... loading ...
مولانا محمد سلمان عثمانی
عید الفطر کا دن اللہ کی طرف سے انعام کا دن ہے اور عام معافی کا دن ہے ،مسلمانوں کیلئے آج کا دن خوشی کا تہوار ہے اور اللہ کریم اپنے بندوں پر راضی ہو جا تا ہے۔ یومِ عید،ماہِ صیام کی تکمیل پر اللہ تعالیٰ سے انعامات پانے کا دن ہے، تو اس سے زیادہ خوشی و مسرّت کا موقع کیا ہوسکتا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ اُمّتِ مسلمہ میں اِس دن کو ایک خاص مقام اور اہمیت حاصل ہے ماہ مقدس اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمتوں، مغفرتوں اور عنایات و برکات کا خزینہ ہے۔ جب بندہ مومن اتنی بے پایاں نعمتوں میں ڈوب کر اور اپنے رب کی رحمتوں سے سرشار ہوکر اپنی نفسانی خواہشات، سفلی جذبات، جسمانی لذات، محدود ذاتی مفادات اور گروہی تعصبات کو اپنے رب کی بندگی پر قربان کر کے سرفراز و سربلند ہوتا ہے، تو وہ اللہ کے ہاں مقرب بن جا تا ہے ، اللہ کی رحمت جوش میں آتی ہے اور اس بندے کے گناہ معاف کر دیئے جا تے ہیں ۔چنانچہ یہ ماہ ِ مقدس ختم ہوتے ہی یکم شوال کو وہ دن عید الفطر کی صورت میں طلوع ہو جاتا ہے، اس دن غریب مسلمان بھائیوں کی صدقہ فطر کی صورت میں مدد کو اللہ پاک نے فرض قرار دیا ہوا ہے۔
آج کل جس طرح مہنگائی اور بے روزگاری نے صورتحال اختیار کی ہوئی ہے۔ اس میں تو بہت بڑی تعداد اپنے بچوں کو دو وقت کی خوراک مہیا کرنے سے بھی قاصر ہے۔ کجا یہ کہ وہ عید پر ان بچوں کی خوشیوں کے لئے کوئی کپڑے وغیرہ خرید سکیں اس لئے ہمیں چاہئے کہ عید الفطر کے اسلامی تصور کے مطابق زیادہ سے زیادہ مدد کریں۔ ایسے لوگوں کی ہم صدقہ فطر ادا کر یں اور جب اپنے بچوں کے لئے کپڑے خرید رہے ہوں تو کم از کم ایک غریب بچے کے لیے بھی اسی طرح کے کپڑے خرید لیں، اسی طرع جب عید کے پکوانوں کے لئے خریداری کریں تو کم از کم ایک غریب گھر کے بھی خریداری کر کے باعزت طریقے سے ان کے گھر تک پہنچا دیں۔یہ غریبوں کا امیروں پر حق ہے،ہم سب نے رمضان میں خوب عبادات کی ہوتی ہیں اور ان روضوں اور عبادات کا اجر تو اللہ کریم ضرور ہمیں عطا فرمائیں گے لیکن اگر ہم اپنی عبادات کے ساتھ غریب بھائیوں کی مدد کا اہتمام کر لیں تو یقین مانئے ہمیں کہیں زیادہ اجر مل جائے گا۔اگر ہم صحیح معنوں میں صدقہ فطر ہی ادا کریں تو اس سے نہ صرف غریب مسلمان اچھی عید منا سکیں گے بلکہ ان کے دل سے نکلی دعائوں سے ہماری قسمت جاگ اٹھے گی اوراللہ کی رحمت آن پہنچے گی جس سے یقینا اللہ جل شانہُ خوش ہوں گے۔حقیقت یہ ہے کہ جس کا بھروسا اللہ پر ہو اسے کوئی خوف زدہ نہیں کر سکتا اور نہ کوئی نقصان پہنچا سکتا ہے، مگر اتنا ہی جتنا اس کے مقدر میں لکھا ہوا ہوتا ہے۔دنیا ہم سے وہ سب کچھ تو چھین سکتی ہے جو بہرحال ایک دن چھن جانے والا ہے لیکن ہمارا ایمان نہیں چھین سکتی جسے ہمیں ہر حال میں بچا کر لے جانا ہے۔ کیوں کہ یہی ہمیں جہنم سے بچا سکتا ہے اور جنت میں داخل کروا سکتا ہے۔ غزہ کے مسلمانوں کو کہ کیسے وہ اپنے رب کی رضا پر راضی ہیں۔ اپنا سب کچھ لٹا کر بھی وہ ایسے مطمئن ہیں جیسے وہی سب سے زیادہ دولت مند ہیں۔ وہ بھوکے پیٹ ہو کر بھی اسرائیل کو لوہے کے چنے چبانے پر مجبور کر رہے ہیں۔ یہ ایمان کی طاقت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک مسلمان کے لیے اللہ پر ایمان ہی سب کچھ ہے، اگر یہ نہیں تو ساری دنیا کا اقتدار مل جائے تب بھی بے کار ہے۔فلسطین میں ہمارا قبلہ اول بیت المقدس ہے جو ہمارے ایمان اور روحانیات کا مرکز ہے جہاں پر مٹھی بھر یہودی آج اپنا تسلط قائم کر کے مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ رہا ہے،لیکن آج مسلمان اپنے فروعی اختلاف میں گھر کر اتحادواتفاق کے نہ ہو نے کی وجہ سے پریشان ہیں،ہم نے یہاں ہزار برس حکومت کی لیکن یہی ایک کام نہیں کیا جس کے نتیجے میں ان کو آج یہ دن دیکھنے پڑ رہے ہیں اور اگر ابھی بھی وہ یہ کام نہیں کریں گے تو ہمارے بعد میں آنے والوں کو اس سے بھی برے دن دیکھنے پڑ سکتے ہیں، عید الفطر کی خوشیاں مناتے ہوئے ہمیںاپنے غزہ کے مجبور و مقہور مسلمانوں کا خصوصی خیال رکھنا چاہئے اور پاکستان کی طرف سے خصوصی امدادی سامان کے ساتھ ساتھ عید الفطر کے حوالے سے اپنے ان مظلوم مسلمان بھائیوں بہنوں اور بچوں کیلئے لباس خوراک اور ادویات وغیرہ بھی بھجوانا چاہئے۔ صرف دعائیں کافی نہیں ہیں،اس وقت غزہ میں حالات انتہائی مخدوش ہیں،80 فیصد سے زیادہ شہری بغیر چھت کے آسماں تلے اپنی عید گزاریں گے۔ ہمیں چاہئے کہ انہیں بھائیوں کی طرع بھائی کا درجہ دیتے ہوئے اپنی خوشیوں میں انہیں شریک کریں یا پھر کم از کم ہم خود بھی عید پہ ہونے والے اضافی اخراجات کرنے کی بجائے وہ تمام اخراجات مدد کی صورت میں ان مظلوموں تک پہنچا دیں اور اپنی حکومت پر بھی اتنا پریشر ہم ڈالیں کہ وہ خصوصی جہازوں کے ذریعے یہ امدادی سامان عید سے پہلے وہاں پہنچانے کا خصوصی بندوبست کرے۔ اسی طرح پوری امت مسلمہ کو ہمیں یہ پیغام پہنچانا چاہئے کہ امت مسلمہ کا ہر ملک حکومتی سطح پر اس بات کو ممکن بنائے کہ ہر مسلم ملک سے عید الفطر کے حوالے سے خصوصی امدادی سامان غزہ کے مسلمانوں تک پہنچایا جائے۔اس کے علا وہ عید کے اس پرمسرت موقع پر ہمارا ایک کام یہ بھی ہونا چاہیے کہ آس پڑوس اور رشتے داروں پر نظر دوڑائیں کہ کہیں اُن میں سے کوئی ایسا تو نہیں، جو اپنی غربت اور تنگ دستی کے سبب عید کی خوشیوں میں شامل ہونے سے محروم ہے۔ اگر ایسا ہے، تو یقین جانئے، ہم خواہ کتنے ہی اچھے کپڑے پہن لیں، طویل دسترخوان سجا لیں، عیدیاں بانٹتے پِھریں، ہماری عید پھر بھی پھیکی ہی رہے گی، بلکہ ایسی عید، عید کہلانے کے قابل ہی نہیں، جس میں دیگر افراد شامل نہ ہوں۔حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو زمانہ خلافت میں لوگ عید کی مبارک باد دینے گئے، تو دیکھا کہ امیر المومنین خشک روٹی کے ٹکڑے تناول فرمارہے ہیں۔ کسی نے کہا”آج تو عید کا دن ہے؟” یہ سن کر آپ نے ایک سرد آہ بھری اور فرمایا”جب دنیا میں ایسے بہت سے لوگ موجود ہوں، جنھیں یہ ٹکڑے بھی میّسر نہیں، تو ہمیں عید منانے کا حق کیوں کر حاصل ہے؟دعا ہے کہ مولائے کریم ہم سب کو عید الفطر کی خوشیاں نصیب فرمائے اور اس موقع پر غریب ناداروں کو بھی یاد کھنے کی توفیق بخشے،اللہ کریم ہمارے پیارے ملک عزیز پاکستان کو تمام خطرات سے محفوظ رکھے اور صبح قیامت تک قائم و دائم رکھے۔آمین