وجود

... loading ...

وجود

کچہری نامہ (٢)

پیر 15 اپریل 2024 کچہری نامہ (٢)

زریں اختر

بندر روڈ(ایم اے جناح روڈ) پر واقع کچہری صدر دروازے کے ساتھ منسلک داخلی دروازے سے عوام و وکلاء برادری اور پھر مرد و زن کے الگ الگ داخلی در ہیں،یہاں سے داخل ہوں تو جامہ تلاشی کے مراحل ، عورتوں کی جامہ تلاشی اور تھیلے یا پرس کی تلاشی کے لیے کم از کم ایک اور زیادہ سے زیادہ دو خواتین پولیس اہلکار وہاں تعینات ہوتی ہیں۔ پہلے ساتھ تھیلوں وغیرہ کی جانچ مشین سے ہوتی تھیں اب کچھ عرصے سے مشین خراب ہے تو تھیلے کھول کر انہیں دیکھتی ہیں۔ شروع میں میں تھیلا مشین پر رکھ دیتی تھی اور پولیس اہلکا رمجھے جانے دیتی تھی ۔ پھر ایک دن ایک نوجوان خوب صورت پولیس اہلکار نے مجھے جامہ تلاشی دینے کے لیے ذرا آڑ میں پردے کے پیچھے بلایا ،اس تلاشی دینے میں میں نے کچھ اور بھی محسوس کیا اور اس پر احتجاج کیا کہ جس طرح وہاں مشینی دروازے ہیں یہاںبھی لگائیں جائیں۔مجھے پرس کی تلاشی دیتے ہوئے دھڑکا تو نہیں کہوں گی کیوں کہ میں ڈرتی نہیں ،اندیشہ ضرور لاحق ہتا تھاکہ یہ پیسے ویسے نہ نکال لیں ،لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا ،کم از کم میرے ساتھ نہیں۔ایک مرتبہ دوسری پولیس اہلکار نے میرا پرس میں موجود بٹوہ کھولا میں نے اس کے ہاتھ سے لے لیا تو اس نے کہا کہ آپ کیا سمجھتی ہیں ؟ ہمارے پاس پیسو ںکی کمی نہیں ، یہ دیکھیں کیمرے لگے ہیں ، آپ کے ایسا کرنے سے ہمارے اوپر شک جاتا ہے۔ میں نے اس کی بات کو سمجھ لیا۔ مجھے جامہ تلاشی دینے سے ذہنی کوفت ہوتی تھی ،لیکن پھر میں نے خود کو سمجھا لیا کہ یہ ان کی پیشہ ورانہ ذمہ داری ہے ۔ایک مرتبہ میں پرس کی تلاشی اور جامہ تلاشی دینے کے لیے ایک خاتون سے پیچھے کھڑی تھی کہ اس عورت نے کہا کہ یہ واپسی کا کرایہ ہے۔ ایک اور موقع پر ایک عورت نے آنکھوں میں آنسو بھر کر کہاکہ کل بھی آئے تھے ۔
اکثر انسانی حلیہ ہی نہیں اس کی صورت بھی اس کی معاشی و تعلیمی اہلیت کا پتا دے رہی ہوتی ہے۔ آپ کو کیسا نظر آتاہے اور دوسروں کو کیسا نظر آتاہے یا آپ کو کیا نظر آتاہے اور دوسرے کو کیا نظر آتا ہے یا آپ کیا دیکھتے ہیں اور دوسرا کیا دیکھتاہے ،ان کے جوابات یکساں ہو بھی سکتے ہیں اور نہیں بھی ۔ جو بات طے ہے وہ یہ کہ غریب الگ سے پہچانا جاتاہے ۔ میں سادگی پسند ہوں، لیکن پھر بھی ان پولیس اہلکار کے ان کے ساتھ اور میرے ساتھ برتائو میں فرق رہا ، سوال یہ ہے کہ کیوں؟ میرے ساتھ ان کا خصوصی برتائو نہیں تھا لیکن ان غریب ان پڑھ عورتوں کے ساتھ جیسا برتائو بھی نہیں تھا، ایک ہی جگہ ڈیوٹی ،آنے والے سب سائلین ،سلوک میں فرق کیوں؟ یہ ہمارا قومی مزاج ہے ۔ ان پولیس اہلکاروں کے معاشی حالات بہت اچھے نہیں ہوں گے لیکن ان کے جسموںپر وردی آگئی ہے ۔ اس وردی کے نتیجے میں ذمہ داری بعد میں اور اکڑ فوں پہلے آجاتی ہے۔ مجھے لگتاہے کہ جہاں جہاں ان پولیس اہلکاروں کی تعیناتی ہوتی ہوگی ان کی اپنی اصطلاحات میں تبادلہ خیال ہوتا ہوگاکہ ٹھنڈا ہے ،مندا ہے ،سُونا ہے کہ رونق ہے ، گرم ہے۔
میرا مشاہدہ ہے کہ اس معاشرے میں(ہوسکتاہے کہ دوسرے معاشرے بھی ایسے ہی ہوں، ممکن ہے کہ یہ زمان و مکاں کی قید سے بھی آزاد ہوں)کہ ایک طرف امیر دوسرے کو امیر بنتے دیکھ کر خوش نہیں ہوتا، وہ چاہتا ہے کہ اس سنگھاسن پر بس وہی براجمان رہے تو دوسری طرف غریب کو غریب کا احساس نہیں ۔ بسوں منی بسوں میں سفر کے دوران ایک مرتبہ ایک بوڑھی عورت چڑھی ،اس کے پاس کرایہ پورا نہیں تھا یا اگر اوپر کچھ پیسے ہوں گے تو وہ انہیں دینا نہیں چاہتی ہوگی کہ یہ چند سکے یا روپے بچ جائیں، کنڈکٹر بھی کبھی صاف ستھرے بھی ہوتے ہیں ، خوش مزاج بھی ،وہ کنڈکٹر خود بھی پسماندہ نظر آرہا تھا لیکن اس نے اس بوڑھی عورت کو اگرچہ بس سے تو نہیں اتارا لیکن دوچار باتیں سناضروردیں، نہ سناتا،اس کے لیے احساس چاہیے ا ،اس احساس کا بڑا فقدان ہے۔ ٹریفک کانسٹیبل اور بس ڈرائیور کے معاشی حالات میں کتنا فرق ہوتا ہوگا؟ فرق سرکاری وردی کا زیادہ ہے ، سرکاری وردی جسم پر چڑھے اور مزاج پر اثر نہ کرے ،یہ ہمارے معاشرے میں تربیت کی کمی کی وجہ سے ناممکنات کی حد تک مشکل ہے۔ روّیوں کے جو مظاہرے مشاہدے میں آتے ہیں اس سے تو یہی قیاس کیاجاسکتاہے ۔
مقدمات کی ہزار ہا نوعیتیں تو ہوں گی اور اس میں بھی باریک باریک مہین مہین افتراقات لیکن جو نکتہ سب میں مشترک قرار دیا جا سکتا ہے وہ ہے ‘قسمت کی مار یا اس کا پھیر’، او ر اگر اعتراف کرنے کی ہمت ہو تو’عقل کی مار یا پھیر ‘ نہیں ‘کم عقلی کی مار اور پھیر ‘زیادہ صحیح ہے کیوں کہ اب وقت کا نہیں پتا۔
ایک سائل خاتون جج صاحب سے کہہ رہی تھیں کہ مجھے سولہ سال ہوگئے یہ مقدمہ لڑتے ہوئے ،جج صاحب کیا کرتے بوجوہ ان کا مقدمہ کسی اور عدالت میں منتقل ہوچکاتھا۔ خاتون کے ساتھ جو صاحب تھے وہ انہیں لے گئے ،دونوں مناسب معلوم ہورہے تھے اور ڈٹے ہوئے بھی کہ جیسے جب تک عدالت فیصلہ نہ سنادے لڑتے ہی رہیں گے اور اگر فیصلہ ان کے حق میں نہ آیا تو شاید وہ اس فیصلے کے خلاف اپیل بھی کریں ، بعض لوگوں کے نزدیک پھر زندگی کا مقصد ہی یہ رہ جاتاہے کہ یوں ہے تو یوں ہی سہی ، دوسری طرف یہی نفسیات مجرم بھی رکھتاہے۔زندگی کے تضادات میں سب سے بڑا تضاد اور کش مکش ہی خیر اور شر کے درمیان ہے، ازل تا ابد۔
آپ صبح آٹھ بجے کورٹ میں داخل ہوں توایک عوام وہاں موجود ؛بچے ،بوڑھے ،مر د ،عورتیں، معذور ،غریب ؛ وہ کون سی امید ہے جو انہیں یہا ںلاتی ہے ؟اس شکوک و شبہات بھرے سماج میں ، اس بد اعتمادی کی مجموعی فضامیں ،فائلوں کے انبار ، ان کی یہاں سے وہاں منتقلی (میں سوچتی تھی کہ یہ سب جھوٹ کا کاروبار تو نہیں ہوسکتا)، وکلاء (یہ ایک الگ ہولناک و اندوہناک موضوع ہے)،اس پورے نظام میں واحد منصف ہے جس پر انصاف کی عمارت قائم ہے ۔ ایک مقدمے کی کاروائی میں جج صاحب نے ایک صاحب کو مخاطب کرکے کہ وہ اپنی عمر رسیدہ بہن کے زندہ ہونے کو عدالت سے چھپا رہے تھے کہا کہ” ابھی کانڑا دجال کے آنے میں بھی پانچ چھ سال تو باقی ہیں”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر