وجود

... loading ...

وجود

سوشل میڈیا کی چنگاری

هفته 13 اپریل 2024 سوشل میڈیا کی چنگاری

میر ی بات/روہیل اکبر

سوشل میڈیا بھی کیا خوب ہے جو خبریں ہمارے چینل دکھانے سے قاصر ہیں ،وہ سوشل میڈیا کی زینت بن جاتی ہیں اور پھرجس خبر کو ہمارے ارباب اختیار اپنے لوگوں سے چھپانا چاہتے ہیں ،وہی خبر دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا میں پھیل جاتی ہے۔ ایسا ہی کچھ ماجرا آجکل ہمارے ساتھ پیش آرہا ہے۔ عید کے دن جب بہاولنگر کے تھانہ میں ہماری پولیس کے شیر جوانوں کی درگت بنائی جارہی تھی انہیں تھانہ کے حوالا ت میں خوب مارا گیا اور پھر دھوپ میں کان پکڑوا کرانکی پریکٹس بھی کروائی گئی۔ اسکے بعد جو ویڈیو منظر عام پر آئی تو کچھ شرارتی قسم کے بچوں نے بہاولنگر پولیس کے جوانوں کے جسم پر مار پیٹ کے نشانات والی تصویریں اپ لوڈ کی تو ساتھ میں عمر اصغر خان کی بھی ایک تصویر لوڈ کردی جس میں وہ بھی پولیس کی مار کے بعد اپنے جسم پر زخموں کے نشانات دکھا رہے ہیں، جبکہ اور بھی بہت سی تصویریں نظروں سے گزری جو پولیس والوں کے تشدد سے بری طرح لہولہان تھے ۔ان میں بچے ،بزرگ اور نوجوان تو تھے ہی ساتھ میں خواتین کے ساتھ پولیس کی بہادری کے منہ بولتے ثبوت بھی تھے۔ ہماری پولیس نے بھی تو کسی نہ کسی کے حکم معصوم اور بے گناہ افراد پر ظلم کے پہاڑ توڑے تھے اور اب جب خود پولیس والوں کے ساتھ یہ سب کچھ ہوا ہے تومزے کی بات یہ ہے کہ کسی بھی طرف سے مذمت کا ایک بھی لفظ نہیں آیا کیونکہ جو بھی اسکی مذمت کریگا پھر اسکی مرمت کا بھی وقت آجائیگا۔ شائد اسی لیے بہاولنگر کے ڈی پی او نے پولیس کی ہلکی پھلکی مالش کے بعد دل کھول کر انہی کے حق میںنعرے لگائے بھی اس سارے خوبصورت کھیل کے بعد مجھے وہ سنہرے الفاظ یاد آجاتے ہیں کہ قانون مکڑی کا وہ جالا ہے جسے طاقتور پھاڑ کر نکل جاتے ہیں اورغریب ،مجبور ،بے سہارا اور بے یارو مدد گار لوگ مکھی کی طرح اس جالے میںپھنس جاتے ہیں۔
سوشل میڈیا عوام کو عقل و شعور تو دے ہی رہا ہے ساتھ میں اس نے ٹی وی چینلز اور اخبارات کی اجارہ داری بھی ختم کردی جوخبر کسی چینل اور اخبار میں نہیں ملتی وہ سوشل میڈیا پر ضرور مل جاتی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ وہ غیر تصدیق شدہ ہوتی ہے لیکن ہمارے اندر جو پابندی کی سختیاں بھری ہوئی ہیںان میں آکرہر خبر سچی لگنا شروع ہوجاتی ہے۔ اسی لیے تو پھر ہر خبر وائرس کی طرح پھیلتی ہے شائد اسی لیے ہماری حکومت نے سب سے بڑے پلیٹ فارم ایکس پر پابندی لگارکھی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو سوشل میڈیا مظلوم کی آواز ہے جو حکام بالا تک پہنچانے کا واحد آسان اور سستا ذریعہ ہے ۔جب بہاولنگر تھانے میں لتر پریڈ ہوگئی تو اسکے بعد سوشل میڈیا پر ایک طوفان سا برپا تھا۔ ویسے تو ہمارے تھانوں میں مار پیٹ ،ڈنڈا ڈولی ،کان پکڑوائی ،چارپائی لگانا جیسے درجنوں کھیل ہر روز کھیلے جاتے ہیں ہماری پولیس کے شیر جوان اپنی بڑی بڑی توندوں کے ساتھ جب کسی غریب کو الف ننگا کرکے اسکے ہاتھ اور پائوں پر پورے وزن سے کھڑے ہوکر ڈنڈوں،چھتروں اور بوٹوں سے تواضع کرتے ہیں تواس وقت انہیں کوئی انسانیت نظر آتی ہے اور نہ ہی محسوس ہوتی ہے۔ شائد اسی نفرت کا اظہار ہے جو لوگ سوشل میڈیا پر تبصرے کررہے ہیں ویسے تو بہت سے دلچسپ اور نوک دار تبصرے بھی ہیں لیکن ابھی ابھی رمضان گزرا ہے اور یہ واقعہ بھی عید کے دن کا ہے تو اسکی مناسبت سے صرف ایک ہی تبصرہ لکھ رہا ہوں کہ شیطان نے آزاد ہوتے ہی دو قریبی بھائیوں کو لڑوا دیامگر خوبصورت بات یہ ہے کہ ہمارے اداروں نے شیطان کی ساری کارروائی پر مٹی ڈالتے ہوئے مزید لڑنے سے انکار کرتے ہوئے ایک دوسرے کے حق میں زندہ باد کے نعرے بھی لگائے لیکن مار پیٹ اور بے عزتی کے اس واقعہ پر چند پولیس کے جوان دلبرداشتہ بھی ہوئے جنہوں نے اسے خوامخواہ عزت و بے عزتی کا مسئلہ بناتے ہوئے پولیس سے استعفے کا اعلان کردیا بلکہ ایک ایلیٹ فورس کے جوان نے اپنی وردی جلانے کی ویڈیو بھی شیئر کردی۔ یہ سوشل میڈیا کا ہی کمال ہے کہ اس نے ایک عام انسان کو بھی اپنی بات عوام تک پہنچانے کی ہمت دیدی ہے۔ ابھی ہمارے بزرگ اور بڑھتی عمر کے نوجوان اس نعمت سے محروم ہیں جس دن انہیں بھی اس چیز کی سمجھ آگئی تو پھر نہ جانے وہ اپنی یادوں کے کونوں کھدروں سے کیا کیا لے آئیں ۔کیونکہ ہمارے بزرگ اتنے تعلیم یافتہ بھی نہیں تھے اور انہوں نے حالات کی سنگینیوں کی وجہ سے اسے سیکھنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی۔ ویسے یادوں کے جو خزانے ہمارے بزرگوں کے پاس ہیں، وہ انہیں اب سوشل میڈیا پر لے آنے چاہیے تاکہ ہماری آنے والی نسلوں کو بھی معلوم ہوسکے کہ ہمارے ساتھ کیا کچھ ہوتا رہا بعض باتیں کتابوں میں ہیں لیکن اکثر باتیںلوگوں کے سینوں میں ہی دفن ہیں انسانی زندگی میں ڈر اور خوف علم کی کمی کی وجہ سے آتا ہے۔ شائد اسی لیے ہمیںہمارے حکمرانوں نے علم سے دور رکھنے کی کوشش کی کہ کہیں اس قوم کو بھی شعور نہ آجائے ہمیںتو آج تک اپنے بنیادی حقوق کا بھی علم نہیں ہے جو آئین پاکستان نے ہر شخص کو بلا تفریق دے رکھے ہیں۔ اسی بنیادی حقوق میں سے تعلیم ہر فرد کے لیے مفت ہے جو ہمیں نہیں دی جارہی حالانکہ علم حاصل کرو خواہ چین جانا پڑے لیکن ہمیں ہمارے ملک میں تعلیم کی آزادی نہیں یہاں ایک باپ کو ساری عمر گدھوں کی طرح کام کرکے اپنے بچوں کو پڑھانا پڑتا ہے اور پھر جب وہ ایم اے ،ایمایس اسی ،ایم فل یا پی ایچ ڈی کرنے کے بعد بھی خاکروب ،نائب قاصد اور کانسٹیبل کی نوکری کے لیے درخواست دیگا تو اس ماں باپ پر کیا گزرتی ہوگی ۔رہی بات معاشرے کی جو بے حس ہو چکا ہے انکی بلا سے جو مرضی ہوتا رہے کسی کو ئی پرواہ نہیں لیکن کہیں نہ کہیں ایک چنگاری ضرور سلگ رہی جو ایک دن علم کی حقیقی شمع روشن کریگی جس میں ایک دوسرے کے لیے پیار،خلوص، احساس، شعور اور آگہی بھی ہوگی۔ آخر میں ایک پیارے ،خوبصورت اور درد دل رکھنے والے انسان محی الدین وانی کی زبانی ایک قصہ کہ دو سال قبل شرپسندوں کے ایک گروپ نے چلاس میں لڑکیوں کے ایک اسکول کو آگ لگا دی جس سے مایوسی اور خواب چکنا چور ہو گئے لیکن ملبے کے درمیان امید کی ایک کرن ابھری ۔یہ ایک چھوٹی بچی کا دل دہلا دینے والا عزم تھا جس کے غیر متزلزل جذبے نے کمیونٹی کے اندر لچک کے شعلے بھڑکائے تھے ہر روز وہ انتھک محنت سے مزدوروں اور ٹھیکیداروں کو چائے پیش کرتی تھی اس کے چھوٹے چھوٹے ہاتھ نہ صرف کپ بلکہ مصیبت کے خلاف مزاحمت کا پیغام بھی اٹھائے ہوئے تھے ۔ہر گھونٹ کے ساتھ وہ ایک بحال شدہ اسکول کے اپنے خوابوں کو سرگوشی کرتی۔ اس کی آنکھیں اٹل یقین کے ساتھ چمک رہی تھیں ۔اس کی لگن نے دلوں کو ہلایادیا! صرف چند دنوں میں ایک زمانے کی ویران زمینیں تعمیر نو کی آوازوں سے گونج اٹھیں ۔ یہ ایک جذبہ تھا علم کی روشنی پھیلانے کاکہ وحشت اور دہشت زدہ ماحول کے باوجود اس تباہ حال اسکول کی تعمیر کے بعد صرف پانچ دنوں میں اسکول میں بچوں کا اندراج پہلے سے دوگنا ہوگیا ۔ ایسے ہی لوگوں کی پاکستان کو ضرورت ہے جو اپنے شعور کی وجہ سے حالات تبدیل کرنے کا ہنر جانتے ہیں ۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر