تھے ، کیا ہوگا اگر ہم لوگوں کو یہ بتائیں کہ مولانا شبلی نعمانی جو سیرت النبی ۖ کے مصنف تھے انہیں بھی عطیہ فیضی بھا گئی تھیں ؟ یہ جرات ‘خلافت و ملوکیت’ جیسی کتاب لکھ کر مولانا مودودی کرسکتے تھے تو آج وڈیو وائرل کے عہد میں یہ کیوں کر ممکن نہیں؟ اچھا چلیں! لوگوں کے لیے پرچھائیاں ہی بھلی لیکن جہا ںلوگوں کے ہاتھوں میں موبائل دے دیا ہے وہاں غار کے دہانے تک پہنچنے کا رستہ نہ بھی دکھائیں، اسکول تو بنائیں ، جو اسکول ہیں اس میں استاد تو ہو ؛ نہ اسکول نہ استاد نہ شاگرد ۔۔۔بس موبائل اور وڈیو وائرل ، خواہ چلتی ریل ہو یا چاردیوار ی ۔
٭٭٭٭٭
نہ دہشت گر د کا کوئی مذہب اور زبان اور نہ مظلوم مقتول کا کوئی مذہب اور زبان ۔ کوئی بھی مذہب ہو اور کوئی بھی زبا ن ہو ہماری آواز مظلوم کے ساتھ ہے او ر ہم ظالم کے خلاف ہیں۔ کیا ایسا نہیں ہے؟ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر سمجھ لیں کہ ہم بھی ایندھن ہی بنیں گے اور یہ آگ کبھی بجھائی نہیں جاسکے گی ۔ وہ مزدور تھے ،وہ مزدور پنجابی ہوں ،سندھی ہوں، پٹھان ہوں ، پشتون ہوںیا اردو بولنے والے ہوں؛ وہ مزدور سنی ہوں یا شیعہ ہوں ، وہ مزدور مسلمان ہوں یا عیسائی اور ہندو ہوں ۔ مزدور مزدور ہی ہے ۔ دہشت گرد اگر زبان پوچھ کر مارتا ہے تو کیا انصاف بھی زبان پوچھ کر ہو گا؟
ہم کراچی میں شیعہ سنی ، مہاجر پٹھان اور ریاستی دہشت گردی کے سائے میں بڑے ہوئے ہیں۔ پھر لوگوں کی سمجھ میں آگیاکہ یہ ان کے درمیان فساد کوئی تیسری قوت ہی کراتی ہے ۔ پھر وہ تیسری قوت کے ہاتھوں ذہنی یرغمال نہیں بنے ۔
کوئی سوال کرے ناپنجاب حکومت سے کہ کیوں مزدوروں پر ان کی زمین تنگ ہوئی کہ وہ معاش کی تلاش میں وہاں سے نکلے ، کیوں ان کے لیے ان کی جائے پیدائش پر معاشی مواقع موجود نہیں ، صنعت کار گھرانہ ہے ، کارو بار ہی بڑھالے تو لوگوں کو روزگار مل جائے اور ان کی سیاسی ساکھ کی بھی مرہم پٹی ہوگی۔ ہم عوام سے کہیں گے کہ آم کھائو پیڑ نہ گنو۔