... loading ...
ریاض احمدچودھری
بھارت کی حکومت نے پانچ اگست 2019 کو کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت ختم کر کے اسے وفاق کے زیرِ انتظام علاقہ قرار دے دیا تھا۔پانچ اگست 2019 کے بعد جموں و کشمیر میں متعدد نئے قوانین متعارف کرائے گئے اور پہلے سے موجود کئی قوانین کو تبدیل کر دیا گیا یا ان میں ترمیمات لائی گئیں۔نئے اقامت قانون کے تحت علاقے میں سات سے پندرہ سال تک رہنے والے غیر کشمیریوں کو بھی غیر منقولہ جائیداد کی ملکیت، سرکاری نوکری اور دوسری مراعات حاصل کرنے کا اہل قرار دیا گیا۔ اس قانون میں ایک حالیہ ترمیم کے تحت جموں و کشمیر کے حقیقی باشندوں کے شوہروں یا بیویوں کو بھی اس کی شہریت کے حقوق دیے گئے ہیں۔ناقدین کا کہنا ہے کہ ان تمام اقدامات کا مقصد جموں و کشمیر کے عوام کو بے اختیار بنانا اور اس مسلم اکثریتی ریاست کی آبادی کو تبدیل کرنے کے لیے راہ ہموار کرنا ہے جو بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کی سربراہ تنظیم راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ کا ایک دیرینہ منصوبہ ہے۔ لیکن بھارتیہ جنتا پارٹی ان الزامات کی تردید کرتی ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ پانچ اگست 2019 کو اٹھائے گئے اقدامات نے جموں و کشمیر کے عوام کی تقدیر کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ سابقہ ریاست میں امن و امان بحال ہوا ہے، عسکریت پسندی آخری سانسیں لے رہی ہے، انصاف کا بول بالا ہے اور اس کا ہر خطہ اور ہر طبقہ یکساں ترقی کی منزل پر رواں دواں ہے۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کا ایک عام شہری اپنے اور اپنے بچوں کے مستقبل کے حوالے سے فکر مند ہے۔ پانچ اگست 2019 کے بعد نافذ کردہ لاک ڈاؤن اور پھر کرونا وائرس سے پیدا شدہ صورتِ حال کے نتیجے میں عائد کردہ نئے پابندیوں نے جموں و کشمیر کی معیشت کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ تعلیمی نظام درہم برہم ہے اور اس ساری صورتِ حال سے تقریباً ہر کنبہ متاثر ہوا ہے۔
اس عرصے کے دوران کشمیر میں صحافیوں کو کئی طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اگرچہ وادی کشمیر میں شورش کے آغاز کے ساتھ ہی یہاں کے صحافیوں کے لیے ہر ایک دن جدوجہد سے بھرپور ہے لیکن پانچ اگست 2019 کے بعد ان کے لیے اپنے فرائض انجام دینا اور زیادہ مشکل ہو گیا ہے۔معلومات تک رسائی پر پابندی، تمام قسم کی مواصلاتی سہولیات کی معطلی اور دوسرے سخت گیر اقدامات کی وجہ سے صحافیوں کو مکمل طور پر ناکارہ بنا دیا گیا تھا۔ اگرچہ مواصلاتی سہولیات بعد میں مرحلہ وار بحال کی گئیں، صحافیوں کو ہراساں اور انہیں غیر جانبدار رپورٹنگ سے باز رکھنے کی کوششیں تیز کی گئی ہیں۔اب بھی خبر حاصل کرنے کے لیے جائے وقوعہ تک رسائی پر قدغنیں عائد ہیں اور نئی حکومتی میڈیا پالیسی کے تحت صحافیوں پر دباؤ بڑھا دیا گیا ہے۔ یہی نہیں صحافیوں کی سرِ راہ مار پیٹ کے واقعات بھی پیش آتے رہتے ہیں۔گزشتہ برس اپریل میں تین کشمیری صحافیوں کے خلاف پولیس نے ایف آئی آرز درج کرلی تھیں۔ ان میں سے دو پر جن میں ایک خاتون فوٹو جرنلسٹ بھی شامل ہے غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام سے متعلق سخت گیر قانون کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ اس ایکٹ کے تحت جرم ثابت ہونے کی صورت میں مجرم کو سات سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔
دو جون 2020 کو حکومت نے جس نئی میڈیا پالیسی کا اعلان کیا تھا اس کے تحت حکومت کو ‘جعلی’، ‘غیر اخلاقی’ یا ‘ملک دشمن’ خبروں کا فیصلہ کرنے کا اختیار دیا گیا ہے اور یہ ایسے صحافی یا میڈیا ادارے کے خلاف قانونی کارروائی کا آغاز بھی کر سکتی ہے جو اس کی دانست میں اس قسم کی خبریں لکھنے، شائع یا نشر کرنے کا مرتکب پایا جاتا ہے۔متعلقہ عہدیداروں نے اس سخت گیر میڈیا پالیسی کا دفاع کیا ہے۔ پچاس صفحات پر مشتمل اس پالیسی دستاویز میں لکھا گیا ہے کہ “جموں و کشمیر میں امن و امان اور سلامتی کے مسائل درپیش ہیں، سرحد پار سے حمایت یافتہ در پردہ جنگ کا سامنا ہے اور ایسی صورتِ حال میں یہ انتہائی ضروری ہے کہ امن کو خراب کرنے کی سماج دشمن اور ملک دشمن عناصر کی کوششوں کو ناکام بنایا جائے۔”
بھارتی حکومت اور اس کے مختلف اداروں بالخصوص پولیس اور دوسرے حفاظتی دستوں کی طرف سے اطلاعات کی فراہمی محدود ہے بلکہ بعض معاملات میں یہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ بسا اوقات حکام صحافیوں کو آدھا سچ بتانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ روش آج کی نہیں بلکہ گزشتہ تین دہائیوں سے جاری ہے۔دوسری جانب حکومتی اداروں، پولیس اور حفاظتی دستوں نے پانچ اگست 2019 کے بعد ہم خیال صحافیوں اور رپورٹروں کے ایک الگ گروپ کا انتخاب کیا ہے جس کی ہمہ وقت حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اور اہم سرکاری تقریبات میں یہاں تک کہ پریس کانفرنسز کی کوریج کے لیے انہیں اہمیت دی جاتی ہے۔ آزاد صحافیوں کو اس طرح کی سرگرمیوں سے دور رکھنے بلکہ انہیں نظر انداز کرنے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے۔ ایسے صحافیوں سے سرکاری عہدیدار بھی انفرادی طور پر بات کرنے سے کتراتے ہیں۔ الغرض پانچ اگست 2019 کے بعد حکومت اور اس کے مختلف اداروں اور عہدیداروں کی طرف سے آزاد اور غیر جانبدار صحافیوں کے ساتھ روا رکھا گیا رویہ ہر لحاظ سے آزاد، خود مختار اور غیر جانبدار صحافیوں کے کام کو متاثر کر رہا ہے۔نیشنل کانفرنس کے صدر اور سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ کا کہنا ہے کہ انڈیا الائنس کا وجود آئین کے تحفظ کے لئے عمل میں آیا ہے۔ الائنس آئین کو دفن نہیں ہونے دے گا۔انڈیا الائنس کو آئین کے تحفظ کے لئے بنایا گیا مجھے ڈر ہے کہ آئین کہیں ختم نہ ہوجائے۔یہاں بھی روس اور چین کی طرح راج کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن انڈیا الائنس ایسا نہیں ہونے دے گا۔ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہا کہ وہ امیبدکر جی کے آئین کی حفاظت کریں گے چاہئے اس کے لئے انہیں جان بھی کیوں نہ دینا پڑے۔انڈیا الائنس مضبوط ہے اور کوئی بھی اس کو توڑ نہیں سکتا ہے۔چین کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا: ‘چین کے ساتھ بات چیت کا کوئی نتیجہ نہیں نکل رہا ہے، چین آگے بڑھ رہا ہے اس کے بارے میں کوئی بات نہیں کرتا ہے۔ نیپال کے زیر قبضہ بھارتی زمین کے بارے میں کچھ نہیں کیا اور وزیر اعظم نریندر مودی پر ہندوستان کی زمین بنگلہ دیش کو دی ہے۔ چین نے لداخ میں ہماری زمین پر قبضہ کیا ہے اور کل انہوں نے اروناچل پردیش کے گاؤں کے نام بھی لئے ہیں اور بی جے پی اس بارے میں کچھ نہیں کہیں گے۔جب آپ کسی کی طرف انگلی اٹھائیں، یاد رکھیں کہ تین انگلیاں بھی آپ کی طرف اٹھتی ہیں۔