... loading ...
جاوید محمود
گزشتہ دو تین سال سے پاکستان میں سیاسی بحران نے سر اٹھایا ہوا ہے۔ اس دوران ہونے والے واقعات نے امریکہ میں مقیم پاکستانیوں کو انتہائی پریشان کیا اور اب حال ہی میں امریکی اخبارات میں کچھ ایسی خبریں منظر عام پر آئیں کہ خطوط کے ذریعے اینتھرکس ججوں اور مختلف لوگوں تک بھیجا گیا ہے۔ اس خبر نے نائن الیون کے بعد امریکہ میں ہونے والے انتھریکس کے حوالے سے ہونے والے ان واقعات کی یاد تازہ کر دی جن میں درجنوں افراد ہلاک ہو گئے تھے اور سینکڑوں شدید بیمار ہوئے۔ انتھرھکس انفیکشن کی چار اقسام ہیں، جلد کے ذریعے ،سانس پھیپڑوں کے ذریعے سب سے زیادہ مہلک معدہ ہضم کے ذریعے جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔ انتھراکس گمنام خطوط کے ذریعے فلوریڈا اور نیویارک کی خبر رساں ایجنسیوں اور واشنگٹن ڈی سی میں کانگرس کے دفاتر کی عمارت کو بھیجے گئے تھے سانس کے انتھراکس سے مرنے والے پانچ متاثرین میں سے دو پوسٹل ورکرز تھے۔ دیگر تین متاثرین کینٹکی کے دیہی علاقوں سے تعلق رکھتے تھے ۔یہ خطوط امریکہ کے نامور صحافیوں اور کانگرس مین کو بھیجے گئے۔ ایف بی ائی نے اس کیس میں 10 ہزار سے زیادہ لوگوں کو انٹرویو کیے اور چھ ہزار سے زیادہ ضمنی درخواستیں جاری کی گئیں۔ پوسٹل سروس نے اپنے ملازمین کے لیے 4.8ملین ماسک اور 88ملین دستانے خریدے اور 300 پوسٹل سہولیات کا انتھریکس کے لیے تجربہ کیا ۔یہ ایک حقیقت ہے کہ جب تک انتھریکس کے خطوط مختلف مقامات پر پہنچتے رہے۔ امریکہ میں ایک خوف کی فضا قائم رہی۔
پہلی جنگ عظیم میں بھی انتھرکس کا استعمال کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ بھی کئی جنگوں میں دشمنوں کے خلاف ہتھیار کے طور پر اسے استعمال کیا گیا ہے۔ اگر آپ غور سے جائزہ لیں تو یہ حقائق منظر عام پر آئیں گے کہ انسان انسان کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ چاہے وہ ایٹم بم کے ذریعے انسانوں کو مارے یا جدید ہتھیاروں کے ذریعے انسانوں کو ہلاک کرے۔ ان تمام واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ سب سے بڑا دشمن انسان کا انسان ہی ہے ۔یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ امریکہ میں بھی جن خطوط کے ذریعے انتھریکس بھیجا گیا اس پر ڈینجر کا سائن یعنی انسانی کھوپڑی بنی تھی۔ ہم اس دنیا میں اکثر ایسے لوگوں کے بارے میں سنتے اور پڑھتے ہیں جو مختلف اقسام کی چیزیں جمع کرنے کے شوقین ہوتے ہیں۔ بعض کا یہ کاروباربھی ہوتا ہے کہ وہ نایاب اور نادر یا انوکھی اشیاء جمع کرتے ہیں اور بعد میں ان کے شوقین افراد کو منہ مانگے داموں فروخت کرتے ہیں جس معاملے کے بارے میں آپ کے ساتھ بات کرنے جا رہا ہوں وہ ہے انسانی ہڈیوں کو جمع کرنے کا، جی ہاں آپ نے درست پڑھا۔ ہم بات کرنے جا رہے ہیں 24 سالہ امریکی شہری جان بچیاں فیری کی جن کے پاس چھ لاکھ امریکی ڈالر کی انسانی ہڈیوں کا ایک ذخیرہ موجود ہے جس کی مالیت پاکستانی روپیہ میں 16 کروڑ 80 لاکھ بنتی ہے۔ جان نے ایک موقع پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ امریکہ اور شاید دنیا کے کچھ اور ممالک میں اب بھی ایسے پرانے اور قدیم گھروں کی تعداد کافی زیادہ ہے کہ جن کے تہ خانوں میں مکمل انسانی ڈھانچے یا کچھ ہڈیاں موجود ہوں وہ کہتے ہیں کہ جن لوگوں کے سامنے اچانک سے یہ ہڈیاں اور انسانی ڈھانچے
آ جاتے ہیں وہ اس کے بارے میں نہیں جانتے کہ ان کے ساتھ انہوں نے کیا سلوک کرنا ہے اور کس سے رابطہ کرنا ہے۔ تاریخی طور پر ایسے شواہد بھی ملتے ہیں کہ انسانی ہڈیوں کی فروخت کا کاروبار نہ صرف عام تھا بلکہ بڑے پیمانے پر کیا جاتا تھا ۔تاہم یہ سلسلہ 1980کی دہائی میں ختم ہو گیا تھا۔جان نے اپنے تہہ خانے میں موجود ہڈیوں کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ یہ ان لوگوں کی باقیات یا ہڈیاں ہیں جنہوں نے طبی تحقیق کے لیے اپنے جسم عطیہ کیے تھے۔ انہیں قبرستانوں یا قدیم تدفین کے مقامات سے غیر قانونی طور پر حاصل نہیں کیا گیا۔ 1832 کے اناٹمی ایکٹ نے مردہ انسانی لاشوں کو طبی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی اجازت دی اگر کوئی جیلوں فیکٹریوں اور ہسپتالوں میں 48 گھنٹوں سے زیادہ لاش لینے نہیں آتا تھا تو لاشوں کو طبی تحقیق کی غرض سے استعمال کرنے کے لیے دے دیا جاتا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ ہڈیوں کا کاروبار 1800کی دہائی میں شروع ہوا اور 1920سے 1984تک بڑے پیمانے پر ہوا ۔اس طرح ہڈیوں کی تجارت پوری دنیا میں پھیلنے لگی۔
1950کی دہائی میں انڈیا ہڈیوں کا سب سے بڑا برآمد کنندہ تھا۔ مارچ 1985 میں انڈیا میں ایک چونکا دینے والی خبر سامنے آئی جس کی وجہ سے عالمی سطح پر اس کاروبار میں بڑی گراوٹ آئی۔ جان نے بتایا کہ انڈیا میں ہڈیوں کے ایک تاجر کے گودام سے 1500 بچوں کے ڈھانچے ملے ۔اس لیے پورے ملک میں اس عمل پر پابندی لگا دی گئی۔ انڈیا میں پابندی کی وجہ سے طبی اداروں کی جانب سے مصنوعی ہڈیوں کا استعمال شروع ہوا۔ آج ہڈیوں کا کاروبار دوبارہ شروع ہوا ہے۔ روزیانہ ٹیننسی اور جارجیا کے علاوہ امریکہ میں تمام ریاستوں میں لوگوں کو انسانی ہڈیاں فروخت کرنے کی اجازت ہے ان کا کہنا ہے کہ ہم عوام کو ہڈیاں فروخت نہیں کرتے۔ اسکول اور یونیورسٹیاں ہمارے اہم گاہک ہیں اور سرچ اینڈ ریسکیو ٹیمیں ہماری دوسری سب سے بڑی گاہک ہیں۔ وہ ہم سے ہڈیاں خریدتے ہیں اور ان کا استعمال سوراخ رساں کتوں کو لاشوں کا پتہ لگانے کی تربیت دینے کے لیے کرتے ہیں ۔سوراخ رساں کتے ان ہڈیوں کے ذریعے انسانی باقیات کی بو سونگ سکتے ہیں۔ اپنے سوشل میڈیا پیجز کے ذریعے جان انسانی ہڈیوں کے بارے میں لوگوں کے تصور کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جان کہتے ہیں کہ یہ صرف شو پیس نہیں ہیں۔ یہ ہم جیسے لوگوں کی ہڈیاں ہیں جو کبھی زندہ تھے اس لیے ان کے ساتھ عزت اور وقار کے ساتھ برتاؤ کیا جانا چاہیے۔ ان حقائق سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ کرونا وائرس اور انتھرکس سے مرنے والے افراد کی ہڈیاں اور کھوپڑیاں مارکیٹ میں فروخت ہو رہی ہیں اور ان کی بڑی قیمت ادا کی جا رہی ہے۔ ان ہڈیوں کو اور ان کھوپڑیوں کو تیزاب سے دھو کر فروخت کے لیے مارکیٹ میں لایا جاتا ہے کیونکہ اس سے ڈی این اے کے ذریعے کچھ حاصل نہیں کیا جا سکتا ۔
امریکہ میں خطوط کے ذریعے انتھریکس کا جس طرح استعمال کیا گیا ۔اس کے ذریعے کافی جانیں ضائع ہوئیں اور آج یہ تجربہ پاکستان میں کیا جا رہا ہے۔ ہمارے خفیہ اداروں کو تحقیقات کر کے معلوم کرنا چاہیے کہ آخر یہ کھوپڑیوں والے ڈینجر سائن کے خط کہاں سے ا رہے ہیں ۔ اگر وہ وہاں تک پہنچ گئے تو وہ اصل مجرموں تک پہنچنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ امریکہ انتھریکس کے مجرموں کو گرفتار کرنے میں کامیاب نہ ہو سکا۔