... loading ...
میری بات/ روہیل اکبر
وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب نے رمضان المبارک کے آخری عشرے میں عمرہ ادا کیا اور روضہ رسول پر حاضری دی اور یہ سب کچھ انہوں نے اپنے خرچے پر کیا۔ شکر ہے کہ انہوں نے ملک و قوم کے لاکھوں روپے بچا لیے ۔جبکہ قوم اس بات پر بھی اپنے حکمرانوں کی مشکور ہے کہ انہوں نے پورا جہاز بھر کرسرکاری خرچ پر عمرہ ادا نہیں کیا بلکہ اپنے فیملی ممبران پر مشتمل چند لوگوں کے ہمراہ در مصطفی پر حاضری دی ۔حالانکہ جب مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں پی ڈی ایم نے پی ٹی آئی حکومت کا تختہ الٹا تھا تو پوری حکومت ہی سرکاری خرچ پر سعودی عرب عمرہ کی ادائیگی کے لیے چلی گئی تھی جبکہ وزیر اعظم کا بار بار شکریہ ادا کرنے کو دل کرتا ہے کہ ملکی معاشی حالات بہتری کی طرف نک پڑے ہیں ورنہ تو انہوں نے اپنے کپڑے بھی نیلام کرکے بھوکی ننگی قوم پر وار دینے تھے ۔شکر ہے کہ اسکی نوبت نہیں آئی اور تو اور عید میں ایک دن باقی ہے اور بازاروں میں رش بھی نہیں ہے کیونکہ لوگوں کی جیبیں خالی ہیں۔ سوچ رہا ہوں کہ کس کا شکریہ ادا کروں اتنا امن و سکون قائم کرنے پر ۔خیر سے اس کے علاوہ اور بھی بہت سے شکر کے مقام ہے ۔اور خاص کر سوشل میڈیا تو بھرا ہوا ہے پی ڈی ایم پارٹ1 اور پارٹ 2کاشکریہ ادا کرتے ہوئے چینی سستی ہو کر150کی ہوگئی ۔ورنہ 80 کی چینی میں تو مٹھاس ہی نہیں تھی۔ کھیر اچھا نہیں بنتا تھا جبکہ بجلی کا یونٹ بھی 70 روپے کا ہوا تو جان میں جان آئی ورنہ 14 روپے والی بجلی میں تو کرنٹ ہی نہیں تھا۔ بلب بھی کم روشنی دیتا تھا۔ اب تو دن میں بھی تارے نظر آتے ہیں۔ شکر ہے پٹرول بھی سستا ہو کر290 کاہو گیا۔130والے پیٹرول سے تو گاڑی مسنگ کرتی تھی۔ اب تو فراٹے بھرتی ہے۔ گھی بھی شکر کریں 600 کا ہو گیا۔ ہانڈی اب سوادی لگتی ہے ورنہ 400 والے سے تو کھانے کا مزہ ہی نہیں آتا تھا۔آلو پیاز دھنیہ پودینہ ککڑی کدو بینگن ٹینڈے آٹا دال چاول وغیرہ وغیرہ سب 8 گنا زیادہ مہنگی تو ہو گئیں ہیں مگر شکر ہے اب ان میں وٹامن زیادہ ہیں ۔کھانے کا لطف بھی آتا ہے اور عوام کی صحت بھی اچھی ہو گئی ہے۔
پی ٹی آئی دور میں چند اینکر قسم کی خواتین اور مردوں کو لوگوں کی رائے لینے میں بڑی مشکل پیش آتی تھی لیکن شکر ہے اب انہیں بازار بھی نہیں جانا پڑتا۔ بازاروں کے چکر لگا لگا کر تھک جاتے تھے ۔یہ لوگ اور تو اور شکر کریں شہباز شریف نے آ کر ملک بچا لیا۔ خزانے میں 5 ارب ڈالر سعودیہ اور چین کے پڑے ہیں ورنہ عمران خان دور میں 23 ارب ڈالر پہ ملک دیوالیہ ہورہا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ عمران خان نے 4 سال میں 12 ہزار ارب کا قرض چڑھا دیا تھا۔ شکر کریں شہباز شریف نے 16 ماہ میں 25 ہزار ارب کا قرض لیکر ملک کو قرضہ کی دلدل سے بچا لیااور 12 فیصد مہنگائی پر پاکستان کے عوام کنگال ہو گئے تھے۔ اب 45 فیصد مہنگائی کے بعد عوام کو مکمل سکون ملا اور طبیعت بھی صاف ہو گئی ہے جبکہ نئے پاکستان میں ملکی معیشت بھی 6 فیصد سے اوپر ترقی کرتے ہوئے ڈوب چکی تھی اور پھر جیسے ہی بلاول بھٹو نے پرانے پاکستان میں داخلے کا سرٹیفکیٹ جاری کیا تو شہباز شریف نے معاشی ترقی صفر سے بھی نیچے گرا کرملک کو ایشین ٹائیگر بنا دیا ن لیگ کے بڑے کہتے ہیں کہ ہم نے “سیاست گنوا کر ملک بچا لیا”۔ اس پر بھی شکر ہے خاص طور پر ان محنتی ،جفا کش اور بہادر صحافیوں کی بھی جان چھوٹ گئی جنہیں مائیک گھسا کر ملکی معیشت اور مہنگائی پہ پروگرام نہیں کرنے پڑتے اور ہمیں اپنے عدالتی نظام کا بھی شکر گزار ہونا چاہیے۔ جنہوں نے 45سال بعد بھٹو کی پھانسی کو عدالتی قتل قرار دیا۔ حالانکہ اسی عدالت کے حکم پر ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر چڑھا کر 35منٹ تک اسکی لاش کو رسے سے لٹکائے رکھاآج بھی ہمارے عدالتی اور پولیس کے نظام سے ہی ہماری جیلیں آباد ہیں اور ہماری جیل پولیس کا روزگار لگا ہوا ہے جہاں سے ہر ماہ لاکھوں روپے نذرانہ آنے سے ہماری معیشت کا پہیہ چل رہا ہے۔ اگر ہمارا عدالتی نظام اور پولیس والے درست ہو جائیں تو جیل اہلکار بیکار بیٹھ کر مکھیاں مارنے کا مقابلہ کررہے ہوتے اور ہمارے دکاندار گھروں سے ہی نہ نکلتے اس کے ساتھ ساتھ ہمیں شکر گزار ہونا چاہیے۔ اپنے نظام تعلیم کا بھی جن کی دن رات کی کوششوں اور محنتوں کے بعد پی ایچ ڈی اور ماسٹر ڈگری حضرات خاکروب ، کلرکی اور پولیس کانسٹیبل کی نوکری کے لیے درخواستیں جمع کروارہے ہیں تاکہ پڑھے لکھے افراد طریقے اور سلیقے سے صفائی ،ستھرائی کا کام کرسکیں لیکن اعلیٰ حکام انہیں بھرتی کرنے سے ہچکچاتے ہیں کہ ہم سے زیادہ پڑھے لکھے کہیں ہم سے زیادہ کام ہی نہ کرنا شروع کردیں۔ خیر اس میں کسی کو کچھ کہنے کے بجائے اپنے تعلیمی نظام کے گریبان میں جھانکنا چاہیے کہ جو تعلیم ہم اپنے بچوں کو دے رہے ہیں وہ انہیں کیا بنا رہی ہے۔ اگر آئین پاکستان کے حوالہ سے تعلیم کا ذکر کیا جائے تو پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 25ـA ریاست کو پابند کرتا ہے کہ وہ 5 سے 16 سال کی عمر کے بچوں کو مفت اور لازمی معیاری تعلیم فراہم کرے “ریاست پانچ سے سولہ سال کی عمر کے تمام بچوں کو اس طریقے سے مفت اور لازمی تعلیم فراہم کرے گی جس کا تعین قانون کے ذریعے کیا جائے” لیکن سرکاری سکولوں نے بھی فیس رکھی ہوئی ہے اور کتابوں کا بوجھ اضافی ہے ہماری حکومتوں کی کمال مہربانی سے اب لوگوں کے پاس اتنے پیسے بھی نہیں ہیں کہ وہ سرکاری سکول میں داخل کرواکر اپنے بچوں کی چند روپے فیس ہی ادا کرسکیں جبکہ اللہ تعالی کی رحمت والے گھرانوں کے بچے لاکھوں روپے فیس ادا کرکے پرائیوٹ ا سکولوں اور کالجوں میںتعلیم حاصل کررہے ہیں جو پھر بیرون ملک بھی چلے جاتے ہیں پاکستان میں تعلیمی نظام کو عام طور پر چھ درجوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے جن میںپری اسکول (3 سے 5 سال کی عمر کے لیے) پرائمری ( ایک سے پانچ) مڈل (چھ سے آٹھ سال)سیکنڈری (سال نو اور دس سال) سیکنڈری اسکول سرٹیفکیٹ یا ایس ایس سی، انٹرمیڈیٹ (گیارہ اور بارہ سال(ہائیر سیکنڈری اسکول سرٹیفکیٹ یا ایچ ایس ایس سی) اور یونیورسٹی کے پروگرام جو انڈرگریجویٹ اور گریجویٹ ڈگریوں کی طرف لے جاتے ہیں۔ پاکستان میں اسکول نہ جانے والے بچوں کی آبادی (22.8 ملین بچے) نائیجیریا کے بعد دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔ پاکستان میں پڑھے لکھے نوجوان 31 فیصد سے زیادہ بے روزگار ہیں خواتین کی مجموعی بے روزگار آبادی کا 51% حصہ ہے۔ پاکستان 2021 تک ہر سال تقریباً 445,000 یونیورسٹی گریجویٹس اور 25,000 سے 30,000 کمپیوٹر سائنس گریجویٹس تیار کرتا رہاہے جنکی تعداد اب پہلے سے بہت زیادہ بڑھ چکی ہے۔ ان مشکل ترین حالات میں بندہ ملک میں تعلیم کی بہتری کے لیے کام کررہا ہو شکر ہے اسکی ہم دونوں ٹانگیں پکڑ کر اتنی زور سے کھینچتے ہیں کہ جس سے باقی لوگوں کو بھی سبق مل جائے نہیں یقین تو بہاولپور کے سابق وی سی ڈاکٹر اطہر محبوب کا حشر دیکھ لیں جو ہم نے کیا ہے جبکہ اسی شعبہ میں پاگلوں اور جنونیوں کی طرح کام کرنے والے ایک اور سچے اور کھرے پاکستانی محی الدین وانی بھی ہیں جو ابھی تک اپنے کام میں ڈٹے ہوئے ہیں۔ دیکھتے ہیں وہ کب تک مافیا سے سرٹکرائیں گے خیر بات شکر کی ہی ہورہی تھی تو سب سے بڑھ کر شکر کا مقام یہ بھی ہے کہ ہم نے اپنے لوگوں کو اتنا باشعور ہونے ہی نہیں دیا کہ انہیں اچھے برے کی سمجھ ہی آجائے لیکن یہ سمجھ ان کو ضرور ہے جنہوں نے ملک وقوم کو اس حال تک پہنچا یا کہ اگر عوام کو عقل آگئی تو پھر شعبدہ باز قسم کے لوگ کہاں ہونگے اور ملک کہاں پر جائے گا۔ اس بات کا اندازہ شاید ابھی عوام میں سے کسی کو بھی نہیں لیکن پھر بھی شکر ہے کہ ان مشکل ترین حالات میں چوریاں ،ڈکیتیاں اور لوٹ مار کا بازار ہی گرم ہے۔ کوئی خانہ جنگی تونہیں ہورہی ناں۔