... loading ...
ریاض احمدچودھری
برطانیہ کے سابق چیف جسٹس سمیت 600 سے زائد وکلا، ججز اور قانونی ماہرین نے وزیراعظم رشی سونک کو لکھے 17 صفحات پر مشتمل خط میں کہا برطانیہ کی حکومت نے اسرائیل کو ہتھیاروں کی فروخت نہ روکی تو اس کے نتیجے میں برطانیہ خود بھی غزہ میں نسل کشی کا مرتکب قرار پائے گا۔ا سرائیل کو فوجی امداد کی فراہمی کے نتیجے میں نہ صرف برطانیہ نسل کشی میں ملوث قرار پائے گا بلکہ بین الاقوامی انسانی قانون کی سنگین خلاف ورزیوں کا مرتکب بھی ہو گا۔ اگرچہ برطانیہ سے زیادہ امریکا ، جرمنی اور اٹلی اسرائیل کو اسلحہ فروخت کرنے والے بڑے ممالک ہیں لیکن اگر برطانیہ پابندی لگا دے تو اس سے اسرائیل پر سفارتی و سیاسی دباؤ میں اضافہ ہوگا۔
اسرائیل کی طرف سے سات امدادی کارکنوں پر غزہ میں بمباری کرنے کے واقعے کے بعد برطانیہ میں ایک بار پھر یہ مطالبہ شدت پکڑ گیا ہے کہ اسرائیل کو اسلحہ کی فراہمی روکی جائے۔ اسرائیل کی ٹارگٹڈ بمباری سے ہلاک ہونے والے سات امدادی کارکنوں میں ایک برطانوی شہری بھی شامل ہے۔ برطانیہ نے گزشتہ روز اس واقعے پر احتجاج کے لیے اسرائیلی سفیر کو دفتر خارجہ میں طلب کیا تھا۔برطانوی وزیراعظم رشی سونک ان دنوں غیرمعمولی طور پر دباؤ کی زد میں ہیں کہ وہ اسرائیل کو اسلحہ کی ترسیل اور فروخت کو روکنے کے اقدامات کریں۔ برطانوی شہری کی غزہ میں ہلاکت نے اس سیاسی دباؤ کو ایندھن فراہم کیا ہے۔
برطانوی اپوزیشن کی تین بڑی سیاسی جماعتوں کے قانون سازوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اسرائیل کو اسلحہ کی فروخت معطل کرنے پر غور کیا جائے۔ لبرل ڈیموکریٹس نے مطالبہ کیا ہے کہ اسرائیل کو اسلحہ کی برآمد معطل کی جائے۔ سکوٹش نیشل پارٹی نے بھی اس تحریک کی حمایت کی ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ پارلیمان ایسٹر کے سلسلے میں اپنی چھٹیوں کو منسوخ کر کے اس بحران پر بحث کرے۔برطانیہ کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت اور آئندہ عام انتخابات سے متعلق پولز میں حکومتی جماعت بننے والی لیبر پارٹی نے کہا ہے کہ اگر وکلاء کہتے ہیں کہ اسرائیل نے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے تو اسرائیل کو اسلحہ کی فروخت بند ہونی چاہیے۔
لیبر پارٹی کے خارجہ امور کے سربراہ ڈیوڈ لامے نے کہا ہے کہ ‘اب جبکہ یہ مشورہ سامنے آچکا ہے کہ اسرائیل کو اسلحہ روکا جائے تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہم سب کو اس وضاحت کی ضرورت ہے کہ اسرائیل نے انسانی بنیادوں پر بنائے گئے قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔ اس حوالے سے میں ضرور کہوں گا کہ مجھے بھی بڑی تشویش ہے کہ اسلحہ معطل کیا گیا ہے۔’
برطانوی وزیراعظم رشی سونک نے اسرائیل کو اسلحہ فروخت سے متعلق مطالبہ کی مزاحمت کرتے ہوئے کہا ہے ‘ملک میں اسلحہ کی برآمدات کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ملک کا اسلحہ سے متعلق برآمدی لائسنس کا نظام بڑی احتیاط کے ساتھ وضع کیا گیا ہے اور سارے حساس پہلوؤں کو خیال میں رکھ کر بنایا گیا ہے اور اسی پر عمل کیا جاتا ہے ۔اسرائیل کی غزہ میں حماس کے خلاف جنگ کے طریقے پر اب سوال اٹھنے لگے ہیں اور مغربی ممالک پر اسرائیل کو ہتھیار فروخت کرنا روکنے کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے۔اسرائیل دنیا میں ہتھیار برآمد کرنے والا ایک بڑا ملک ہے لیکن جس طرح سے اس کی فوج نے درآمد شدہ طیاروں، گائیڈڈ بموں اور میزائلوں پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہوئے غزہ میں گذشتہ چھ ماہ کے دوران جو کارروائی کی ہے اسے ماہرین نے حالیہ تاریخ کی سب سے شدید اور تباہ کن فضائی مہمات میں سے ایک قرار دیا ہے۔جنگ کے خلاف مہم چلانے والے گروپوں اور اسرائیل کے مغربی اتحادیوں میں سے کچھ سیاست دانوں کا کہنا ہے کہ اسلحے کی برآمدات روک دی جانی چاہیے کیونکہ ان کے بقول اسرائیل عام شہریوں کی زندگیوں کے تحفظ اور ان تک انسانی امداد کی مناسب فراہمی کو یقینی بنانے میں ناکام ہے۔
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے ہتھیاروں پر پابندی کی حمایت کی ہے جس میں قرارداد کے حق میں 28 ممالک نے ووٹ دیا، 6 نے مخالفت میں اور 13 ممالک نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ امریکہ اور جرمنی دونوں نے مخالفت میں ووٹ دیا۔ جرمنی نے کہا کہ اس نے ایسا اس لیے کیا کیونکہ قرارداد میں واضح طور پر حماس کی مذمت نہیں کی گئی تھی۔ واضح رہے کہ امریکہ اور جرمنی اسرائیل کو ہتھیار فراہم کرنے والے ممالک میں سر فہرست ہیں۔غزہ میں جنگ سات اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملے سے شروع ہوئی جس میں تقریباً 1200 افراد ہلاک ہوئے۔ اطلاعات کے مطابق ان ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تر عام شہری تھے۔ دوسری جانب اس کے جواب میں اسرائیل کی جانب سے کیے جانے والے حملوں میں حماس کے زیرِانتظام وزارت صحت کے مطابق اب تک غزہ میں 33 ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں سے 70 فیصد بچے اور خواتین ہیں۔اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس کی افواج شہریوں کی ہلاکتوں سے بچنے کے لیے کام کر رہی ہیں جبکہ اس نے حماس پر شہریوں کو جان بوجھ کر جنگ میں جھونکنے کا الزام لگایا ہے اور یہ کہا ہے کہ امداد کی ترسیل پر کوئی پابندی نہیں ہے۔حماس کے سات اکتوبر کے حملے کے بعد کے دنوں میں امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا کہ امریکہ اسرائیل کے لیے ‘اضافی فوجی امداد’ بڑھا رہا ہے۔