... loading ...
عماد بزدار
(دوسری قسط)
میاں فضل حسین نے دلائل اور اعداد و شمار کے ساتھ بڑی مدلل جوابی تقریر کی۔” فرقہ وارانہ پالیسی”پر بات کرتے ہوئے میاں
فضل حسین نے کہا
”حقیقت یہ ہے کہ فرقہ وارانہ پالیسی یا فرقہ وارانہ نیابت ایک ایسا لفظ ہے جس کا کوئی صاف ، واضح، غیر مشتبہ اور دوٹوک مفہوم اب تک متعین نہیں کیا جاسکا ۔ اگر اس لفظ سے برے معنی لئے جائیں تو فرقہ واری کا مطلب یہ ہوگا کہ ایسی پالیسی جو مذہبی تعصب اور مذہبی جنون پر قائم ہو۔اور جس کا مقصد یہ ہو کہ ہر جائز و ناجائز طریقے سے اپنے ہم مذہب افراد کو ترقی دی جائے اور انہی پر انعام و اکرام کی بارش ہوتی رہے اگر قرارداد کے محرک کے ذہن میں فرقہ واری کا یہ مفہوم ہے اور ان کا مدعا یہ ہے کہ میں نے حکومت کے نظم و نسق کے کسی شعبہ میں اس قسم کی پالیسی پر عمل کیا ہے یا عمل کرنے کی کوشش کی ہے تو میں اس کو سراسر غلط ، بے بنیاد اور پادر ہوا بہتان قرار دے کر قطعاً قابل پذیرائی یا درخور اعتنا نہیں سمجھتا۔
اس کے برعکس اگر فرقہ وارانہ نیابت یا فرقہ وارانہ پالیسی سے یہ مطلب لیا جائے کہ کسی شخص کی قابلیت کا جائزہ لیتے وقت جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اس کی تعلیمی کیفیت کس درجہ کی ہے ۔ اس کا تجربہ کس پائے کا ہے ۔ اس کا خاندان کس حیثیت کا ہے ۔ اس نے حکومت وقت کی کہاں تک خدمت کی ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ ان امور کے ساتھ ساتھ اس بات کو بھی پیش نظر رکھنا روا ہے کہ آخر وہ شخص کس مذہب و ملت سے تعلق رکھتا ہے ۔
اگر فرقہ وارانہ پالیسی اور فرقہ وارانہ نیابت کی یہی تعریف ہے جو میں نے ابھی عرض کی ہے تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ مجھ کو اس چیز کا بانی یا موجد قرار دینے کی راجہ صاحب کے پاس کیا وجوہ ہیں۔ قطع نظر اس سے کہ میں نے اس پالیسی عمل کیا ہے یا اس پر عمل کرنے سے گریز کیا ہے ۔ ایک بات میں پورے وثوق اور کامل ذمہ داری کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ میں ہر گز اس پالیسی کا موجد یا بانی نہیں ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ میرے وزیر بننے سے بہت پہلے سے یہ پالیسی ہندوستان کے دیگر حصوں ہی میں نہیں ، پنجاب میں بھی رائج تھی۔ اس لئے یہ کہنا کہ میں فرقہ وارانہ پالیسی کا بانی ہوں یا میں نے ا س پالیسی پر عمل کرکے ہندو مسلم نفاق پیدا کیا ہے ، میری ذات پر ایک قبیح اتہام ہے جس کے جواز کی کوئی وجہ میرے مخالفین کے پاس نہیں ۔ اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرنے کا اہل ہوسکتا ہے کہ اس کی کوششوں سے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان اتفاق قائم ہوا تو لاریب وہ شخص میں ہوں۔
قرارداد کے محرک کو سب سے بڑا رنج یہ ہے کہ پنجاب کے وزیرتعلیمات نے صرف اپنے صوبے ہی میں نہیں بلکہ پورے ہندوستان میںہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان کشیدگی پیدا کردی ہے ۔ اس اعتراض کا جواب دینے کے لئے میں چند ضروری امور کی طرف آپ کومتوجہ کرنا چاہتا ہوں ۔
پہلا امر یہ ہے کہ اس ہندو مسلم کشیدگی کی وجہ کیا ہے ؟ ہم میں سے ہر شخص اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ 1916 سے پہلے یہ کشیدگی ہمارے ہاں موجود تھی۔ پھر مزید سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس کشیدگی کے اسباب کیا تھے ؟ اگر کوئی غیر جانبدار شخص ہمارے ملک کی تاریخ کے اس افسوسناک باب کا مطالعہ کرے تو اس پر یہ حقیقت فوراً منکشف ہوجائے گی کہ اس کشیدگی کا اولین سبب یہ ہے کہ ہم نے اپنے ملک کی روزمرہ معاشرت میں اس مذہبی نفرت و عداوت کو دخیل کر رکھا ہے جو آج ہمارے رگ و ریشہ میں سرایت کرچکی ہے ۔ یہ صحیح کہ موجوہ دور کے اکثر سیاسی کارکن اس نفرت و عداوت کا قلع قمع کرتے رہے ہیں لیکن نفرت و عداوت کا یہ جذبہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے باہمی اختلاف کی عمارت کا بنیادی پتھر بن گیا ہے میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ کیا آپ اس عمارت کو منزل بہ منزل اور اونچا کرتے جائیں گے یا اسے منہدم کرکے پیوند زمین کردینا چاہتے ہیں؟ ظاہر ہے اس سوال کا جواب میرے پاس نہیں فریق مخالف کے پاس ہے ۔
” نفرت عداوت کا یہ جذبہ جس کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے ، کئی صورتوں میں نمودار ہوتا ہے ۔ ایک صورت چھوت چھات بھی ہے ۔
ہندو صرف مسلمانوں ہی سے چھوت چھات نہیں کرتے بلکہ خود ہندو دھرم کے اندر ایک طبقہ دوسرے طبقے کو نجس خیال کرتا ہے ۔ مثلاً
برہمن غیر برہمنوں سے چھو جانا گناہ سمجھتے ہیں۔مثال کے طور پر صوبہ مدراس کو لیجئے ۔ وہاں جس باہمی نفاق نے آگ لگا رکھی ہے ،
کیا اس کا ذمہ دار بھی میں ہوں؟
”حکومت مدراس کے وزراء نے ایک قانون بنادیا ہے جس کی رو سے کوئی برہمن غیر برہمنوں پر تشدد نہیں کرسکتا۔ اس قانون کے مطابق
یہ فیصلہ ہوگیا ہے کہ موجودہ وزارت کے عہد میں کسی برہمن کو سرکاری ملازمت نہیں دی جائے گی ، نہ صرف یہ بلکہ کسی سرکاری ملازم کو جو برہمن ہے اس وقت تک ترقی نہیں مل سکے گی جب تک کہ حکومت کے تمام محکموں میں غیر برہمنوں کو ان کا جائز حصہ عطا نہیں ہوجاتا۔میں پوچھتا ہوں کہ کیا اس تمام تفرقے کا ذمہ دار بھی میں ہوں؟ یقین فرمایئے کہ اس کا ذمہدار میں نہیں ہوں بلکہ وہ قوم ذمہدار ہے جس کی
نمائندگی راجہ نرندر ناتھ صاحب کررہے ہیں۔
”رہا فرقہ وارانہ نیابت کا مسئلہ۔ قطع نظر اس سے کہ میں اس قسم کی نیابت کو اچھا سمجھتا ہوں یا برا ۔ سوال صرف یہ ہے کہ بحالات
موجودہ فرقہ وارانہ نیابت کی ضرورت ہے یا نہیں؟
جناب والا ! میری ذاتی رائے ہے کہ ایشیا ہی میں نہیں بلکہ دنیا کے تمام حصوں میں مذہب انسانی زندگی کا ایک ایسا زبردست عنصر ہے جس سے چشم پوشی نہیں کی جاسکتی۔ کسی شخص کے لئے یہ بڑ ہانک دینا آسان ہے کہ وہ مذہب کی پرواہ نہیں کرتا۔۔ لیکن اس قول پر عمل کرنا بے حد مشکل ہے ۔ہمارا روز مرہ کا مشاہدہ ہے کہ جو لوگ بڑی شدومد سے اپنے آپ کو مذہبی تعصبات سے بے نیاز ظاہر کرتے ہیں وہی سب سے زیادہ تنگ نظر بھی نکلتے ہیں۔ اس کے برعکس جو لوگ مذہب کی اہمیت کے قائل ہیں وہ نسبتاً زیادہ فراخ دل اور وسیع النظر ہوتے ہیں۔میں نے 1916 میں انہی خیالات کا اظہار کیا تھا اور آج بھی انہی عقائد کا پابند ہوں۔
”لیکن اگر کوئی شخص میرے خلاف یہ الزام عائد کرتا ہے کہ میں نے( ا) کو محض اس لئے نقصان پہنچایا کہ وہ ہندو تھا اور (ب ) کو خالصتا ًاس لئے اونچا درجہ دیا کہ وہ مسلمان تھا یا اگر راجہ صاحب میرے خلاف فرد قرارداد جرم مرتب کرتے وقت یہ فرمائیں کہ میںنے نااہل مسلمانوں کو ملازمت دے کر کر حکومت کے نظم و نسق کا معیار پست کردیا ہے تو یقین کیجئے کہ میں قسم کے الزام کو بے بنیاد ہی نہیں سمجھتا بلکہ اس کو اس منصب وزارت سے جس پر میں آج فائز ہوں ، غداری کے مترادف قراردیتا ہوں۔
جناب والا! مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ اگر کسی خاص مذہب و ملت کے افراد کو ملازمت میں جگہ دینے سے نظم و نسق کے معیار کے پست ہونے کا اندیشہ ہے تو ایسے آدمیوں کو ہر گز جگہ نہ دیجیے ۔ بلکہ میں تو ایک قدم آگے بڑھ کر یہاں تک کہنے کو تیار ہوں کہ اگر انگریزوں کی بجائے ہندوستانیوں کو اعلیٰ عہدوں پر فائز کرنے سے حکومت کے نظم و نسق کو ضعف پہنچنے کا اندیشہ ہے تو یہ عہدے ہر گز ہندوستانیوں کو نہیں ملنے چاہئیں۔
”آیئے اب اس بات پر بھی کچھ عرض کردوں کہ گورنمنٹ کالج کے داخلے میں فرقہ وارانہ نیابت کو کیوں رائج کیا گیا ہے ۔(جاری ہے)